السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
میگزین کا اثاثہ
اس امر پر انتہائی ممنون ہوں کہ راقم کی تحریر کو ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں جگہ دی گئی۔ خطوط کے جھرمٹ میں گرچہ طوطی کی آواز ہی معلوم ہوئی، مگر آپ نے اسے ایکو سائونڈ کے ساتھ ایسا منسلک فرمایا کہ آواز چہار سُو پھیل گئی۔ مطلب ہزاروں نہیں، تو سیکڑوں کا شرفِ نگاہ حاصل ہوگیا۔ نجمی صاحب کی تحریر پیغامِ حق ہے۔ یہ خدمتِ دین ہم لوگوں کے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ منور مرزا کی تحریریں طویل، لیکن باخبر رہنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ رئوف ظفر سے تجربہ کارماہرِامراضِ چشم ڈاکٹر ناصر چوہدری کا بہترین انٹرویو کیا۔ میرے خیال میں تو رئوف ظفر، منور مرزا اور منور راجپوت سنڈے میگزین کا اثاثہ ہیں۔ رابعہ فاطمہ نے شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے لیے اپنے قلم سے موتی بکھیرے، اچھی کوششں تھی۔ فاروق اقدس کی افغان مہاجرین کی واپسی کے ضمن میں لکھی گئی تحریر کا بھی جواب نہ تھا۔ (غلام اللہ چوہان، گزدر آباد، کراچی)
ج: آپ سے ہاتھ جوڑ کے التماس ہے کہ حاشیہ، سطر چھوڑ کے لکھنے کی عادت اپنائیں، آپ نے جس طرح ایک لفظ، دوسرے کے اندر مدغم کر رکھا ہوتا ہے، پھر پورے صفحے پر ایک نقطہ تک لگانےکی جگہ نہیں چھوڑتے، صفحے کے آگے، پیچھے، اوپر، نیچے تِل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی، یہ کچھ ہمارا ہی حوصلہ ہے کہ اِسے ایڈٹ کرکے شائع کیے دیتےہیں۔
دوپٹے کے بغیر ماڈل
ہم آپ کے رسالے کا ہفتہ بَھر بڑی بے چینی سے انتظار کرتے ہیں، کیوں کہ ہفتے بھرکی خبروں کا نچوڑ، کئی بہترین سلسلے جو پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں نجمی صاحب’’ قصّۂ فرعون‘‘ سُنا کر آج کے فرعونوں کو خبردار کر رہے تھے۔ ایران وعراق کے باسیوں کے، زائرین سے حُسنِ سلوک کی رُوداد سید امیر احمد نے بیان کی۔ فاروق اقدس غیر قانونی طور پر مقیم افراد پر حکومت کی مہربانیوں اوراب حتمی فیصلے کا احوال گوش گزار کررہے تھے۔
آپ سے ایک درخواست ہے کہ ’’اسٹائل‘‘ پر، ہر لباس کے ساتھ دوپٹے کا اہتمام لازماً رکھا کریں۔ کیوں کہ سنڈے میگزین میں بغیر دوپٹے کی ماڈل بالکل برداشت نہیں ہوتی۔ پروفیسر ڈاکٹر ناصر چوہدری سیفٹی ٹُولز کےبغیرکمپیوٹر، موبائل کےاستعمال کو بصارت کے لیے زہرِقاتل بتارہے تھے اور بالکل درست ہی فرما رہے تھے کہ آج کل تو جدھر دیکھو، چھوٹے چھوٹے بچّے نظر کی عینکیں لگائے دکھائی دیتے ہیں۔ اختر سعیدی کتب پر تبصرہ اپنے ہی انداز میں کرتے ہیں۔ سید آفتاب حسین نے معیاری پرائمری تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ رونق افروز برقی، شاہدہ ناصر، غلام اللہ چوہان، شاہدہ بیگم وغیرہ کے خطوط سے مرصّع تھا، پڑھ کے بےحد مزہ آیا۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو،ضلع مظفر گڑھ)
