• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ 60اسرائیلی فوجیوں نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کردیا ہے۔ انہوں نے ایک پٹیشن تیار کی ہے جس میں اپنے فیصلے کی وجہ یہ بیان کی کہ اسرائیلی فوج فلسطینی عوام سے زیادتیاں اور توہین آمیز سلوک کررہی ہے، اخبار کے مطابق ستمبر 2018ء میں فلسطینیوں کی تحریک انتفادہ دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 1600اسرائیلی فوجی فلسطینی علاقوں میں جانے سے انکار کرچکے ہیں جبکہ ان میں سے 40فوجیوں کو سزا بھی دی گئی ہے۔میرے خیال میں یہودی ریاست اسرائیل میں مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں اور صہیونی سیاست کے حامل افراد میں عربوں سے تعلقات کے مسئلے پر سخت نظریاتی اختلاف ہیں۔ مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی ہیں اور ان پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ قطعی نا مناسب ہیں۔ کثیر عرب آبادی کے درمیان رہ کر ان کو اپنا مخالف بنا لینا درست نہیں ان کا یہ کہنا بھی معقولیت پر مبنی ہے کہ عرب ہمیشہ کمزور اور باہمی اختلافات کا شکار نہیں رہیں گے اگر وہ متحد اور مضبوط ہوجائیں تو اسرائیل کا کیا حشر ہوگا؟ لیکن صہیونی سیاست کے زیر اثر جن کے پاس فوجی قوت اور حکومت کی طاقت ہے مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کی آواز موثر نہیں اس کے باوجود مذہبی عقائد کے حامل یہودی (اور اب فوجی جوان بھی) اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ فلسطینیوں کی تائید میں جو جلوس نکالے جاتے ہیں ان میں یہودی مذہبی رہنما (ربی) بھی شریک ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ صہیونیت نہ صرف اسرائیل کیلئے بلکہ یہودیوں کیلئے بھی خطرناک ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ صہیونی سخت نسل پرست ہیں دنیا کی غیریہودی آبادی سے انہیں ذرہ برابر بھی ہمدردی نہیں۔ امریکی اور عرب ان کی نظروں میں برابر ہیں بارہ سو سال کی تاریخ میں ہر قوم اور ہر ملک نے یہودیوں کے ساتھ ناانصافیاں کیں اور ان پرظلم کےپہاڑ توڑ ے لیکن مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کسی وقت بھی یہودیوں کے ساتھ کوئی بھی ناانصافی نہیں ہوئی اور نہ کبھی یہودیوں کو شکایت کا موقع ملا۔ یہودیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کبھی کشیدہ نہیں رہے جب بھی کسی ملک میں بالخصوص عیسائی مملکت میں ان کے ساتھ ناانصافیاں حد سے بڑھ جاتیں تو وہ اسلامی ملکوں اور شہروں میں پناہ لیتے آج اپنے اغراض و مقاصد کے تحت انہوں نے امریکی پشت پناہی حاصل کی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ دل سے ان کے دوست ہوں، صہیونی لابی یہ جانتی ہے کہ وہ تنہا عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور عربوں کے بڑھتے ہوئے جذبات اور عالم اسلام کی صہیونیت سے بڑھتی ہوئی نفرت کی تاب نہیں لاسکتے اس لئے امریکہ جیسی سپرپاور کی بھرپور تائید حاصل کرنا ان کیلئے ناگزیر ہے، صہیونی ادارے یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے دگنی تیزی سے وہ ان کی نفرت کا شکار ہورہے ہیں صرف مقبوضہ فلسطین کی مجموعی آبادی میں فلسطینیوں کی افزائش نسل کی شرح قریباً 5½فیصد ہے، آبادی میں اضافہ کی رفتار اگر ایسی ہی رہی تو 2026ء میں مقبوضہ فلسطین کی مجموعی آبادی میں فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب 58فیصد ہوجائے گا۔ اس بات کا انکشاف اسرائیلی یونیورسٹی کے ایک سروے میں کیا گیا ہے اسی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر فلسطینیوں کی حالیہ آبادی 18سال میں 18لاکھ سے بڑھ کر 28لاکھ ہوجائے گی جبکہ مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی میں ان کی آبادی 36لاکھ سے بڑھ کر 58لاکھ ہوجائے گی۔ اس سروے کی وجہ سے جہاں ایک طرف اسرائیل کی صہیونی لابی مستقبل میں فلسطین میں ’’آبادی بم‘‘ سے شدید اندیشے محسوس کررہی ہے وہیں یورپ میں یہودیوں کی تعداد میں کمی اور مسلمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کے باعث یورپ کے یہودیوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے انہیں خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ مغربی یورپ میں ہونے والی ہوش ربا آبادیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اور خطرناک نتائج وہاں (مغربی یورپ) کے یہودی باشندوں پر ضرور مرتب ہونگے۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے گھبرا کر بین الاقوامی یہودی کانگریس نے اپنی ایک رپورٹ میں ’’یورپ میں اسلام کا فروغ‘‘ کے نام سے ایک سروے کیا ہے، اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں یورپ میں مسلمانوں کے احوال، کوائف میں غیرمعمولی ’’آبادیاتی انقلاب‘‘ رونما ہوا ہے۔اسی رپورٹ میں آگے چل کر کہا ہے کہ ’’آج کل یورپ میں مذہب اسلام کو زبردست فروغ حاصل ہورہا ہے چنانچہ یہاں یورپی یونین میں شامل ممالک میں 2½کروڑ افراد ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں‘‘۔ (لفظ ’’سمجھتے‘‘ پر غور کیجئے) رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’حالیہ عرصہ میں یورپ کے مسلمان قابل لحاظ حد تک سیاسی طاقت کی نمائندگی کررہے ہیں‘‘ اگر مستحکم سیاسی نمائندگی کا یہی رجحان رہا تو 2029ء میں یورپ کی عام آبادی میں ان کی شرح کا تناسب 16فیصد ہوگا‘‘۔ یورپی ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے لاحق ہونے والے خطرات کے ثبوت میں یہودی عالمی کانگریس نے دو مثالیں پیش کی ہیں پہلی مثال برطانیہ کی ہے ۔رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 1961ء میں مسلمانوں کی تعداد 82ہزار تھی اور اب وہاں کی تعداد 56لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری مثال فرانس کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق فرانس میں اس وقت قانونی طور پر بسنے والے مسلمانوں کی تعداد 68لاکھ ہے جبکہ غیرقانونی طور پر لاکھوں تارکین وطن مقیم ہیں۔

بہت کچھ دوستو بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے

فقط اس خنجرِ دست جفا سے کچھ نہیں ہوتا

تازہ ترین