• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے چینی اور جلد بازی

آج دنیا کو ایک تیزی اور بے چینی نے گھیر رکھا ہے۔ جہاں دیکھوکام کو جلد از جلد ختم کرنے کی پڑی ہوئی ہے۔ ناشتہ کرنے میں جلدی، سڑک پر جلدی،آفس کے کام میں جلدی، نیز ہر زندگی کے کام میں جلد بازی سے کام لیا جا رہا ہے منافع کمانے کے بے جا اور نقصان دہ لالچ نے ہر ایک کو اتنا مصروف کردیا ہے جسکا پہلے تصور بھی نہیںتھا۔ ترقی کی رفتار اور سمت بے لگام ہو چکی ہے۔ہاں ترقی ضرور کی جائے لیکن اس میں جلد بازی سے گریز کیا جائے اور اخلاقیات کا خاص خیال رکھا جائے۔ ایک دشمن بھی ہے جو ہر طرح سے اس ترقی کو آپ کے خلاف ہتھیار بنا کر استعمال کرر ہا ہے اور بڑی ہی خوبصورتی سے آج کی بے لگام ترقی کا کارڈ استعمال کر رہا ہے۔ یہاں کسی ایک شخص یا ملک کی بات نہیں ہو رہی ۔ بلکہ شیطان اور اس کے پیچھے چلنے والے انسانوں اور جنوں کی بات ہو رہی ہے۔ اس کےعلاوہ نفس آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

اللہ تعالیٰ نے چند مخلوقات کو انسانوں کے سفر کیلئے مخصوص کردیا، ان کا حادثہ نہیں ہوا کرتا تھا، لیکن آج بھاری بھرکم لوہے کی گاڑیوں کے روزانہ حادثے ہوتے ہیںاور لوگ بہت تکلیف دہ موت مرتے ہیں۔ ہمارے پیارے ا ٓقاﷺ بھی حادثاتی موت سے بچنے کی دعا کیا کرتے تھے۔ تیزی سے کام وہاں کرنا چاہیے جہاں ایسا کرنے سے کوئی تکلیف نہ پہنچے اور ایسے ہی جب جلدی میں اپنی یا کسی دوسرے کی جان بچانے کا معاملہ ہو۔ لیکن ایسے میں بھی انسان احتیاط کرے ، ٹیکنالوجی کا استعمال ایسا ہونا چاہیے جس میں آپ خطرناک جلد بازی اور بے چینی سے بچیں۔ ٹیکنالوجی ایسی ہونی چاہیے جس میں آپ کی صحت اور اخلاقیات پر زد نہ پڑے۔ اگر ٹیکنالوجی مندرجہ بالا شرائط پر پورا نہ اترے تو اسے ترک کردیں اور اگر ایسا کرنا بہت مشکل ہو تو اس کے نقصان سے زیادہ سے زیادہ بچیں یا کوئی بچنے کاطریقہ اپنائیں۔ آج انسان نے سفری طیارہ تو بنا لیا ہے لیکن اگر اس میں ذرا سی ایسی خرابی وقوع پذیر ہو جائے جس سے یہ زمین پر جا گرے تو کتنی ہی جانیں تلف ہو جاتی ہیں۔ کیا یہ جلدی انتہائی خطرناک نہیں؟کیا بہتر نہیں کہ ہر سواری کی رفتار ایسی کر دی جائے کہ اگر حادثہ بھی ہو تو کوئی تکلیف یا جانی نقصان نہ ہو۔ کیا ہو جائے گا اگر ہم اپنی منزل پر آرام سے پہنچ جائیں۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں وہ ہی اشیا مارکیٹ میں متعارف کروائی جائیں جو کسی کی صحت کو متاثر نہ کریں۔ چاہے یہ آنکھوں کا معاملہ ہو، کھانے پینے کا معاملہ ہو یا دلی و دماغی اور روحانی صحت کا معاملہ ہو۔

