• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی انتخابات حتمی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں، ملکی میڈیا پر آٹھ فروری الیکشن کے حوالے سے تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے،رواں برس روایتی الیکشن مہم سوشل میڈیا کے محاذ پر لڑی جارہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے انتخابات اور سیاسی صورتحال پراسکے اثرات پر عالمی برادری کی توجہ مرکوز ہوا کرتی تھی۔ پاکستان میں کون حکومت میں آئے گا ، اس حوالے سے عالمی میڈیا بالخصوص پڑوسی ملک کی خاص دلچسپی ہواکرتی تھی۔ اسکی بڑی وجہ عالمی منظرنامہ پر پاکستان کا فعال اور متحرک کردار تھا۔ بلاشبہ آزادی کے بعد قائداعظم کے وژن پر عمل پیرا پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک اہم ترین ملک بن کر اُبھرا، پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سرظفراللہ خان اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر اور عالمی ادارہ انصاف کےسربراہ کے اعلیٰ عہدے پر بھی فائز ہوئے ۔فلسطین سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں جاری حریت پسند تحریکوں کو پاکستان کی اصولوں کی بنیاد پر سفارتی و اخلاقی حمایت حاصل رہی، عالمی سامراجی قوتوں کے خلاف سرگرم حریت پسند پاکستان کو اپنا مہربان دوست سمجھتے اور پھر اپنے ملک کو آزادی دلانے کے بعد پاکستان کے مشکور رہے، جرمنی کے دونوںحصے متحد ہوگئے ،پاکستان نے صدر ایوب کے زمانے میں مغربی جرمنی کوبھاری قرضہ دیاتھا، کوریا نے اپنی معیشت مستحکم کرنے کیلئے پاکستان کا پانچ سالہ ترقی کا منصوبہ حاصل کیا۔ آج کا جدید ترقی یافتہ مڈل ایسٹ گزشتہ صدی تک دنیا کا پسماندہ ترین خطہ سمجھا جاتا تھا،پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے روزگار کیلئے مشرقِ وسطیٰ کا رُخ کیا تو وہاں کے صدیوں سے بانجھ صحرا بھی ہرے بھرے ہوگئے، ہر طرف بلند وبالا عمارتیں اور بہترین انفراسٹرکچر قائم ہوگیا، ایک طویل عرصے تک عالمی فضاؤں پر ہماری قومی ایئرلائن پی آئی اے کا راج رہا، آج کی کامیاب ترین ایئرلائن ایمریٹس کی بنیادیں شہر قائد کراچی میں رکھی گئیں جسکی پروازوں کا مخفف پی کے کی مناسبت سے ای کے ہے جس میںانگریزی لفظ کے کراچی کی عکاسی کرتا ہے۔ نوے کی دہائی میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مشرقی یورپ میں بسنے والے بوسنیا کے مظلوم لوگوں پر زمین تنگ کردی گئی تو پاکستان نےانکی مدد کیلئے عملی کردار ادا کیا۔ نوے کی دہائی کے اختتام پر جب پڑوسی ملک کی جانب سے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو دھمکایا جانے لگا تو عالمی برادری میںتشویش کی لہر دوڑ گئی،عالمی سطح پر امریکہ،چین، سعودی عرب سمیت دیگر امن پسند ممالک علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے متحرک ہوگئے۔بھارتی وزیراعظم واجپائی دوستی بس میں سوار ہوکر لاہور آئے اور اپنے ملک کے شدت پسندوں کی مخالفت کے باوجود مینارِ پاکستان پر حاضری دی۔تاہم نئی صدی کا آغاز پاکستان کیلئے نیک شگون ثابت نہ ہوا اور نائن الیون کے بعدکا پاکستان بیسویں صدی کا حاصل کردہ وقار روزبروز تیزی سے کھوتا چلا گیا ، دوسری طرف وہ ممالک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے، جو اپنے ترقی کے سفر میں ماضی میںہمارے مرہونِ منت تھے، وہ ہم سے کہیں زیادہ آگے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ہماری ناقص اقتصادی پا لیسیو ں ، آپسی چپقلش، کرپشن، اقربا پروری، تعصب، شدت پسندی اورمیرٹ کی سرے عام دھجیاں اُڑانے کی روش نے پھر یہ دن بھی دکھا دیے کہ ماضی کا اہم ترین ملک عالمی برادری کی نظروں میں بے وقعت ہوگیا۔تاہم، ہمارے ماضی کے دوست ممالک ابھی بھی چاہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو سنبھالنے میں کامیاب ہوجائیں، اسکا بڑا ثبوت پاک چین اقتصادی راہداری جیسا عظیم الشان منصوبہ ہے۔پی ٹی آئی دورِ حکومت کے وزیرِ خزانہ کا دورہ ابوظہبی بھی میڈیا کی زینت بنا تھا جس میں سلطان کا کہنا تھا کہ ایک زمانےمیں آپ کا ہاتھ اوپر تھا اور ہمارا نیچے، ہم اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے آپ کے تعاون کے محتاج تھے، آج پاکستان کا ہاتھ نیچے دیکھ کر بہت افسوس ہورہا ہے، میری خواہش ہے کہ ہم اوپر یا نیچے کا ہاتھ بننے کی بجائے برابری کی سطح پر ہاتھ تھامیں، آپ اپنے حالات کبھی بھی امداد سے بہتر نہیں بناسکیں گے،اسلئے آپ بزنس اور تجارت پر فوکس کریں ۔ صدر مشرف کے دور حکومت میں موجودہ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز ریاض کے گورنر تھے، انہوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے امداد کے پیغام کے جواب میں کہا کہ ہم پاکستان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اورہر مشکل وقت میں آپکی مدد کرتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ آنے والا وقت بہت کٹھن ہے ، آپ کیلئے بہتر ہے کہ آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں ۔افسوس،گزشتہ چند سالوں میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عالمی سطح پر ہماری پہچان ایک ناکام اور مقروض ملک کے طور پربن گئی ہے جو دوطرفہ اقتصادی تعاون اور کاروباری معاہدوں کی بجائے قرضوں اور مفت کی امداد پر یقین رکھتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آٹھ فروری کا دن ہماری ملکی تاریخ میں ایک نیا موڑ لیکر آرہا ہے، یہ دن مواخذے کا دن ہے،آٹھ فروری کے دن ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت سے ثابت کرنا ہے کہ ہم عالمی برادری کے ساتھ دوطرفہ اقتصادی تعاون، علاقائی تجارت اور برابری کے تعلقات قائم کرنے کی اہلیت رکھنے والوں کے ساتھ ہیں یا ہم پاکستان کا مستقبل انتشار ، جذباتیت اور خانہ جنگی میں مبتلا کرنے والی ناعاقبت اندیش افراد کے حوالے کرنا چاہتے ہیں؟آپ کا ووٹ، آپ کا فیصلہ۔۔!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین