اگر آپ اچّھی فلمز دیکھنے کے شوقین ہیں، تاریخ سے دِل چسپی رکھتے ہیں اور ادب پڑھنا آپ کو اچّھا لگتا ہے، تو آپ نے یقیناً رڈیارڈ کپلنگ، مائیکل کولنز اور ٹی ای لارنس یا’’ لارنس آف عریبیہ‘‘ کے نام ضرور سُن رکھے ہوں گے۔ ان نابغۂ روزگار شخصیات کی مدد سے ہم بیسویں صدی کے اوائل کا دَور زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور قوم پرستی، حُبّ الوطنی اور قربانی وغيرہ کے تصوّرات کو بھی مختلف پیرائے میں دیکھ سکتے ہیں۔ گرچہ تین فلمز،’’لارنس آف عریبیہ‘‘، ’’مائی بوائے جیک ‘‘اور ’’مائیکل کولنز‘‘ یک ساں طور پر مقبول نہیں ہوئیں، لیکن یہ تاریخ سمجھنے کا ایک موزوں وسیلہ ضروربن سکتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی فِکشن کی خیال آرائ کےسبب موجود دَور کو سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
اکیسویں صدی کے ابتدائی دَور اور بیسویں صدی کے اوائل میں خاصی مماثلت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک سو برس میں دُنیا چاہے کتنی ہی آگے نکل گئی ہو، بہت سے عوامل بہ دستور اُسی طرح قائم و دائم ہیں۔ 2023ء میں’’ تُرک جمہوریہ‘‘ کے قیام کی صد سالہ سال گِرہ منائی گئی، جو عثمانی سلطنت کے خاتمےپر قائم ہوئی تھی۔ تُرکوں کے خلاف عرب بغاوت میں لارنس آف عریبیہ نے اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ کے زوال میں مدد ملی ۔ 2023ء ہی میں آئرلينڈ نے بھی آئرش خانہ جنگی کے خاتمے کی ایک سوویں سال گرہ منائی۔
یہ خانہ جنگی 1923ء میں باضابطہ طور پر ختم ہوئی تھی۔ مائیکل کولنز نے آئرلينڈ کی جنگِ آزادی میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا تھا اور اس میں اپنی جان کی قربانی دی تھی، جب کہ رڈیارڈ کپلنگ ایک شان دار مصنّف ہونے کے ساتھ ہی برطانوی سام راج کا ایک بے باک وکیل بھی تھا، جو آئرلينڈ کو آزادی دینے کے شدید خلاف تھا۔ اپنے جنگی جنون کی تسکین کے لیے اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے کی فوج میں بھرتی کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا، حالاں کہ اُس نو عُمر کی بینائی بہت کم زور تھی اور وہ پہلی عالمی جنگ کے آغاز ہی میں محاذِ جنگ پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
مائی بوائے جیک:
آئیے، سب سے پہلے ہم برطانوی فلم، ’’مائی بوائے جیک‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں، جو ڈیوڈ ہیگ کے 1997ء میں لکھے گئے ڈرامے پر مبنی ہے۔ اس فلم میں ڈینیئل ریڈ کلف نے جان یا جیک کپلنگ کا کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ انگریزی میں جان کے لیے ’’جیک‘‘ کا گھریلو نام بھی استعمال کیا جاتا ہے۔یہ فلم اکیسویں صدی کے اوائل میں بنائی گئی کہ جب برطانیہ، افغانستان اور عراق جنگوں میں مصروف تھا اور برطانوی عوام میں ایک بار پھر اپنی حکومت کے خلاف جذبات اُبھر رہے تھے۔
