• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی عوام نے8فروری کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر’’ معلّق پارلیمان‘‘ کے حق میں فیصلہ دیا ہے، جس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت نہیں مل سکی اور نتیجتاً وفاق میں مخلوط حکومت بنانی پڑے گی۔ مسلم لیگ نون وفاق اور پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی، پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی، جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد میں اکثریت حاصل کر لی۔نیز، آزاد امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد کام یاب ہوئی۔حوصلہ افزا بات یہ ہوئی کہ الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں نے مل کر چلنے پر زور دیا۔

جو ماہرین اور تجزیہ کار پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت پر غیر معمولی تنقید کرتے رہے ہیں، اُنہیں اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اُس وقت کا مخلوط حکومت کا کام یاب تجربہ اب کس قدر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، وگرنہ آج مُلک ایک اور سیاسی بحران کی زَد میں ہوتا۔ بڑی جماعتوں کے تجربہ کار رہنمائوں کو اندازہ ہے کہ مُلک کس قسم کے اقتصادی بحران سے دوچار ہے، جب کہ اُنھیں اِس امر کا بھی احساس ہے کہ اگر جلد حکومت سازی کا عمل مکمل نہ کیا گیا اور بے یقینی کی کیفیت جاری رہی، تو مُلکی معیشت کو سنبھالنا ممکن نہیں رہے گا اور عوام کی’’ ہائے ہائے‘‘ آسمان کو چُھونے لگے گی۔

دوسری طرف، ووٹنگ کے پیٹرن سے لگتا ہے کہ عوام کو اب بھی احساس نہیں کہ پاکستان کس معاشی آزمائش سے گزر رہا ہے اور اسے ٹھیک کرنا ایک، دو سال کی بات نہیں، جب کہ اسے بے سمت بھی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ باقی دونوں صوبوں، یعنی بلوچستان اور کے پی کے میں کیا ہوتا ہے، یہ بھی جلد سامنے آجائے گا۔یہ تقریباً وہی صُورتِ حال ہے، جو گزشتہ انتخابات سے چلی آرہی ہے۔ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اپنی انتہائی کم زور معیشت کے باوجود پاکستانی عوام کیوں ایک مضبوط حکومت نہیں چاہتے،اِس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں، لیکن یہ طے ہے کہ مخلوط حکومت کے جو مضمرات ہیں، اُنہیں اب اگلے پانچ سال تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔اِس قسم کی ووٹنگ میں اُس سیاسی بے یقینی کا بھی بڑا ہاتھ ہوسکتا ہے، جو پچھلے چھے سالوں سے مُلک میں جاری ہے۔

نیز، اُن تکلیف دہ تجربات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جو ماضی میں یہ سوچے بغیر کیے جاتے رہے کہ ان کے سبب مُلکی معیشت کا کیا حال ہوگا۔انتخابی نتائج سے اِس امر کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کہ عوام اِس بات کا بھی ادراک نہ کرسکے کہ قوم کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، وہ خارجہ نوعیت کے نہیں، بلکہ اندرونی معاملات سے متعلق ہیں اور جو اُن کی زندگی کے ہر شعبے پر براہِ راست اثر انداز ہو رہے ہیں، جیسے منہگائی، بجلی، گیس کے بلز، قرضے، بنیادی سہولتیں اور نسلوں کا مستقبل۔

الیکشن 2024ء کی ایک اہم بات یہ بھی رہی کہ ان کی شفافیّت پر بہت کم انگلیاں اُٹھیں اور جو اُٹھیں بھی، تو وہ ٹیکنیکل نوعیت کی ہیں، جیسے موبائل فون کی بندش وغیرہ۔پی ٹی آئی بھی، جو الیکشن سے قبل پِری پول دھاندلی اور گٹھ جوڑ کی باتیں کرتی رہی، کافی حد تک مطمئن ہے۔اگر دیکھا جائے، تو حالیہ نتائج کی صُورتِ حال گزشتہ الیکشن ہی کی طرح رہی۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی اکثریت جیتی، سندھ میں پی پی پی، پنجاب میں نون لیگ آگے رہی، جب کہ بلوچستان میں بہت سی چھوٹی پارٹیوں کو کام یابی ملی۔ظاہر ہے کہ یہ ملا جُلا رجحان اسٹاک ایکسچینج میں تو شاید معمول کی بات ہو، لیکن جہاں پانچ سال کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بنانے کا معاملہ آجائے، وہاں یہ ہرگز کوئی قابلِ اطمینان بات نہیں، بلکہ لمحۂ فکریہ اور غور و خوض کی متقاضی صورتِ حال ہے۔

مُلک میں گزشتہ برسوں کے دوران جس قسم کی فکری و سیاسی تقسیم دیکھی گئی، اُس نے سیاسی اختلافات، دشمنیوں میں بدل دئیے۔ اپنے لیڈر اور پارٹی کی فتح ہر چیز پر سبقت لے گئی۔عام محفلوں میں اپنی بات تک کرنا ممکن نہیں رہا،جب کہ سوشل میڈیا تو صرف ایک دوسرے کو ذلیل کرنے، نیچا دِکھانے اور گالم گلوچ کا فورم بن کر رہ گیا ہے۔بڑے بڑے دانش وَر کہلانے والے سیاسی اختلافات میں سرحدیں پھلانگنے لگتے ہیں اور ہر سیاسی بات زندگی و موت کا مسئلہ بنا لی جاتی ہے۔