ج: دوپٹے کے بغیر ماڈل، ہمیں بھی کچھ زیادہ نہیں بھاتی، مگر یہاں معاملہ ہماری پسند، نا پسند کا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ کئی ڈریس ڈیزائنرز نے اب اپنے ملبوسات کے ساتھ دوپٹے بنانے ہی چھوڑ دئیے ہیں، اور ہم ڈریس ڈیزائنرز کو اِن شوٹس کے لیے کوئی معاوضہ تو دیتے نہیں کہ ان سے اسپیشل پہناوے تیار کرنے کی فرمائش کر سکیں۔ سو، بعض اوقات بغیر دوپٹوں کے بھی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔
اصلی ، خاندانی نواب ہیں…
منورمرزا ہمیشہ کی طرح ’’حالات وواقعات‘‘ ہی میں اُلجھے نظر آئے، اُن کا کہنا تھا کہ پیٹرول کی قیمت میں ایک ماہ میں48روپے کمی ہوئی، لیکن اِس کمی کا فائدہ جب تک عوام تک نہیں پہنچتا، کچھ حاصل نہیں۔ مَیں خُود دکان داروں سے یہی سوال کرتا ہوں’’پیٹرول کی قیمت کم ہونے کے بعد آپ نے کتنی چیزوں کے ریٹ کم کیے؟‘‘ تو جواباً آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں محمود میاں نجمی ’’قصّہ آتشِ نمرود کا‘‘ لے کر آئے۔ بخدا قرآن کے قصّوں میں کس قدر دروس اور اسباق پوشیدہ ہیں، اگرکوئی حاصل کرنا چاہے، تو اپنی پوری زندگی سنوار لے۔ آج فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے، اِس کو ایمان کی کمی کا نتیجہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ بقول علامہ اقبال ؎ آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا… آگ کرسکتی ہے، اندازِ گلستاں پیدا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں ڈاکٹر عبدالمالک فالج کے عالمی یوم کی مناسبت سے خاص مضمون لے کر آئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ فالج کا اٹیک ہو تو ایک لمحے کی تاخیر نہ کی جائے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘میں قاری محمّدعثمان مسجد اقصیٰ کی فضلیت بیان کر رہے تھے، جو ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں عرفان جاوید کیا ہی خُوب صورت تذکرہ لائے، مگرامجد صاحب کی تاریخِ پیدائش کا ذکر نہیں تھا، جو ہوناچاہیے تھا۔ البتہ تصاویر کاانتخاب عُمدہ تھا، خصوصاً انور مسعود کے ساتھ تصویر یادگار لگی۔ اور ’’انٹرویو‘‘ میں سید خلیل الرحمٰن اور فرّخ شہزاد نے نگران وزیرِ اطلاعات سے اچھی بات چیت کی۔
افسوس کا مقام ہے کہ بلوچستان کی سابقہ حکومت کو ڈیم کی تعمیر کے 750 ارب روپے دئیے گئے، جو کرپشن کی نذر ہوگئے۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں نازیہ آصف، وادیٔ سوات کی سیر کروا رہی تھیں۔ ’’متفرق‘‘ میں مرزا محمد رمضان نے لاہور کے دو چڑیا گھروں کا ذکر کیا۔ لیکن ہمیں کیا، ہم زندگی میں کبھی لاہور گئے، تو ہی دیکھ سکیں گے، کیوں کہ اب چڑیا گھر تو ہمارے گھر آنے سے رہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’تریاق کا زہر‘‘ افسانے میں بڑی گہرائی تھی، جب کہ حامد علی سید، سید سخاوت علی جوہر اور شبینہ گل انصاری کی غزلیات شان دارتھیں۔ ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل کرنےکا شکریہ اورہاں، ہم آپ کوبتا دیں کہ خادم ملک خُودساختہ نہیں، اصلی خاندانی نواب ہیں۔ آپ اُن کی شان میں گستاخی نہ کیا کریں، انہوں نے ہتکِ عزت کا مقدمہ کردیا، تو کہاں عدالتوں کے چکر کاٹتی رہیں گی۔