٭٭٭٭

ذرا ہٹ کے

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کوبہترین نہری نظام سے نوازا ہے۔ ہر نہر کی اپنی ایک خاص خوبصورتی ہے جو بدلتی رہتی ہے۔ ان کو دیکھ کر انسان ان میں کھو جاتا ہے بعض تو ان میں بہت زیادہ خوبصورت ہیں۔ دریائوں کا معاملہ بھی کچھ ایسے ہی ہے۔ ان کی خوبصورتی کا اثر بڑے پیمانے پر محسوس ہوتا ہے۔ کتنا ہی اچھاہو کہ ہم سڑکوں کی طرح ان پر بھی سفر کریں۔ حکومت ان نہروں اور دریائوں پر پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر مختلف اقسام کی کشتیاں چلائے۔ فیری اور یاٹ کی جسامت والی کشتیاں بھی چلائی جائیں۔ یہاں میں لاہور کی نہر کابھی ذکر کرنا چاہتا ہوں اس نہر پر بھی کشتیاں چلائی جا سکتی ہیں۔ یہ کشتیاں روزمرہ کے سفر اور سیر کیلئے استعمال ہوسکتی ہیں۔ پلوں میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ کشتیاں باآسانی ان کے نیچے سے گزر سکیں۔ یہاں بند کیبن والی کشتیاں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کیلئے الگ الگ کشتیاں ہوں۔ فیملی والی کشتیاں الگ چلائی جائیں۔ ان کشتیوںکیلئے کھلے اور ہلکے پھلکے سے خوبصورت سٹیشن بھی بنائے جائیں ان سٹیشنوں کے علاوہ نہر کے ساتھ ساتھ ہوٹلز قائم کئے جائیں ان ہوٹلوں میں مچھلی کھانے کا اپنا ہی مزہ ہوگا۔ اب آپ لاہور سے ذرا باہر نکلیں تو آپ کو ایسی نہریں ملیں گی جو فطری دکھائی دیں گی ان نہروں پر بھی کشتیاں چلانی چاہئیں اور ایسے ہی نہر کے ساتھ ساتھ ہر علاقے کے طرز تعمیر کے مطابق خوبصورت سٹیشن بنائے جائیں۔ نہروں کے ساتھ لگنے والے مختلف شہروں اور دیہات کے مشہور پکوان والے ہوٹلز بھی قائم کئے جائیں۔ یہ ہوٹلز صرف ان لوگوں کے سپرد کئے جائیں جو اپنے علاقےکے بہترین کھانا بنانے والے ہوں نیز نہر کے ساتھ ہوٹلوں کی بھرمار سے بھی گریز کیا جائے کیونکہ اس سے نہر کی خوبصورتی بہت زیادہ متاثر ہوگی۔ پاکستان کی نہروں کا سفر کتنا خوبصورت ہوگا اور جب یہ سفر نہر سے دریا میں داخل ہوگا تو کیا ہی منظر ہوگا۔ پاکستان کے دریائوں کا سفر بھی بہت پرکشش ثابت ہوگا۔ دریائوں میں مختلف قسم کی چھوٹی اور بڑی کشتیاں ایک عجیب و غریب منظر پیش کریں گی ایسے لگے گا جیسے کسی باہر کے ملک کا مصروف پورٹ ہو۔ فیری جیسے چھوٹے بحری جہازوں کو چھوٹے ہوٹلوںمیں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بیراجوں کے اندر کشتیوں اور چھوٹے بحری جہازوں کے گزر نے کی جگہ بھی بنائی جا سکتی ہے جس پر ایک دروازہ بھی نصب ہو۔ ایسے ہی ڈیموں کے اندر بھی گزرنے کی جگہ بنائی جا سکتی ہے۔ یہاں بیراجوں اور ڈیموں کے دائیں اور بائیں اطراف سے بھی کشتیوں اور چھوٹے بحری جہازوں کے گزرنے کی جگہیں بنائی جاسکتی ہیں۔ یہ راستے آنے اور جانے کے لئے ہوں گے۔ تصور کریں ویگنوں، بسوں اور حتیٰ کہ سفری طیاروں کی مانند چھوٹے اور بڑے بحری جہازوں کا سفر اور ایسے ہی جب آپ ان بحری جہازوں کے اندر بیٹھیں گے تو آپ کو ان کا اندرونی حصہ بھی ان ہی سواریوں کی طرح معلوم ہوگا۔تصور کریں کہ ایک مشہور کمپنی جو سیر و تفریح کرواتی ہو آپ کو ایک ایسے چھوٹے سے بحری جہاز میں جو اندر سے سفری طیارے کی مانند ہو پہلے عرب ممالک کی سیر کروائے اور پھر اس سے آگے لے جائے اور اس مشہور کمپنی کو دنیا میں محفوظ سیر کروانے کا لائسنس بھی حاصل ہو۔ ہر کشتی میں چاہے وہ چھوٹی یا بڑی ہو، حفاظت کا سامان ہونا چاہیے۔ نیز اس کے لئے سمندری پولیس کا بھی ایک مضبوط نظام ہو۔ بحری جہاز عام طور پر ڈوبتا نہیں۔ یہ ساحل کے کنارے پر آجائے گا۔

تازہ ترین