برطانوی وزیرِاعظم، ٹونی بلیئر بڑی بے شرمی اور ہٹ دھرمی سے ان جنگوں کی وکالت کررہے تھے۔ اس پس منظر میں جب فلم، ’’مائی بوائے جیک‘‘ ریلیز ہوئی، تو اُس میں دکھایا گیا کہ کس طرح ایک صدی پہلے رڈیارڈ کپلنگ نے نہ صرف پہلی عالمی جنگ کی بھرپور حمایت کی، بلکہ اس جنگ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی جھونک دیا، جو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، لیکن پھر بھی کپلنگ اپنے رنج و غم پر قابو پانے میں کام یاب رہا۔ کپلنگ نے نظم، ’’مائی بوائے جیک‘‘ اسی بیٹے کی موت کے بعد لکھی۔ اس نظم سے اندازہ ہوتا ہے کہ کپلنگ نے کس طرح قوم پرستی کے نام پر جان قربان کرنے کے جذبے کو اُبھارنے کی کوشش کی۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کپلنگ اپنے17سالہ بیٹے کو برطانوی فوج میں شمولیت کے لیے دھکیلتا ہے۔
وہ اپنے بیٹے کو بھرتی کروانے کے لیے کئی بڑے فوجی افسران سے ملاقاتیں کرتا ہے، حالاں کہ جیک کی نظر بہت کم زور ہے اور وہ افسران کے لیے قابلِ قبول بھی نہیں ہے۔ جیک بار بار آنکھوں کے معاینے میں ناکام ہوتا ہے، مگر اس کا باپ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ محاذِ جنگ پر جانے کا جنون اپنے سَر سے اُتار پھینکے اور آخر کار کپلنگ اعلیٰ ترین افسران پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کےاپنے بیٹے کو آئرش گارڈز کے دستے میں بھرتی کروا ہی لیتا ہے۔’ ’آئرش گارڈز‘‘ نامی پلٹن1900ء میں تشکیل دی گئی تھی کہ جب جنوبی افریقا میں دوسری بوئر جنگ جاری تھی۔ اس جنگ میں آئرلينڈ کے سپاہیوں نے اہم ترین کردار ادا کرتے ہوئے برطانوی سلطنت کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ اس پر رڈیارڈ کپلنگ بہت خوش تھا۔گرچہ آئرش سپاہی تاجِ برطانیہ کے مفادات کے لیے اپنی جان کی قربانیاں دے رہے تھے، مگر کپلنگ آئرلينڈ کو آزادی دینے کا شدید مخالفت تھا۔
اس فلم میں صنفی عُنصر کو بھی بہ خوبی پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر جیک کی ماں اور بہن اُس کی فوج میں بھرتی کی شدید مخالفت کرتی ہیں۔ گرچہ ان دونوں خواتین میں انسانیت کا جذبہ وافر ہے، مگر وہ اپنے گھر کے حضرات کو قائل نہیں کر پاتیں اور صرف 17برس کی عُمر میں جیک کو افسر بنا کر خود سے عُمر میں خاصے بڑے سپاہیوں کی قیادت کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ صرف چھے مہینے کی تربیت کے بعد فرانس میں فوجی کمان دار بن جاتا ہے، جہاں اُسے ستمبر 1915ء کی جنگِ لُوس میں اپنے سپاہیوں کو جھونکنے کا حُکم ملتا ہے۔
تب تاریخ میں پہلی مرتبہ دونوں جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے، جن سے بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑا۔ جلد ہی خبر ملتی ہے کہ جیک گُم شُدہ فوجیوں میں شامل ہے۔ جب جیک کا کوئی اتا پتا نہیں ملتا، تو اس کے والدین اُسے ڈھونڈنے کی کوشش میں بہت سے ایسے سپاہیوں سے ملاقات کرتے ہیں، جو جیک کے ساتھ اُس محاذ پر موجود تھے۔ تلاش کا یہ سلسلہ کئی برس جاری رہتا ہے اور بالآخر اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ جیک دشمن کی گولیوں کا نشانہ بن گیا ہے، جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کی عینک گر گئی تھی اور وہ کیچڑ میں اُسے تلاش نہ کر سکا۔
رڈیارڈ کپلنگ اُس وقت دُنیائے ادب کا بڑا نام تھا، کیوں کہ اُسے صرف 42برس کی عُمر میں ادب کا نوبیل انعام مل چُکا تھا۔ یہ انعام اُسے 1907ء میں دیا گیا تھا۔ اسی شُہرت کو استعمال کرتے ہوئے کپلنگ نے اپنی تحریروں میں سیاسی تبلیغ شروع کر دی تھی، لیکن نوبیل انعام ملنے سے پہلے ہی کپلنگ جنگ وجدل کا بڑا وکیل بن چکا تھا۔ ’’سفید آدمی کا بوجھ‘‘نامی نظم اُس نے 1899ء میں لکھی تھی، جب وہ صرف 34برس کا تھا۔ جب برطانوی افواج دوسری بوئر جنگ لڑ رہی تھیں، تو امریکا نے فلپائن پر حملہ کر دیا۔ یہ دونوں جنگیں 1899ء سے 1902ء تک جاری رہیں۔