یوں بھی وقت ہی کہاں ہے، آپ کے پاس، اِن سب مسئلوں میں پڑنےکا۔ اگلے شمارے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں بھی منور مرزا چھائے دکھائی دئیے۔ اور ’’بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے‘‘ کے دس سال مکمل ہونے کے حوالے سے بہترین تجزیاتی مضمون تحریر کیا۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں حضرت یونس علیہ السلام کا قصّہ بیان کیا گیا۔’’رپورٹ‘‘ میں طاہراصغر قرآنِ کریم کی کتابت کے سافٹ وئیر سے متعلق معلومات دے رہے تھے۔’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نےمسلم ممالک کو للکارا، مگر انہوں نے تو لگتا ہے، بے حسی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔
بہرحال، سمیحہ قاضی کا مضمون بہت ہی زبردست تھا، خاص طور پرکیاخُوب لکھا کہ ’’حماس کےحملے سےاسرائیل کےناقابلِ شکست ہونے کا تصوّر پاش پاش ہوگیا۔‘‘ ’’متفرق‘‘ میں پروفیسر لطافت علی جوہر، ادبی سلطنت کی شہزادی قراۃ العین کا تذکرہ لائے اور آخر میں ذکرِ خیر، ’’آپ کا صفحہ‘‘کا۔ اِس شمارے میں بھی آپ نے ہمارا خط شامل کیا، بہت بہت شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: خادم ملک کے اصلی، خاندانی نواب ہونے کا الہام آپ کو کیسے ہوا، اور بھائی، ہتکِ عزت کا مقدمہ کرنے کے لیے بھی جیب میں رقم ہونا ضروری ہے۔ نیز، امجد صاحب کی ’’یادداشتیں‘‘ کوئی روایتی پروفائل ہرگز نہیں تھا، وہ عرفان جاوید کی اُن کے ساتھ کچھ غیرروایتی باتوں، سنگتوں اور یادوں کا مجموعہ تھا، جب کہ کسی کی تاریخِ پیدائش تو آج کل گوگل ایک لمحے میں بتا دیتا ہے۔
پیاس بُجھانے میں معاون
اُمیدِ واثق ہے کہ آپ اور تمام قارئین خیر خیریت سے ہوں گے۔ ہم ’’سنڈے میگزین‘‘ کا مطالعہ بڑے ذوق وشوق سے کرتے ہیں، اس لیے کہ علم وادب سے گہری دل چسپی ہے اور آپ کا شمارہ علمی پیاس بُجھانے میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے۔ اِس کے لگ بھگ تمام ہی سلسلے معلومات سے بھرپور اور مَن پسند ہیں۔ (شری مرلی چندجی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
کمال کی ای میل
تازہ سنڈے میگزین کے ’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی اور ’’رپورٹ‘‘ میں فاروق اقدس موجود تھے۔ خاص طور پر فاروق اقدس کی ’’رپورٹ‘‘ تو بہت ہی پسند آئی۔ سرِورق کی ماڈل کی ماڈلنگ بھی شان دار تھی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں واقعہ ’’کسی نے ایک نہ سُنی‘‘ اچھا تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شہزادے کو تخت مبارک ہو۔ اگلے ایڈیشن میں فہیم زیدی، دمام‘ سعودی عرب سے صحرائی تفریح گاہوں کا احوال لائے، پڑھ کراچھا لگا کہ وہاں تو ایک نئی ہی دنیا آباد ہے۔
