رابعہ فاطمہ
ہر سال کی طرح رواں برس بھی 13فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ریڈیو کے شان دار ماضی، مفید مطلب حال اور متحرک و بھرپور مستقبل کو اُجاگر کرنے کے لیے رواں برس اس عالمی یوم کا موضوع ’’ریڈیو: اطلاعات، تفریح اور تعلیم کی ایک صدی‘‘ رکھا گیا ہے۔ ریڈیو کے عالمی یوم کے سلسلے میں لکھی گئی زیرِ نظر تحریر میں ریڈیو پاکستان کی ناقابلِ فراموش خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
1930ء میں جنوبی ایشیا میں پہلی بار ریڈیو کی آواز سُنی گئی۔ ریڈیو اُس دَور کے لوگوں کے لیے ایک ایسا جادوئی ڈِبّا تھا، جس میں سے خبروں سے لے کر موسیقی تک کی آواز سُنائی دیتی تھی۔ تب برِصغیر پاک و ہند میں واحد نشریاتی ادارہ، ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ تھا، جو لاہور میں قائم تھا۔ تاہم، 13اگست 1947ء کی شب گیارہ بجے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات کا اختتام اور پاکستان کے پہلے ریڈیو اسٹیشن کا آغاز ہوا۔
سب سے پہلے انگریزی میں ظہور آذر نے اور بعد میں اردو میں مصطفیٰ ہمدانی نے ان الفاظ میں آزادیٔ پاکستان کا اعلان کیا کہ ’’السّلام علیکم، پاکستان براڈکاسٹنگ سروس، ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔ 13اور 14اگست سن 47 عیسوی کی درمیانی شب کے12بجے ہیں۔ طلوعِ صبحِ آزادی مبارک ہو۔‘‘ ان الفاظ کی تاثیر وہی محسوس کر سکتے ہیں کہ جنہوں نے انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات کے لیے اپنے گھر بار اور جدی پشتی جائیدادوں کو خیر باد کہا تھا،اپنے اعزّہ و اقربا کو اپنے سامنے کٹتا اور اپنی بہن، بیٹیوں کی عزتوں کو قربان ہوتے دیکھا تھا۔ یہ الفاظ نہیں بلکہ جام حیات تھے۔
ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والا پہلا پروگرام، ’’طلوعِ صبحِ آزادی‘‘ تھا، جس میں علاّمہ اقبال کا ملّی نغمہ، ’’مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ بھی شامل تھا۔ بعد ازاں، احمد ندیم قاسمی کے دو ملّی نغمے نشر کیے گئے، جن کی موسیقی ایس ایس نیازی نے ترتیب دی تھی۔ ان میں سے ایک نغمے کے بول ’’پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو‘‘ تھے۔
اسی شب ہی پشاور اور ڈھاکا سے بھی ریڈیو پاکستان نے اپنی نشریات کا آغاز کیا۔ چوں کہ تب اُس وقت کے پاکستان کے دارالحکومت، کراچی میں ریڈیو اسٹیشن موجود نہیں تھا، اس لیے بعض مؤرخین کراچی کے ریڈیو اسٹیشن کو پاکستان کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قرار دیتے ہیں، کیوں کہ یہ قیامِ پاکستان کے بعد وجود میں آیا تھا، جب کہ لاہور، پشاور اور ڈھاکا کے ریڈیو اسٹیشنز پہلے ہی سے موجود تھے۔
کراچی میں ریڈیو اسٹیشن کا ابتدائی دَور بہت سی کٹھنائیوں پر مشتمل تھا۔ اُس وقت ریڈیائی آلات کا حصول انتہائی دُشوار گزار تھا۔ انٹیلی جینس اسکول کی بوسیدہ بیرک میں ایک سو واٹ کا میڈیم ویو اور دو سو پچاس واٹ کا شارٹ ویو ٹرانسمیٹرنصب کیا گیا تھا ۔ کھمبے کی سہولت میسّر نہ ہونے پر اس کی جگہ سیوریج لائن کا ایک بڑا پائپ نصب کر دیا گیا اور یوں ریڈیو پاکستان، کراچی کی نشریات کا آغاز ہوا۔ زیڈ اے بخاری (مرحوم) کی کوششوں سے، جو اُس وقت کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ تھے، ایک بیرک پر مشتمل ریڈیو اسٹیشن کئی بیرکوں پر پھیلتا چلا گیا۔ تب ریڈیو پاکستان، کراچی کا دفتر شہر سے دُور کوئنز روڈ (موجودہ مولوی تمیز الدّین خاں روڈ) پر واقع تھا۔