اس دوران کپلنگ نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ نظم تحریر کی کہ؎ ’’سفید آدمی کا بوجھ اُٹھاؤ…اپنی نسل کے بہترین لوگ بھیجو …اپنے بیٹوں کو مُلک سے باہر بھیجو… جو تمہارے قیدیوں کی ضرورت پوری کریں…اور بھاری لگام کے نیچے …منتشر اور جنگی لوگوں کو قابو میں رکھیں …تمہارے تو گرفتار شدہ…آدھے وحشی ہیں اور آدھے بچّے۔‘‘مذکورہ نظم نہ صرف استعمار کی علامت ہے، بلکہ اس سے پدر شاہی اور نسل پرستی کی بُو بھی آتی ہے۔ جیسا کہ عورتوں کا کام ہے کہ وہ نئی نسل پیدا کریں اور باپ ان بچّوں کو وطن سے دُور بھیج دیں، جب کہ قیدی لگام کے نیچے رہیں، کیوں کہ وہ وحشی اور بچّوں جیسے ہیں۔
کیا آپ تصوّر کر سکتے ہیں کہ ایسی نظم لکھنے والے کو نوبیل انعام دیا جاسکتا ہے۔ جی ہاں! غالباً ان ہی سطور کے لکھنے پر اُنہیں نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا اور ٹھیک ایک صدی بعد امریکا اور برطانیہ ایک مرتبہ پھر وہی حرکتیں کررہے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقتدار اور حُبّ الوطنی کا کپلنگ والا تصوّر اس کے مُلک اور وقت کی حدود سے آگے بھی قائم و دائم ہے۔جب رڈیارڈ کپلنگ بہ مشکل 25برس کا تھا، تو ویلز اور آئرلينڈ میں دو اور ایسے بچّے ہوئے، جنہوں نے تاریخ پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ اُن کے نام تھے، ٹی ای لارنس اور مائیکل کولنز، جنہوں نے بالتّرتیب 1888ء اور 1890ء میں اس دُنیا میں آنکھ کھولی۔
لارنس آف عریبیہ:
لارنس کو ایک ماہرِ آثارِ قدیمہ اور شاطر فوجی کے طور پر اُبھرنا تھا اور مشرقِ وسطیٰ میں جنگی سرگرمیوں کو رقم کرنا تھا۔ 40سال کی عُمر تک لارنس نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران اپنی جنگی مہمات کی تفصیلات 800صفحات پر مشتمل کتاب میں درج کردی تھیں، جس کا نام تھا، ’’سیون پِلّرز آف وِزڈم‘‘ یا ’’دانائی کے سات ستون۔‘‘ اسی کتاب پر مبنی فلم، ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ 1962ء میں پردۂ اسکرین کی زینت بنی اور فلمی تاریخ کی عظیم ترین فلمز میں شمار ہوئی۔ اس فلم کے ہدایت کار، ڈیوڈ لین نے عرب کے صحرائوں میں اپنے جوہر دکھائے اور ایک ناقابلِ یقین فلمی کارنامہ انجام دیا۔
گو کہ لارنس کی کتاب اور ڈیوڈ لین کی فلم دونوں ہی نے حقائق سے کچھ رُوگردانی کی ہے، پر دونوں دِل چسپ بھی ہیں اور معلوماتی بھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی راج اپنے عروج پر تھا، مگر کپلنگ اور لارنس جیسے افراد مطمئن نہیں تھے۔ جب کپلنگ جنگی حملوں کی ترغیب دے رہا تھا اور اُن کی شان میں شاعری اور نثر لکھ رہا تھا، تو اس دوران لارنس محاذِ جنگ پر تھا۔
پہلی عالمی جنگ میں جرمنی اور تُرکی اتحادی تھے اور برطانیہ کے مشترکہ دشمن بھی۔ تُرکی کی سلطنتِ عثمانیہ نے عربوں پر چار صدی تک حکومت کی تھی اور عرب قبائل اس تُرک طوق سے شدید ناخوش تھے۔ برطانیہ، عرب بغاوت کو ہوا دینے کے لیے تیار تھا اور لارنس اس کے لیے بہترین آدمی تھا۔ لارنس نے عرب کے مختلف سرکردہ قبائل کو متّحد کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تاکہ وہ تُرکوں کے خلاف متّحدہ محاذ بنا کر لڑ سکیں۔ اس فلم میں پیٹر اوٹول نے لارنس کا رُوپ دھارا، جو ابھی 30سال کا بھی نہیں ہوا تھا، مگر اس کے پاس مقامی بدّو قبائل سے متعلق معلومات تھیں، کیوں کہ وہ اس خطّے میں تحقیقی سفر کرتا رہا تھا اور عربی زبان پر بھی عبور حاصل کر چُکا تھا۔