فاروق اقدس نے گوجر خان کے طارق شریف کا انٹرویو کرکے، ایک ایسے انسان سے ملاقات کروادی، جس نے اپنی محنت کی بدولت بہت کچھ حاصل کیا، اللہ تعالیٰ نے اُسے کمال کی شان وشوکت عطاکی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی ساری ہی تحریریں اچھی تھیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات بھی پُر اثر تھے اور آپ کی محنت سے تیار کردہ ناقابلِ اشاعت کی لسٹ بھی پڑھ لی۔ ’’متفرق‘‘ میں مومنہ حنیف کی سلطان صلاح الدین ایوبی پرتحریرمعلوماتی تھی۔ آدھے صفحے میں گویا ساری داستان بیان کرکے رکھ دی۔ اس بار’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں ایک ہی ای میل پڑھنے کو ملی، لیکن عمیر محمود نے کیا کمال کی ای میل لکھی اور آپ نے بھی بہت ہی عُمدہ جواب عنایت کیا۔ ( رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: جی ہاں، خاصی متاثر کُن ای میل تھی، تب ہی پورے کالم کی جگہ دی گئی۔ اوراِسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اچھی تحریر اپنی جگہ خُود بنالیتی ہے، اُسے کسی سفارش، حوالے کی ہرگز کوئی حاجت نہیں ہوتی۔
پنڈی والوں سے ناراض
اللہ شاد وآباد رکھے۔ کبھی کبھی ہماری طرف بھی دیکھ لیا کریں۔ عرصہ پہلے ایک خط اور ایک ملّی ترانہ ارسال کیا تھا۔ کوئی جواب نہیں آیا، لگتا ہے، آپ پنڈی والوں سے کچھ زیادہ ہی ناراض رہتی ہیں۔ اتنا غصّہ نہ کیا کریں۔ زیادہ غصّہ آیا کرے تو آدھا گلاس پانی دَم کرکے پی لیا کریں۔ ویسے توزندگی میں اب خوشیاں کہاں۔ ہاں، جریدے کی تحریریں پڑھنے سے اطمینانِ قلب ہوجاتا ہے۔ ہاں اس بار’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے صفحے پر پروفیسر ڈاکٹر ناصر چوہدری کا انٹرویو بہت پسند آیا۔ (سیّد شاہ عالم زمرداکبر آبادی، راول پنڈی)
ج: ہمیں اپنی طرف متوجّہ کرنے کی بجائے کیا اچھا ہو کہ آپ جریدے پر کچھ توجّہ مرکوز کرلیا کریں۔ آپ کا خط شایع کردیا گیا تھا اور ملّی نغمہ،حسبِ معمول بے وزن تھا۔ رہی پنڈی والوں سے ناراضی کی بات، توبھئی، اُنہوں نے کون سا ہماری اراضی پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے، ہم اُن سے بھلا کیوں ناراض ہوں گے۔
فی امان اللہ
خط چَھپتے چَھپتے، 2024ء کا آغاز ہو ہی چُکا ہوگا۔ ویسے جس تیزی سے وقت گزر رہا ہے، سال گزرنے کا بھی پتا نہیں چلتا۔ لگتا ہے ابھی ’’سال نامہ‘‘ آیا تھا، جومَیں پورا پڑھ بھی نہ پائی، بس سنبھال سنبھال رکھتی رہی کہ فرصت سے پڑھوں گی۔ ایسے ہی نئی کُتب کا تعارف پڑھتے وقت بہت جی چاہتا ہےکہ یہ بھی منگوا لوں، وہ بھی منگوا لوں، مگردوسرے ہی لمحے وہ تمام کتابیں، جو فرصت کےانتظار میں جمع کر رکھی ہیں، یاد آجاتی ہیں۔ خدا کرے کہ کبھی یہ تمام پڑھ پائوں۔ اُمید پہ دنیا قائم ہے۔
