ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ اعتزاز گورایہ نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال 15 نومبر کو اغواء ہونے والے بچے مصور خان کاکڑ کو اغواء کاروں نے قتل کر دیا۔
ڈی آئی جی اعتزاز گورایہ نے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کے ہمراہ کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم نے بچے کی بازیابی کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اب تک اس کیس میں 19 جے آئی ٹی میٹنگز ہوئیں، بچے کی بازیابی کے لیے 2000 رہائشی مقامات کو سرچ کیا گیا۔
ڈی آئی جی کوئٹہ نے کہا کہ بچے کی بازیابی کے لیے وقتاً فوقتاً آپریشنز ہوتے رہے، اس دوران اغواء کاروں کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور ایران کے نمبر سے کال آئی، دشت کے علاقے میں اطلاع ملنے پر آپریشن کیا، جہاں ایک شخص مارا گیا اور دوسرا زخمی ہوا۔
ڈی آئی جی پولیس نے کہا کہ دشت میں بچے کو کہیں اور منتقل کیا گیا، بعد میں مار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ایک سرچ آپریشن کیا گیا، پیر کے روز ہمیں وہ مقام ملا، جہاں بچے کو دفنا دیا گیا تھا، ڈی آئی جی اعتزاز گورایہ نے کہا کہ لاش 2 سے 3 ماہ پرانی تھی، اسے 23 جون کو کوئٹہ منتقل کر کے لواحقین کو دکھائی گئی۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ ڈی این اے اور سائنٹیفک ثبوت کے بغیر ہم اعلان نہیں کر سکتے تھے، ڈی این اے کے بعد آج صبح کنفرم کیا گیا کہ یہ مصور کاکڑ کی ہی لاش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوششوں کا جو نتیجہ ہونا چائیے تھا وہ حاصل نہیں کر سکے، ہمارے لیے جتنا ممکن تھا ہم نے کیا، اس واقعے پر ہمیں دکھ اور افسوس ہے۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ پولیس اور حکومت کی طرف سےکنفرم کرتے ہیں کہ مصور کاکڑ شہید ہو چکے ہیں، جتنےسرچ آپریشن ہم نے اس کیس میں کیے، کسی اور کیس میں نہیں کیے۔
اس موقع پر موجود ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا کہ بچے کے اغواء کے بعد حکومت لوحقین کے ساتھ رابطے میں رہی، یہ ناکامی ہم قبول کرتے ہیں کہ بچے کی باحفاظت بازیابی نہیں ہو سکی۔
انہوں نے کہا کہ بچے کی بازیابی کی پوری کوشش کی گئی، اغواء کار افغانی تھے اور ایک اغواء کار باجوڑ کا تھا، معلومات کے مطابق کوئٹہ میں 2 گھر تبدیل کیے گئے، اس کے بعد بچے کو دشت اسپلنجی منتقل کیا گیا۔