فلم میں لارنس، شہزادہ فیصل کی تلاش میں سرگرداں ہے اور برطانیہ کے ساتھ عربوں کے افسرِ تعلقات کا کردار نبھا رہا ہے۔ صحرا میں اس کا سامنا شریف علی سے ہوتا ہے، جو اداکار عُمر شریف ہے۔ یہاں فلم کا ایک منظر بڑا یادگار ہے، جس میں ایک گُھڑ سوار دُور سے ایک نقطے کی صُورت نظر آتا ہے اور پھر کیمرے کے سامنے واضح ہوتا جاتا ہے۔ اس منظر کو فلمی دُنیا کے شان دار مناظر میں شمار کیا جاتا ہے۔
فلم ’’مائی بوائے جیک‘‘ کپلنگ کے خاندان کے حوالے سے تھی کہ کس طرح اس نے اپنی حُبّ الوطنی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اپنے خاندان پر مسلّط کیا، جب کہ ’’ لارنس آف عریبیہ‘‘ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جو برطانوی بالادستی کے لیے خود اپنے جسم و روح کو بھی اذیّت میں مبتلا رکھتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے لارنس خود اپنے اعلیٰ افسران کی حکم عدولی بھی کرسکتا ہے۔ فلم میں بڑی خُوب صُورتی سے دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وہ صرف 50عربوں کے ساتھ عقبہ کو سَر کرنے نکلتا ہے، جو صحرا النفود کے دوسرے کنارے پرواقع ہے۔
راستے میں اس کا سامنا عودہ ابوطائی سے ہوتا ہے، جو حویطات قبیلے کا سربراہ ہے۔ فلم میں عودہ کا کردار بے مثال اداکار، اینتھونی کوئن نے ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ عودہ کا ذکر لارنس نے اپنی کتاب میں خاصی تفصیل سے کیا ہے اور اگر وہ یہ کتاب نہ لکھتا، تو شاید عودہ کا تاریخی کردار کہیں گُم ہوجاتا۔ خیر، ابتدا میں عودہ ابوطائی، عقبہ پر حملے سے ہچکچاتا ہے، کیوں کہ اسے تُرکوں کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے۔
یہ ایک طرح کا بھتّا ہے اور تُرک اس لیے ادا کرتے ہیں کہ یہ بدّو قبیلہ انہیں پریشان نہ کرے، لیکن جب لارنس، عودہ ابو طائی کوکئی سارے مالی فوائد کے خواب دکھاتا ہے، تو عودہ، عقبہ پر حملے پرآمادہ ہوجاتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وہ صحرائے نفود عبور کرتے ہیں، لیکن مؤرخین نے اس دعوے کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا اور کہا ہے کہ دراصل عودہ ابوطائی نے لارنس کو اپنے لوگوں کے ساتھ صحرا کے مشکل ترین راستے سے گزرنے نہیں دیا بلکہ انہیں نسبتاً طویل راستے سے لے گیا، جو زیادہ دشوار گزار نہیں تھا۔
یہاں پر فلم میں کچھ افسانوی انداز ملتا ہے، لیکن ڈیوڈ لین اپنے ناظرین کی توجّہ پر مکمل گرفت رکھتا ہے۔ خاص طور پر فلم کی موسیقی، جو ماریس جار نے ترتیب دی ہے، خاصی دل خوش کُن ہے۔ اسی موسیقار نے 1964ء میں ڈیوڈ لین ہی کی فلم، ’’ڈاکٹر ژواگو‘‘ میں ’’لارا ز تھیم‘‘کے ٹائٹل سے مشہور گیت کی بھی موسیقی ترتیب دی، جو فلم بینوں کو اب تک یاد ہے۔ لارنس آف عریبیہ میں شہزادہ فیصل کو کسی جنگی مُہم کی قیادت کرتے دکھایا گیا ہے، جس کے زیادہ تر سپاہی تلواروں سے لیس ہیں اور جرمن اور تُرک طیّاروں کی فائرنگ کے نیچے ادھر اُدھر دوڑتے نظر آتے ہیں۔