بہرکیف، شمارہ ہاتھوں میں ہے، ’’قصص القرآن‘‘ میں قرآن کا بہترین قصّہ، قصّہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اختتام کو پہنچا۔ حالاں کہ یہ قصّہ پہلے بھی کئی بار پڑھ چُکی ہوں، مگر قرآنِ پاک کا یہ اعجاز ہے کہ جتنی بار پڑھو، وہی لُطف اورسُکون حاصل ہوتا ہے اور اُس پر مضمون نگار کا اندازِ تحریر، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ ہمارے پسندیدہ منور راجپوت اس بار بہت ہی دل چسپ اور معلومات سے بھرپور موضوع کے ساتھ موجود تھے۔
یقین کریں، ’’تاریخ اسلامی کے نوجوان شہنشاہ‘‘ پڑھ کر بہت ہی مزہ آیا اور کچھ تاریخی باتیں تو مَیں نے پہلی بار پڑھیں۔ اتنا اچھا مضمون لکھنے کا شکریہ۔ یہ پڑھ کر افسوس ہوا کہ ہماری دوسری پسندیدہ رائٹرشفیق رفیع، ’’سنڈے میگزین‘‘ چھوڑ گئی ہیں۔ ویسے آپ اُنہیں نہ جانےدیتیں، تواچھا ہوتا۔ بہرحال، ہماری دُعا ہے، جہاں رہیں، خوش رہیں۔ درمیانی صفحات پر آپ کی تحریر سے تو ماڈل بھی سج جاتی ہے۔
خُوب صُورت الفاظ سے مالا بُننا تو کوئی آپ سے سیکھے۔ ماشاءاللہ نظر نہ لگے۔ بریسٹ کینسر پر لکھی گئی ہماری تحریرشائع کرنےکا بےحد شکریہ۔ مہربانی۔ اسی حوالےسےڈاکٹرقراۃ العین ہاشمی کی تحریر بھی کافی معلوماتی تھی۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی کے ساتھ کیا گیا ’’سفرِوسط ایشیا‘‘ اختتام کو پہنچا۔ ہمیں توویسے ہی نئی نئی جگہیں گھومنےکابہت شوق ہے، حالاں کہ زیادہ کہیں جا نہیں سکے، تو بس سفرناموں ہی سے شوق کی تسکین کر لیتےہیں۔
اِسی سبب چاچا جی (مستنصرحسین تارڑ) کے بھی تقریباً تمام ہی سفرنامے پڑھ ڈالے ہیں۔ آپ سے بھی التماس ہے کہ ناول کے بجائےسفرنامےہی شائع کیاکریں۔ ناقابلِ فراموش تو ہے ہی ہمارا پسندیدہ سلسلہ، دونوں واقعات اچھے تھے، خاص طور پر کورونا کے دوران لوگوں کوجو پریشانی ہوئی، اُس کا بالکل صحیح نقشہ کھینچا گیا۔ اب بات، اپنے پسندیدہ صفحے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، ضیاء الحق قائم خانی نے منور راجپوت کےوالدِمحترم کےانتقال کی اطلاع دی۔
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ شری مرلی چند جس مستقل مزاجی سے مختصر خطوط لکھتے ہیں، داد دینی پڑتی ہے۔ اس ہفتے کی چِٹھی، ناز جعفری کے نام تھی۔ ہاں، آج کل آپ کے جوابات کچھ ہولے ہوگئے ہیں۔ نرجس جی! فلسطین کے حالات،مظالم دیکھ کہ دل بہت اداس اور پریشان رہنے لگا ہے، خاص طور پر بچّوں کا دُکھ تو دیکھا نہیں جاتا۔ اپنے کچھ جذبات کو الفاظ کی شکل دی ہے، اگر مناسب لگیں توشائع کردیں۔ نہ لگیں، تو کوئی گلہ نہیں۔ (ڈاکٹر تبسم سلیم، خیرپور)