ریڈیو پاکستان، کراچی کی نشریات کا باقاعدہ آغاز 14اگست 1948ء کو ہوا۔ افتتاحی تقریب کی ابتدا تلاوتِ قرآن پاک سے ہوئی اور مولانا شبّیر احمد عُثمانی نے اُمتِ مسلمہ کے لیے دعائیہ کلمات ادا کیے۔ اسی رات ہی پاکستان کا پہلا اور تاریخی مشاعرہ منعقد کیا گیا، جو اُس وقت کے پاکستانی انجینئرز کا کارنامہ تصوّر کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں، کراچی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر ہاشم رضا مرحوم کی کوششوں کے نتیجے میں ریڈیو پاکستان، کراچی کا دفتر بندر روڈ پر واقع کراچی لوکل بورڈ کی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔قیامِ پاکستان کے وقت ریڈیو پاکستان کی نشریات کا دائرہ خاصا محدود تھا اور اس کی آواز مُلک کے صرف ساڑھے چار فی صد علاقے اور تقریباً سات فی صد آبادی تک پہنچ سکتی تھی۔
تاہم، اس کے باوجود ریڈیو پاکسان سے نشر ہونے والے پیغامات کی بدولت ہجرت کرنے والے کئی افراد اپنے بچھڑے خاندانوں سے جا ملے۔ یہ سلسلہ ’’پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نام سے نشر ہوا۔ریڈیو پاکستان، کراچی کو بامِ عروج تک پہنچانے میں جیّد علما اور ادبّا نے اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کی نشریات مین ادبی جھلک، مذہبی پہلو اور ثقافتی رنگ نمایاں ہونے لگے۔کراچی کے بعد 1951ء میں حیدر آباد اور 1956ء میں کوئٹہ میں نئے ریڈیو اسٹیشنز قائم کیے گئے اور ان اسٹیشنز کے قیام نے ریڈیو پاکستان کو ایک انتہائی مؤثر ذریعۂ ابلاغ بنا دیا۔
ریڈیو پاکستان نے کئی نام وَر ہستیوں کو جنم دیا۔ اس ضمن میں ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر پروگرامز، نہال احمد نے اپنی کتاب ’’اے ہسٹری آف ریڈیو پاکستان‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ریڈیو پاکستان کی تصویر پاکستانی معاشرے میں ایک رجحان ساز ادارے کے طور پر پیش کی گئی ہے، جس نے خصوصی طور پر دیہی علاقوں میں تعلیم اور خواندگی کی مہمات کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جہاں ریڈیو پاکستان نے علم کے موتی بکھیرے، وہیں فنونِ لطیفہ کو بھی فروغ بخشا۔ ہر علاقے کے زبان و بیاں کو سراہا گیا اور ثقافتی رنگوں کو مجتمع کیا گیا۔
ریڈیو پاکستان نے سماجی خدمات انجام دیتے ہوئے مہاجرین کو اپنوں سے ملایا اور بیرونِ مُلک بھی اپنی کام یابیوں کے جھنڈے گاڑے۔ نیز، ریڈیو پاکستان نے 1965 ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران پاک فوج کے جوانوں کو جوش و ولولہ دلانے کے لیے ملّی نغمے نشر کیے۔ آج ریڈیو پاکستان کےکُل 32اسٹیشنز ہیں۔ اگر ماضی کے دریچوں میں جھانکا جائے، تو اپنے دَور میں تفریح کا واحد ذریعہ تھا اور انٹرنیٹ کے اس دَور میں بھی ریڈیو کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ برقرار ہے۔