فلم میں ڈیوڈ لین کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کہ جس میں لارنس کو عربوں کے مقابلے میں زیادہ ہم درد اور بہادر دکھایا جائے۔ جب فلم کا ایک کردار، قاسم (یہ کردار اداکار آئی ایس جوہر نے ادا کیا ہے) قافلے سے پیچھے رہ جاتا ہے، تو لارنس ہی اُسے بچانے واپس آتا ہے، جب کہ عرب اس کوشش کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قاسم مَر چکا ہے۔ اس کے بعد ایک اور منظر میں جب یہی قاسم ایک دوسرے عرب قبیلے کے خلاف کوئی جُرم کرتا ہے، تو لارنس اُسے گولی مار کر ختم کر دیتا ہے، تاکہ قبائلی تصادم سے بچا جا سکے۔ اس پر کپلنگ نے کہا کہ لارنس ’’سفید آدمی کا بوجھ‘‘ اُٹھانے پر تیار تھا، کیوں کہ ’’منتشر اور وحشی‘‘ قابو میں رکھنے تھے۔
اس دوران خود لارنس کے رویّے تبدیل ہوتے ہیں اور وہ تُرک سپاہیوں کے ہاتھوں تشدّد کا شکار ہونے کے بعد ذہنی و جسمانی اذیّت سے گزرتا ہے۔ دراصل اُسے شمالی عرب کے ایک چھوٹے سے قصبے، ’’دیرہ‘‘ میں جاسوسی کے دوران پکڑ لیا جاتا ہے، مگر رہائی کے بعد وہ ایک بدلا ہوا انسان نظر آتا ہے، جو خود ظالم اور وحشی بن جاتا ہے۔ لارنس، ایک جنگ کے بعد شکست خوردہ تُرک اور جرمن سپاہیوں کو زخمی ہونے کے باوجود بے دریغ قتل کرتا ہے، جس سے وہ خود خُون میں ڈوب جاتا ہے۔لارنس، استعماری مقاصد کی علامت، جو جعلی احساسِ جرم کا بھی شکار ہے۔ ایسا سفید فام شخص، جو عربوں کے لیے بہتری کا جُھوٹا پیغام لاتا ہے اور بالکل اسی طرح ایک سو سال بعد افغانستان اور عراق میں کیا گیا اور دونوں میں ناکامی ہوئی۔
مائیکل کولنز:
کپلنگ اور لارنس دونوں ہی مائیکل کولنز کی ٹکّر کے نہیں ہیں، جو آئرش آزادی کا متوالا تھا۔ اُس نے برطانوی بالادستی کو للکارا اور اُن کے مظالم کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہوا۔1996ء میں ریلیز ہونے والی فلم، ’’مائیکل کولنز‘‘ آئرش ہدایت کار، نیل جورڈن کا شاہ کار ہے، جسے اُس نے نہ صرف تحریر کیا، بلکہ ہدایت کاری بھی کی۔ یہ فلم آئرلينڈ کی تحریکِ آزادی پر بہترین فلم سمجھی جاتی ہے۔
مائیکل کولنز بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں کپلنگ اور لارنس کے بالکل برعکس کردار میں نمودار ہوا۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کولنز ’’لی ایم نی سن‘‘ (آئرلينڈ کی جنگِ آزادی کا نمایاں رہنما) ہے۔ فلم کے آغاز میں 1916ء کی ’’اسٹر بغاوت‘‘ کا انجام دکھایا گیا ہے کہ جب آزادی کے متوالے محصور آئرش برطانوی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ایسا ڈبلن میں آئرش ری پبلکن ہیڈ کوارٹر ہی میں ہوتا ہے۔ مائیکل کولنز اور اُس کے ساتھیوں کو سرسری سماعت کے بعد موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔
1918 ء تک کپلنگ کُھل کر آئرش آزادی کی جدوجہد کُچلنے کی وکالت کر رہا تھا۔ وہ برطانوی استعمار کا کُھلم کُھلا ترجمان بن چُکا تھا۔ اس دوران لارنس عرب خطّے میں برطانوی بالا دستی کو توسیع دینے میں کام یاب ہو چُکا تھا، لیکن مائیکل کولنز کا نقطۂ نظر بالکل مختلف تھا اور وہ حُبّ الوطنی اور قربانی کے جذبات کو ایک الگ طرح سے پیش کررہا تھا۔ کپلنگ جس قربانی کے ترانے گاتا تھا، وہ برطانیہ کے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے تھی۔ مگر کولنز اور اُس کے ساتھی اسی تاجِ برطانیہ کا طوق اتار پھینکنے کے لیے قربانیاں دے رہے تھے۔ فلم میں 1918ء کے انتخابات دکھائے گئے ہیں، جس میں آئرلينڈ کے شہریوں نے ’’شن فین پارٹی‘‘ کو کام یاب کروایا، جس نے پھر یک طرفہ آزادی کا اعلان کردیا۔