ج: ڈاکٹر صاحبہ! اچھے مستقبل کی تلاش میں نکلنے والوں کو بھلا کیسے روکا جاسکتا ہے۔ یوں بھی پرنٹ میڈیا تو اب وینٹی لیٹر پر ہے۔ نوجوان بچّے اپنے کل کے تحفظ کے لیے اُڑان بھرنے کی خواہش کریں، تو پَر دینے چاہیئں، نہ کہ کاٹنے کو پَرتولے جائیں۔ اب الیکٹرانک میڈیا کا دَور ہے۔ ہمیں تو بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے تربیت یافتہ آج مختلف اداروں میں ہم سے کئی گنا زیادہ مشاہرے پر کام کررہے ہیں اور رہی بات سفر ناموں کی، تو اب تو وقتاً فوقتاً شائع کیے ہی جارہے ہیں۔ آپ کے منظوم جذبات و احساسات شاعرِمحترم کو چیک کروا لیے جائیں گے، اگروزن میں ہوئے،توشایع بھی ہوجائیں گے۔
* اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گی۔ مَیں آپ کا اور آپ کی پوری ٹیم کا تہ دل سے شُکر گزار ہوں کہ میرا مضمون بعنوان ’’ڈینگی وائرس‘‘ شائع کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں پر خصوصی کرم فرمائے۔ (آمین) (ڈاکٹر ایم عارف سکندری، کھوکر محلہ، حیدرآباد)
ج: آپ کے مضامین اچھےانداز سے لکھے گئے ہوتے ہیں اور سو فی صد میرٹ ہی پر شائع کیےجاتے ہیں۔ سو، شکریہ کہنے کی کچھ ایسی خاص ضرورت نہیں، بہرحال، آپ کی مہربانی۔
* آپ کا میگزین بہت اچھا جارہا ہے، ماشاء اللہ۔ مَیں نے آپ کے صفحے ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کےلیے ایک تحریر بعنوان ’’اپنے پیارے امّی ابّو کے نام‘‘ بھیجی ہوئی ہے اور اُس کی اشاعت کا بہت اُمید سےانتظارکررہی ہوں، مَیں جلد ازجلد آپ کے میگزین میں وہ تحریر دیکھنا چاہتی ہوں، تاکہ اپنے والدین کو سرپرائز دے سکوں۔ پلیز، پلیز شائع کردیں۔ اس کے علاوہ ’’رہائشی علاقوں کے مسائل‘‘ اور ’’تھوڑی سی انسانیت‘‘ کے موضوعات پر بھی دو تحریریں بھیج رہی ہوں۔ اُمید کرتی ہوں کہ آپ کی مہربانی سے وہ بھی جلد اس معروف میگزین کا حصّہ بن جائیں گی۔ (شائستہ عابد، لاہور)
ج: شائستہ! ہر قابلِ اشاعت تحریر باری آنے پر لازماً شائع کردی جاتی ہے،خواہ اس میں ہماری مہربانی شامل ہو یا نہ ہو۔ اور والدین سے متعلق آپ کی تحریر تو ہماری17دسمبر کی اشاعت میں شامل ہوبھی چُکی ہے۔ باقی دونوں تحریریں بھی قابلِ اشاعت ہوئیں، تو ضرور شائع ہوجائیں گی۔
* آپ کا میگزین بہت اچھا ہے۔ مجھے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے خطوط اور اُن کے کرارے جوابات پڑھنا سب سے اچھا لگتا ہے۔ مَیں نے کنیئرڈ کالج سے ایم فِل کیا ہوا ہے اور مَیں آپ کے جریدے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا چاہتی ہوں۔ ریسرچ ورک سے لے کر ایڈیٹنگ، پروف ریڈنگ سب کرسکتی ہوں، اگر آپ موقع دیں تو۔ (انیلا خلیل)
ج: آپ اپنی خدمات کسی آرٹیکل کی صُورت ہی پیش کرسکتی ہیں کہ پروف ریڈنگ کا باقاعدہ شعبہ تو اب ختم ہی ہوگیا ہے۔ عموماً سب ایڈیٹرز، ایڈیٹنگ کے ساتھ یہ فریضہ خُود ہی انجام دیتے ہیں۔ ہاں، اگرآپ کوئی تحقیقی مضمون لکھ بھیجنا چاہیں، تو ضرور بھیج دیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk