• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی دنوں سے یہ اطلاعات آرہی تھیں کے ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) کو حکومت کی طرف سے مکمل طورپر وفاق کے حوالے کیاجارہاہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ موجودہ حکومت نے ارسا میں وفاق کا نمائندہ مقررکرکے اسے مکمل طورپر وفاق کے حوالے کردیاہے۔اگر یہ کارروائی کی گئی ہے ’تو کیا یہ قانون کے مطابق ہے؟۔کیا ایسی کارروائی کوئی بھی حکومت کرسکتی ہے ؟چاہے وہ نگراں حکومت ہو یا منتخب وفاقی حکومت ہو؟موجودہ حکومت تو منتخب نہیں نگراں حکومت ہے جس کے اختیارات صرف انتخابات کرانے تک محدود ہیں۔ارسا 1990ء میں وفاق اور چاروں صوبوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں پانی کے معاہدے کے تحت وجود میں آئی تھی۔ یہ معاہدہ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں ہوا جس پر سب نےدستخط کئے۔ارسا سے پہلے دریائے سندھ میں پانی کی تقسیم واپڈا کرتاتھا۔واپڈا جس طرح دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کرتاتھا اس سے چھوٹے صوبوں اور خاص طورپر سندھ کو بے پناہ شکایات تھیں کیونکہ پانی کی تقسیم منصفانہ نہیں تھی ، کچھ عرصے کے بعد پانی کے معاہدے میں غیرقانونی طورپر توڑپھوڑ شروع ہوگئی اس کی تازہ ترین مثال چند دن پہلے پانی کے اس معاہدے میں یکطرفہ غیر قانونی طورپر انتہائی خطرناک تبدیلیاں کرکے اسے اب وفاق کے حوالے کرنے کی اطلاعات ہیںجس کے نتیجے میں سندھ کی پارٹیوں اور دیگر حلقوں سے شدید ردعمل آنا شروع ہوگیاہے،چند دن پہلے ارسا کو وفاق کے حوالے کرنےکی جواطلاعات آئی تھیں ان کے مطابق نگراں حکومت کی کابینہ نے ارسا ایکٹ میں کئی غیرقانونی ترامیم کرکے ارسا کا چیئرمین وفاقی حکومت کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کو بنانے کے سلسلے میں ڈرافٹ کی منظوری دیدی ہے اس فیصلے کے نتیجے میں اب ارسا پر وفاق (موجودہ نگراں حکومت) کا مکمل قبضہ ہوگیاہے۔ اب تک ارسا ایکٹ کے تحت ارسا کا چیئرمین بورڈ کے چاروں صوبوں کے ممبران میں سے بار ی باری مقرر ہوتاتھا اب اس کی جگہ وفاق کا افسر یا ریٹائرڈ افسر مقرر کیاجائے گا اس کے علاوہ ارسا بورڈ میں وفاق سے ایک نیا ممبرہوگا جو مرکز کے ماتحت ہوگا اور عملی طورپر چھوٹے صوبے غائب ہوجائیں گے۔یہ بتایا جارہاہے کہ ان ترامیم کی منظوری کابینہ کمیٹی نے 26جنوری2024ء کو دیدی تھی مگر کیا اس قسم کے فیصلے کابینہ کمیٹی کرسکتی ہے اس قسم کے فیصلے پانی کے 90ء کے معاہدے کے تحت توفقط کونسل آف کامن انٹریسٹ ہی کرسکتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ اب کونسل آف کامن انٹریسٹ کاکردار بھی ختم ؟سندھ کے 20سے زائدسول سوسائٹی کے نمائندوں، ادیبوں اورانسانی حقوق کے دانشوروں نے ارسا کو صوبوں کے ہاتھوں سے نکال کر مکمل طورپر وفاق کے حوالے کرنے والی اطلاعات پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی قراردیا ہے اورکہاہے کہ وفاقی نگراں کابینہ کو ارسا ایکٹ میں ترمیم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس مشترکہ بیان میں مزید کہاگیاہے کہ آئین کی شق 154اور 155 کے تحت ارساسی سی آئی کی ما تحت ہے۔فقط سی سی آئی ہی اس میں کوئی ترمیم کرسکتی ہے۔ اب تک ارسا ایکٹ میں کئی تبدیلیاں کرکے سندھ کے پانی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیاہے ہم وفاق کے ایسے سب فیصلوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔یہ بات فقط بیان تک ختم نہیں ہوتی۔دریائے سندھ سے سندھ کے پانی کے حصے پر قبضہ کرنے کیلئے اور بھی کئی اقدامات کئے جارہے ہیں اس سلسلے میں انکشا ف ہواہے کہ حال ہی میں ارسا کے اجلاس میں متنازع چولستان لنک کینال منصوبہ بلوچستان اور کے پی کے کے ممبران کی مدد سے منظور کیاگیا ہے۔ان اطلاعات کے مطابق ارسا کے 17جنوری کے اجلاس میں چولستان لنک کینال منصوبہ پیش کیاگیا اور سندھ کے ممبر نے اس منصوبے کی مخالفت کی لیکن اجلاس نے منصوبے کیلئے این او سی جاری کرنے کے فیصلے کی منظوری دیدی۔ سندھ کیلئے مخصوص پانی کے کوٹہ میں سے پہلے ہی کافی پانی سندھ کو نہیں دیاجارہا، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 90ء کے پانی کے معاہدے کے تحت 8.5ایم اے ایف پانی کوٹری ڈائون اسٹریم کیلئے فراہم کرنا تھا مگرکافی عرصے سے اس سے کم پانی فراہم کیا جاتارہا ہے مگر سندھ کے ماہرین ِآب کے مطابق چولستان لنک کینال منصوبہ شروع ہونے کے بعد کوٹری ڈائون اسٹریم کیلئے مزید کم پانی فراہم کیا جائے گا اس مرحلے پر یہ بات ریکارڈ پر لانا بہت ضروری ہے کہ جب 90ء کا پانی معاہدہ ہورہاتھا تو سندھ کا مطالبہ تھا کہ کوٹری بیراج کیلئے مزید پانی کا کوٹہ مخصوص کیا جائے مگراس وقت بھی اس بات کوتسلیم نہیں کیاگیااور اب پانی کی اس مقدار کو کم کردیا گیاہے جس سے سندھ کو تو کافی نقصان پہنچایا گیا مگر اندیشہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں کوٹری کے مقام سے دریائے سندھ سے جانے والے پانی میں کافی کمی ہوجائے گی۔ماہرین آب کے مطابق دریائے سندھ سے کم پانی سمندر میں جانے سے ایک تو سمندر میں اگنے والی کئی اقسام کی سبزیوں کی پیداوار کم ہوگئی ہے حالانکہ یہ سبزیاں برآمد کرکے ملک کافی زر مبادلہ حاصل کرتاہے۔علاوہ ازیں مچھلی کی ایک اہم قسم ’’پلے‘‘ کی پیداوار بہت کم ہوتی جارہی ہے۔اس کے علاوہ ماہرین کے مطابق دریائے سندھ سے پانی سمندر میں کم جانے کی وجہ سے سمندر کی سطح بلندہو رہی ہے۔بین الاقوامی ماہرین نے کافی عرصے پہلے متنبہ کیاتھا کہ اگراس سلسلے کو نہ روکا گیا تو کراچی کے کافی علاقے سمندر بردہوسکتے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین