ہمارے عوام بھی کتنے سادہ ہیں؟ اس کا اندازہ الیکشن کے نتائج دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔وہ جس عطار کے لونڈے کے سبب بیمار ہوتے ہیں اسی کو ووٹ دے کر کام یاب کرا دیتے ہیں اور پھر اگلے چار پانچ سال انہی کے گلے شکوے کرتے رہتے ہیں اور کسی نئے مسیحا کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔حالانکہ یہی عوام جب اتوار بازار کے کسی غریب ریڑھی والے سے تربوز خریدتے ہیں تو تربوز کو خوب ٹھوک بجا کر دیکھتے ہیں کہ کہیں پھیکا نہ نکل آئے۔یہاں تک کہ تربوز کٹوا کر دیکھتے ہیں۔سرخ نکلا تو خرید لیا ورنہ چھوڑ دیا۔
جب میں نے الیکشن سے پہلے سوشل میڈیا پر عوام کی لگائی ہوئی پوسٹیںدیکھیں تو کمان ہوا کہ ان سے زیادہ عقل مند کوئی ہے ہی نہیں۔میرے ایک دوست نے یہ پوسٹ لگائی تو مجھے لگا کہ عوام اب خاصے باشعور ہو گئے ہیں۔انتخابات میں حصہ لینے والا ایک امیدوار ایک بڑی عمر کے غریب آدمی کے پاس گیا۔اس کی طرف ایک ہزار روپے کا نوٹ بڑھاتے ہوئے بولا:’’یہ رکھ لیجیے اور اس بار آپ مجھے ووٹ ضرور دیجیے گا۔‘‘ وہ شخص بولا:’’جناب! یہ ہزار روپے رہنے دیجیے۔مجھے آپ ایک گدھا لا دیجیے۔میں گدھا گاڑی بنا لوں گا اور بار برداری کا کام کر کے ہر روز ایک ہزار روپے کما لیا کروں گا‘‘۔امیدوار کو ووٹر کی بات اچھی لگی۔وہ واپس چلا گیا۔جب وہ مویشی منڈی میں گدھا خریدنے گیا تو پتا چلا کہ گدھے کی قیمت چالیس ہزار روپے ہے۔چنانچہ وہ دوبارہ اپنے ووٹر کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ گدھا تو چالیس ہزار روپے کا ہے۔آپ یہ ایک ہزار روپے رکھ لیں اور مجھے ووٹ دے دیجیے گا‘‘۔تب ووٹر بولا:’’جب ایک ہزار روپے میں ایک گدھا بھی نہیں خریدا جا سکتا تو آپ ایک ہزار روپے میں مجھے کیسے خرید سکتے ہیں‘‘۔
اس قصے کو آپ ایک قصہ ہی سمجھئے۔کیونکہ ہوا وہی جو امیدوار چاہتا تھا۔اس بار بھی غریب کو اسی نرخ پر خریدا گیا جس پر وہ پچھلے پچھتر برسوں سے خریدا جا رہا ہے۔اسمبلی میں اس بار بھی وہی لوگ پہنچے ہیں جو طاقت، دولت، جاگیر اور اختیار رکھتے ہیں۔عام آدمی ابھی تک اتنی سی بات نہیں جان سکا کہ اس کی نمائندگی ایک طاقت ور،دولت مند،جاگیر دار اور صاحب اختیار کیسے کر سکتا ہے؟ اسے پتا ہی نہیں کہ اس کے مسائل تب حل ہوں گے جب وہ اسمبلی میں خود پہنچے گا یا اپنے جیسے کسی شخص کو اپنے ووٹ سے پہنچائے گا۔لیکن ہمارے مقتدر اور موثر طبقوں نے نظام ہی ایسا بنا دیا ہے کہ غریب آدمی کبھی اسمبلی کا دروازہ بھی نہیں چھو سکتا۔بالکل چڑیا گھر والا معاملہ ہے۔چڑیا گھر میں چڑیا کے نام پر بڑے بڑے درندے پالے جاتے ہیں۔چڑیا کے نام پر کروڑوں کا بجٹ درندوں کی خوراک اور دیکھ بھال پر اڑا دیا جاتا ہے۔اسی طرح ہماری جمہوریت میں جمہور کا کوئی عمل دخل ہی نہیں۔جمہور کے نام پر وڈیرے، جاگیردار، صنعت کار اور دولت مند لوگ اسمبلی میں بٹھا دیے جاتے ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ غریب عوام کی باتیں کرتے رہو تاکہ وہ اگلی بار پھر سے آپ کو منتخب کر سکیں۔ انتخابات کے بارے میںہی میرے ایک اور دوست نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ لگائی:’’کسی اور ملک کا تو مجھے پتا نہیں لیکن یہ تین باتیں ہمارے حالات پر یہ صادق آتی ہیں۔پہلی کارل مارکس کی ہے کہ الیکشن کی شکل میں ہر دو چار سال کے بعد مظلوموں کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ ظالموں کا کون سا طبقہ اب آپ کا نمائندہ ٹھہرے گا اورآپ کا ہی استحصال کرے گا۔دوسری بات مارک ٹوین سے منسوب ہے کہ اگر ووٹنگ سے واقعی کوئی فرق پڑتا تو یہ طاقت ور لوگ ہمیں کبھی ووٹ نہ ڈالنے دیتے۔تیسری بات رالف نیڈر کی ہے کہ جب آپ دو برائیوں میں سے کم تر برائی کا انتخاب کرتے ہیں تو دراصل پھر بھی آپ ایک برائی ہی کو منتخب کر رہے ہوتے ہیں‘‘۔
قائم ہے اک روایت دیرینہ ظلم کی
بازو بدل گئے کبھی خنجر بدل گئے
اور یہ پوسٹ تو بہت ہی مقبول ہوئی کہ’’ ہمارے ہاں انتخابات کے دنوں میں ایک نہایت امیر کبیر شخص پانچ کروڑ کی لش پش کرتی گاڑی سے اترتا ہے جس کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں درجن بھر اسلحہ بردار سیکورٹی گارڈ ہوتے ہیں۔وہ امیر کبیر شخص مجھ ایسے غریب آدمی سے کہتا ہے کہ میں آپ کا خادم ہوں۔اگر آپ اس سے کوئی خدمت کرانے کی کوشش کریں گے تو اس کے ساتھ آئے ہوئے اسلحہ بردار آپ کو آپ کی اصل اوقات یاد دلا دیں گے۔یہی ہے ہمارا نظام جسے ہم عوام بھی قطعاً بدلنا نہیں چاہتے۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نمائندگی اسمبلی میں وہ آدمی کرے جس کی بات پولیس سنتی ہو۔کیونکہ ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر تھانوں میں پیش ہونا پڑتا ہے۔تھانے سے گلو خلاصی ان ہی طاقت ور نمائندوں کے اشارے پر ہوتی ہے۔