فلم میں ایلن رِک مین نے ڈی والیر کا کردار نبھایا ہے، جو صدر کا عُہدہ سنبھالتا ہے، جب کہ مائیکل کولنز کو آئرش ری پبلکن آرمی کے شعبۂ جاسوسی کا سربراہ بنایا جاتا ہے۔ برطانوی حُکّام پوری آئرش کابینہ کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، جس پر کولنز اور بولینڈ حراست سے بچ کر نکل جاتے ہیں اور کولنز آزاد رہ نماؤں میں سے سب سینئر رہ نما بن جاتا ہے۔ اب کولنز کئی قاتلانہ حملے کرواتا ہے، جن میں مخبروں اور ’’غداروں‘‘ کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ جواب میں برطانوی افواج مزید بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتّے شہریوں کو بھی نشانہ بناتی ہیں، جیسا کہ ہندوستان میں بھی کیا جارہا تھا۔فلم کے ہدايت کار، نیل جارڈن نے کروک پارک کے قتلِ عام کو کمال مہارت سے فلمایا ہے۔
مائیکل کولنز، گوریلا جنگ کا ہیرو بن جاتا ہے اور بیسویں صدی کے نصف اوّل میں اپنی نوعیت کی مثالی شخصیت کا رُوپ دھار لیتا ہے، جب کہ نصف صدی بعد چی گویرا نے کولنز کی جگہ ایک نئے ہیرو کا مقام 1960ء کے عشرے میں حاصل کیا تھا۔جس طرح فلم،’’ لارنس آف عریبیہ‘‘ میں لارنس نے اپنے افسران کی حکم عدولی کی، اسی طرح مائیکل کولنز اپنے صدر، ڈی والیرا کا حُکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور مزید جنگ سے گریز کرتے ہوئے مذاکرات اور سمجھوتے پر زور دیتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کپلنگ، لارنس اور کولنز تینوں ہی بڑے ضدّی تھے اور کولنز کی گوریلا جنگ سے مجبور ہو کر ہی برطانیہ مذاکرات کا دروازہ کھولتا ہے۔
ڈی والیرا چاہتا ہے کہ کولنز لندن جا کر مذاکرات کرے۔ کولنز پہلے ہچکچاتا ہے، مگر پھر 1921ء کا اینگلو، آئرش معاہدہ کر لیتا ہے، جس کے تحت آئرلينڈ کو بہ تدریج مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے، لیکن وقتی طور پر اسے برٹش ڈومینین کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ ڈی والیرا اس معاہدے کو مسترد کر دیتا ہے اور فوری مکمل آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ غیر مشروط آزادی کے مطالبے پر عوامی رائے معاہدے کی حمایت کرتی ہے، جس پر ڈی والیرا خانہ جنگی شروع کر دیتا ہے۔ یعنی کولنز اور ڈی والیرا کے حامی ایک دوسرے سے لڑنے لگتے ہیں۔ اگست 1922ء میں مائیکل کولنز ایک حملے میں مارا جاتا ہے اور 1923ء میں خانہ جنگی ختم ہو جاتی ہے۔
جیک کپلنگ کی موت سے لے کر مائیکل کولنز کی ہلاکت تک قوم پرستی اور حُبّ الوطنی کے تصوّرات بدلتے رہتے ہیں۔ اگر آپ مہاتما گاندھی کی طرح عدم تشدّد کے علَم بردار ہیں، تو خود آپ کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور کوئی انتہا پسند آپ کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ مگر حتمی تجزیے میں جب بیسویں صدی کے آخر میں ایک سروے کروایا گیا، تو صدی کی عظیم ترین شخصیات میں کپلنگ، کولنز یا لارنس کا نام نہیں تھا، بلکہ گاندھی اور منڈیلا شامل تھے، جو عدم تشدّد کے باوجود عظیم ترین شخصیات کہلائے۔ آخر میں کپلنگ کی ایک نظم کے دو مصرعے پیشِ خدمت ہیں؎ جب کوئی پوچھے، ہم کیوں مارے گئے…کہو ،اس لیے کہ ہمارے والدین جھوٹ بولتے گئے۔