تحریر: نرجس ملک
ماڈل: بتول زہرا
ملبوسات: منوش برائیڈل
آرایش: ماہ روز بیوٹی پارلر
عکّاسی: ایم۔ کاشف
کوآرڈی نیٹر: محمّد کامران
لے آؤٹ: نوید رشید
محمود شام کی اوائل عُمری کی کہی ایک غزل ہے کہ ؎ ’’نظر کسی کی نظر سے نہیں اُلجھتی تھی..... وہ دن بھی تھے کہ یونہی زندگی گزرتی تھی..... رہے تھے اپنی ہوائوں میں ایک عُمر مگر..... بکھر پڑے تو ہر اِک گام اپنی ہستی تھی..... یہی بہت تھا کہ کچھ لوگ آکے کہتے تھے..... وہ میرا ذکر بہت مخلصانہ کرتی تھی..... نظر میں پیار بھی تھا اور تکلفّات بھی تھے..... کہا کریں گے کبھی ہم، عجیب لڑکی تھی..... خموش رہتی تھیں، گہرے سمندروں کی طرح..... وہ آنکھیں، جن سے مِری شاعری بکھرتی تھی..... اُسے ملے تو پھر اِس بات کا سُراغ ملا..... ہمیں یہ زندگی کیوں اتنی پیاری لگتی تھی..... مہک تو اُس کے ہر اِک پیرہن میں تھی، لیکن..... وہ گھر کے سادہ سے کپڑوں میں خُوب لگتی تھی..... نہ جانے کتنے ہی صفحوں پر دل بکھیرا مگر..... نہ کہہ سکے تو وہ اِک بات ہی، جو کہنی تھی۔‘‘ ہائے!! کیا سادہ، سَچّا و سُچّا سا دَور تھا۔
جذبات و احساسات بھی کیسے پاکیزہ و پوتّر، اظہارِ محبّت و اُلفت کے لیے الفاظ کا استعمال بھی کتنا مہذّب و شائستہ..... وقت کے بگٹٹ، بے لگام گھوڑے نے ہماری کیسی خُوب صُورت تہذیب و ثقافت، رسوم و روایات کو بھی اپنے سُموں تلے روند ڈالا۔ دورِ حاضر کی جو بات سب سے تکلیف دہ بلکہ اذیّت ناک ہے، وہ بے حیائی و بے حجابی کا اس قدرعام ہوجانا ہی ہے۔ لاج، شرم، جھجھک، ہچکچاہٹ جیسے احساسات و الفاظ تو گویا متروک ہی ہوگئے ہیں۔ وہ کیا جون ایلیا نے کہا تھا کہ ؎ شرم، دہشت، جھجھک، پریشانی..... ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں..... آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے..... تم مِرا نام کیوں نہیں لیتیں۔
اور اِسی طرح خالد معین کی وہ غزل ؎ ’’رقص کیا، کبھی شور مچایا، پہلی پہلی بارش میں..... مَیں تھا، میرا پاگل پن تھا، پہلی پہلی بارش میں..... پیہم دستک پر بوندوں کی آخر اُس نے دھیان دیا..... کُھل گیا دھیرے دھیرے دریچہ، پہلی پہلی بارش میں..... اِک اکیلا مَیں ہی گھر میں خوف زدہ سا بیٹھا تھا..... ورنہ شہر تو بھیگ رہا تھا، پہلی پہلی بارش میں.....شام پڑے سو جانے والا، دیپ بجھا کر یادوں کے..... رات گئے تک جاگ رہا تھا، پہلی پہلی بارش میں..... جانے کیا کیا خواب بُنے تھے پہلے ساون میں، مَیں نے..... جانے اُس پر کیا کیا لکھا، پہلی پہلی بارش میں۔‘‘ اب تو ابتدائے محبّت کے وہ معصوم، بے ساختہ سے انداز قصّۂ پارینہ ہی ہوگئے۔ ہر ہاتھ میں موبائل فون، بلکہ بیک وقت دو دو، تین تین بھی، ایک عام سی بات ہے اور اِس ایک اسمارٹ فون سے دنیا کے کونے کونے تک رسائی، کسی کا بھی اگلا پچھلا، کچا چٹّھا بھی چند کِلکس ہی کی مار ہے۔
کچھ بھی تو مخفی و مستور نہیں رہ گیا۔ اِدھر کسی کی ’’سچّی محبّت‘‘ پروان چڑھی، چند ایّام میں سب طشت ازبام، اور بس، وہیں بریک اَپ۔ اور
پھر… اِن شوبز اسٹارز نے بھی تو کچھ زیادہ ہی طوفان، اودھم مچا رکھا ہے۔ محبّت، شادی، طلاق… دوسری، تیسری شادی، پھر طلاق..... رشتے ناتے، شادی جیسا پوتّر وپاکیزہ، انتہائی مضبوط، اِک نئےخاندان کی بنیاد رکھنے والا خُوب صُورت بندھن تو جیسے ایک کھیل تماشا ہی بن کے رہ گیا ہے۔ اور نسلِ نو کس سے متاثر ہے، کسے فالو کرنے کی کوشش کرتی ہے، اِن ہی اسٹارز کو۔ اور اب تو صرف شوبز اسٹارز ہی نہیں، سوشل میڈیا اسٹارز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی بھی ایک الگ کھیپ تیار ہو چُکی ہے اور اُن کے لچّھن بھی ٹی وی، فلم اسٹارز جیسے بلکہ اُن سے کچھ چار ہاتھ آگے ہی ہیں۔ تو پھر ایسے میں اُس روایتی سیدھی سچّی، صاف سُتھری، مقدّس و پاکیزہ محبّت، اَن مول جذبات و احساسات کا تو قلع قمع ہونا ہی تھا۔
خیر، ہمیں تو فیس بُک پرشیئرکردہ محمود شام کی غزل کے ایک شعر ہی نے روک لیا ؎ مہک تو اُس کے ہر اِک پیرہن میں تھی لیکن..... وہ گھر کے سادہ سے کپڑوں میں خُوب لگتی تھی۔ کہ ہماری آج کی بزم گھر کے سادہ سے کپڑوں ہی سے مرصّع ہے۔ لینن کے مشین ایمبرائڈرڈ تِھری پیس سُوٹس خاص اِسی موسم کا تحفہ ہیں۔ ذرا دیکھیے تو گہرے سبز، سیاہ، جامنی اور عنّابی رنگوں نے بزم کو کیسے چار چاند سے لگا دیئے ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ ہمیشہ کہیں انے جانے ہی کے لیے بنا سنورا جائے، گھروں میں بھی صاف ستھری، دُھلی نکھری خواتینِ خانہ بہت بھلی لگتی ہیں۔ نہ صرف خُود کو بہت اچھا محسوس ہوتا ہے بلکہ بچّوں کو اور خاص طور پر بچّوں کے ابّا کو بھی۔