• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ڈھل جائے دھنک جیسے کسی چندر کرن میں ...

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: خوشبو

ملبوسات: بینش عابد

آرایش: ماہ روز بیوٹی پارلر

عکّاسی: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

بانو آپا نے کہیں لکھا ہے کہ ’’عورت توجّہ مانگتی ہے اور مرد ذہنی سکون، دونوں کو جہاں بھی یہ دونوں چیزیں ملتی ہیں، وہ وہیں کے ہو کے رہ جاتے ہیں۔‘‘ اِسی طرح ایک اور جگہ لکھا کہ ’’مرد کے دُکھ خاموشی کی کوکھ میں جنم لیتے ہیں، جب کہ عورت کے آنسو ہر طرف شور کرتے ہیں۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’’مرد کی محبّت عورت کو کبھی مکمل سایا نہیں دیتی، اُس کے رویّوں کی دھوپ کہیں نہ کہیں سے عورت پر پڑتی ہی رہتی ہے۔‘‘ اُف!! ایسی سچّی سچّی باتیں ہیں، عین عورت و مرد کی فطرت سے ہم آہنگ۔ عورت، بے چاری اِک ’’توجّہ‘‘ ہی کی چاہ میں تو پوری زندگی تیاگ دیتی ہے۔ تَن مَن دَھن وار کے بھی اِک نظرِ کرم، محبّت کے دو میٹھے بولوں، ذرا سی تعریف سے زیادہ کچھ نہیں چاہتی، حتیٰ کہ کبھی کبھی تو لمبی مسافتوں کی رُوح تک اُتری تھکن، محبّت و ستائش کے محض ایک جملے ہی سے اُتر جاتی ہے۔ عورت فطرتاً حسّاس طبع ہے۔ 

سخت سے سخت حالات کا مقابلہ بھی کرلیتی ہے، خصوصاً اپنی اولاد کے معاملے میں تو جیسے شیرنی سی بن جاتی ہے، لیکن درحقیقت بالکل چڑیا سا دِل رکھتی ہے۔ آنسو تو بس پلکوں ہی پہ دَھرے رہتے ہیں اورکبھی کبھی تو اتنی معمولی باتوں، جیسے لباس، دئیے گئے ڈیزائن کے مطابق نہیں سِلا، میچنگ کا دوپٹّا، جوتا نہیں مِلا، چپّل، انگوٹھی کا نگ گر گیا، مَن پسند جیولری کا کوئی ٹانکا کُھل گیا، نئے بیگ کی زِپ ٹُوٹ گئی وغیرہ وغیرہ پر، ایسے ٹِپ ٹِپ آنسو گرنے، بے موسم ہی ساون بھادوں، برسات کا آغاز ہو جاتا ہے کہ بندہ سوچے، ہائیں! بھلا یہ بھی کوئی اِس طرح رونے دھونے والی بات تھی۔ اور پھر یہ بھی سو فی صد سچ ہی ہے کہ عورت کو عُمربھرکی تپسیّا کے بعد بھی کبھی مکمل خراج وصول نہیں ہوپاتا۔ کسی کسر، کمی، کوتاہی کا گلہ شکوہ سُننے کو مل ہی جاتا ہے۔ سو، محبّت کے جس گھنے سائے، ٹھنڈی چھائوں کی آس میں، وہ ساری حیاتی سخت، کڑی دھوپ میں بخوشی جَلے جاتی ہے، وہ اختتامِ سفر، منزل تک بھی مکمل طور پر نصیب نہیں ہوتی۔

گرچہ عورت کے اِن ’’بے پناہ‘‘ دُکھوں کا مداوا کچھ آسان نہیں، لیکن ہم اپنی سی ایک کوشش کے طور پر ہر ہفتے ہی نت نئے رنگ و انداز کی ایک بزم یوں سجا لاتے ہیں کہ عورت کی مصائب بَھری زندگی میں (وہ قدیم یونانی شاعر، ہومر سے منسوب ہے ناں کہ عورت کی کُل داستان اتنی سی ہے۔ ’’وہ پیدا ہوئی، اُس نے دُکھ اُٹھائے اور وہ مر گئی‘‘) اگر خوشی و مسرت کی کچھ کرنیں پُھوٹتی، کچھ جگنو سےچمکتے ہیں، تو وہ اِس آرائش و زیبائش، بنائو سنگھار ہی کے مرہونِ منّت ہیں۔

تو لیجیے، ہماری آج کی بزم کچھ تقریباتی پہناووں سےمرصّع ہے کہ ان دِنوں نہ صرف موسم کا حُسن جوبن پر ہے، بلکہ ہر طرح کی تقریبات کی بھی گویا بہار سے چھائی ہوئی ہے۔ تو ٹھنڈے میٹھے، بہت خوش گوار سے موسم کی مناسبت سے یہ کچھ گہرے، اُجلے رنگ و آہنگ آپ کی نذر ہیں۔ ذرا دیکھیے، گہرے مٹیالے (ڈارک گولڈن) سے رنگ میں حسین ایمبرائڈرڈ میکسی کا جلوہ ہے، تو ساتھ ہم رنگ ایمبرائڈرڈ آرگنزا دوپٹّا بھی ہے۔ 

بلڈ ریڈ رنگ میں نگ، موتی سیکوینس ورک سے آراستہ و پیراستہ پہناوا ہے، تو ڈارک بلیو رنگ میں شیفون کی فُل ایمبرائڈرڈ شرٹ کے ساتھ گھیر والی شلوار اور شیفون ہی کے دوپٹّے کی خُوب صُورت ہم آہنگی ہے، اور ٹی پنک رنگ میں گول دامن کی کام دار لانگ شرٹ کے ساتھ اسٹریٹ ٹرائوزر اورکام دار دوپٹّے کی ہم آمیزی کا بھی جواب نہیں۔

آپ کو بھی اِن دنوں کئی تقریبات کے دعوت نامے موصول ہو رہے ہوں گے، تو بس، اگلی کسی بھی تقریب کے لیے اِن میں سے کچھ بھی منتخب کرلیں۔ آپ کی سَکھیاں، سہیلیاں ضرور کہیں گی ؎ یہ حُسن ہے جھرنوں میں، نہ ہے بادِ چمن میں..... جس حُسن سے ہے چاند رواں نیل گگن میں..... اے کاش! کبھی قید بھی ہوتا مِرے فن میں..... وہ نغمۂ دل کش کہ ہے آوارہ پَون میں..... اِک حُسنِ مجسّم کا وہ پیراہنِ رنگیں...... ڈھل جائے دھنک جیسے کسی چندر کرن میں..... اے نکہتِ آوارہ! ذرا تُو ہی بتا دے..... ہے تازگی پھولوں میں کہ اِس شوخ کے تن میں۔