• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ان انتخابات میں بڑھا ہے، فافن رپورٹ

فائل فوٹو
فائل فوٹو

ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے فافن نے ابتدائی مشاہدہ رپورٹ جاری کر دی۔

فافن چیئرپرسن مسرت قدیم کا بریفنگ میں کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی مشق کو منعقد کیا جو قابل ستائش ہے تاہم ابتدائی نتائج کی تیاری اور اعلان نے منظم الیکشن کو گہنا دیا ہے۔

فافن کا کہنا ہے کہ انتخابات سے ملک میں بے یقینی کا دور بند ہو گیا ہے، سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ ملک میں استحکام کو یقینی بنائیں۔

مسرت قدیم نے کہا کہ امیدواروں کے نتائج پر تحفظات الیکشن کمیشن کو جلد حل کرنے کی ضرورت ہے، 8 فروری کو ملک میں تقریباً 6 کروڑ سے زیادہ افراد نے ووٹ ڈالا۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں دو سال سے جاری افراتفری کے بعد الیکشن ہوئے، یکساں مواقع نہ ملنے اور دہشت گردی کے باوجود سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ووٹر ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا، ووٹر ٹرن آؤٹ میں گزشتہ بار کے مقابلے میں کمی آئی، اسلام آباد میں ووٹر ٹرن آؤٹ 54.2، پنجاب میں 51.7، سندھ میں 43.9، کے پی میں 41.4 اور بلوچستان میں 35 فیصد رہا، مردوں کا ووٹر ٹرن آؤٹ 52.2 فیصد جبکہ خواتین کا 43.2 فیصد رہا۔

فافن چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ فافن نے ملک میں 5664 مبصرین تعینات کیے، 28 فیصد پولنگ اسٹیشن پر افسران نے فارم 45 کی کاپی مبصرین کو نہیں دی، آر او آفس میں مبصرین کو نہیں جانے دیا گیا، شفافیت پولنگ اسٹیشن پر قائم رہی لیکن آر او کے دفتر پر شفافیت پر سمجھوتا ہوا، 16 لاکھ بیلٹ پیپرز مسترد ہوئے، گزشتہ بار بھی اتنے ہی تھے ، 25 حلقوں میں مسترد ووٹوں کا مارجن جیت کے مارجن سے زیادہ تھا۔

مسرت قدیم نے مزید کہا کہ الیکشن میں ریکارڈ امیدوار تھے، حلقہ بندی کے عمل سے کافی امیدوار متاثر ہوئے، الیکشن کمیشن نے ریکارڈ مدت میں حلقہ بندی کی، الیکشن کا دن پُرامن رہا، الیکشن کے دن صرف 149 معمولی واقعات کے ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ نتائج کی تیاری اور اعلان میں تاخیر نے نتیجہ کی ساکھ پر سوالات اٹھا دیے، مشاہدہ کیے گئے 29 فیصد پولنگ اسٹیشن کے باہر فارم 45 آویزاں نہیں کیے گئے، فافن مبصرین کو نصف آر او دفاتر میں نتائج تیاری میں رسائی نہیں دی گئی، 130حلقوں میں آر اوز نے مبصرین کو مشاہدہ نہیں کرنے دیا۔ اسلام آباد میں 3، پنجاب میں 78، سندھ میں 21، خیبرپختونخوا میں 17 اور بلوچستان میں 11 آر او آفس میں رسائی نہیں دی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشاہدہ کردہ 2.5 فیصد پولنگ اسٹیشن پر غیر متعلقہ افراد گنتی عمل میں موجود تھے، مشاہدہ کردہ 2 فیصد پریزائیڈنگ افسران نے پولنگ ایجنٹ کے دستخط نہیں لیے، مشاہدہ کردہ نصف پولنگ اسٹیشن پر پریزائیڈنگ افسران نے دوبارہ گنتی نہیں کی، ووٹرز نے زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ دیا، زیادہ تر سیاسی جماعتیں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔

فافن چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو 1 کروڑ 68 لاکھ ووٹ ملے، 2018 میں 1 کروڑ 69 لاکھ ووٹ ملے تھے، مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک 1 کروڑ 29 لاکھ سے بڑھ کر 1 کروڑ 33 لاکھ ہوا، پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک 69 لاکھ سے بڑھ کر 76 لاکھ ہوا۔

مسرت قدیم نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے ای ایم ایس کے باوجود ویب سائٹ پر پولنگ اسٹیشن کے نتائج نہیں دیے، الیکشن رزلٹ مینجمنٹ نظام کمزور رہا، جس نے نتایج پر سوالیہ نشان اٹھا دیے، آر اوز الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود تنائج دینے میں ناکام رہے، ووٹرز کو میڈیا کی معلومات پر انحصار رہا، نامکمل معلومات پر نتائج اخذ کیے گئے، الیکشن کمیشن کو وضاحت دینا ہوگی کہ پریزائیڈنگ افسران نے آر او آفس پہنچ کر نتائج دینے پر عمل کیوں نہ کیا، آر اوز نتائج کے کام میں ناکام رہے، الیکشن کمیشن نتائج دینے میں سستی کی تحقیقات کرے۔

قومی خبریں سے مزید