گویا سب جذبات کی رو میں بہہ رہے ہیں۔ بلند آواز میں بھاشن دینے ہی کو دانش وَری اور تجزیہ کاری سمجھ لیا گیا ہے۔کم از کم اب تو اُن لوگوں کو( جو تعلیم یافتہ ہونے کے دعوے دار ہیں، مُلک و قوم کی رہنمائی کو اپنا حق سمجھتے ہیں) ٹھہرائو سے کام لینا چاہیے۔اب کام کا وقت ہے اور سب کو اسی پر فوکس کرنا چاہیے۔پولزم، مقبولیت یا کلٹ کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا اور قوم کو جوش سے زیادہ ہوش میں رہنا پڑے گا۔ جب حالات اِس نہج پر پہنچ جائیں کہ کس خبر یا بات پر بھروسا کیا جائے،تو پھر ایسے انتخابی نتائج کا سامنے آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

لوگ ہر روز عدالتوں کے فیصلوں کا انتظار کرتے رہے اور میڈیا اُسی پر فوکس کر کے عوام کی توجّہ حاصل کرتا رہا، جب کہ قومی ایشوز پسِ پُشت ہی رہے۔ منہگائی اور بے روز گاری کا رونا رونے والے، ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی سیاست پر اُترے رہے۔ظاہر ہے، اِس کنفیوڑ صُورتِ حال میں واضح نتائج تو نہیں آنے تھے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے انتخابی نتائج سے وہ چیلنجز، جن کا پاکستانی قوم کو سامنا ہے، ختم یا کم ہوجائیں گے؟صاف جواب ہے، بالکل بھی نہیں۔ چاہے کوئی بھی حُکم ران بن جائے، حالات ایسے ہیں کہ دانتوں تلے پسینہ آجائے گا۔

گویا ’’ اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔‘‘خزانہ تو اُسی طرح خالی ہے، جیسے2022ء کے اپریل میں تھا۔کسی بھی لیڈر یا ماہر کے لیے مُلک کو فوری ترقّی کی راہ پر ڈالنا ممکن نہ ہوگا۔قوم نے جو بویا تھا، اب اُسے کاٹنے کے لیے تیار رہے۔’’کام اورصبر‘‘، اب یہی دو الفاظ گرہ سے باندھ لیے جائیں۔ قوم کو کمر کس لینی چاہیے۔نئی حکومت کو ایک انتہائی مضبوط معاشی ٹیم میدان میں اُتارنی پڑے گی اور بہتر یہی ہے کہ اب ماہرین سب کچھ بُھلا کر مُلک و قوم سنوارنے پر لگ جائیں۔ سب گلے شکوے دس پندرہ سال بعد دیکھ لیں گے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ مُلک چوبیس کروڑ آبادی کا ایک غریب مُلک ہے، جس کے پاس فی الحال افرادی قوت کے علاوہ کوئی بڑا ریسورس نہیں، جس سے مُلک چلایا جاسکے۔اس وقت کم زور، لڑکھڑاتی معیشت ہمارا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مُلکی معیشت نہ صرف کم زور ہے، بلکہ اس مرحلے پر پہنچ چُکی ہے، جہاں اُسے روزانہ کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے، یعنی سانس لینے کے لیے آکسیجن مہیّا کی جاتی ہے۔یہ چار قدم چلتی ہے اور پھر ہانپنے لگتی ہے۔ ہمارے پاس اِتنی رقم نہیں کہ مُلک کے خرچے پورے کرسکیں، تن خواہیں ادا کرسکیں یا کوئی بڑا پراجیکٹ شروع کر سکیں،عوام کو ریلیف دینا تو بہت دُور کی بات ہے۔

ہم نے اپنے آرٹیکلز میں یہ بات بار ہا دُہرائی کہ اگر معیشت کو ووٹ نہیں دیا گیا، تو شاید کہنے سُننے کے لیے کچھ بھی نہ بچے، مگر افسوس، عوام نے معیشت کو ووٹ نہیں دیا۔ صرف ایک ماہ قبل بنگلا دیش میں پاکستان سے بھی خراب سیاسی کش مکش تھی، ساری اپوزیشن جیلوں میں بند تھی، لیکن اس کے باوجود عوام ایک ایسی حکومت پر متفّق ہوگئے، جو اُن کے معاشی مسائل حل کر رہی ہے اور جس کے پاس وہ پلان اور منشور بھی ہے، جس سے آئندہ پانچ سال تک مُلک کو چلایا جائے گا۔ مغربی ممالک نے حسینہ واجد کو الیکشن کے طریقۂ کار، انسانی حقوق اور جمہوریت پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن وہ کام یابی سے خُود کو منوا چُکی ہیں۔ 

بنگلا دیش کا گروتھ ریٹ آٹھ کے قریب ہے، جو دنیا کے بڑے مُمالک کے برابر ہے۔وہاں کے عوام کی اکثریت بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔جب کہ ہمارے مُلک میں صُورتِ حال بالکل ہی مختلف ہے۔جو مُلک پہلے ہی قرضوں پر چل رہا ہو، وہاں آنے والی حکومت کو اِس بات کی تیاری کر لینی چاہیے کہ مزید قرضے کیسے حاصل کیے جائیں گے اور جو موجودہ قرضے ہیں، اُنہیں کس طرح رول اوور کروانا ہے کہ کوئی مُلک ان کی واپسی کا تقاضا نہ کرے۔اس ضمن میں بلوم برگ کا تبصرہ ہی دیکھ لیں، جس میں کہا گیا کہ’’ سیاست چاہے کیسی بھی ہو، پاکستان کو دوسرے پروگرام کے قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔‘‘ گویا عوام، حکومت اور ماہرین یہ کڑوی گولی نگلنے کی تیاری کرلیں۔آنے والے وزیرِ اعظم اور وزیرِ خزانہ اگلے ماہ تین اقساط کے پروگرام کی آخری قسط کے لیے آئی ایم ایف کے دربار میں حاضری کی تیاری کرلینی چاہیے۔

اطلاعات کے مطابق نگران حکومت نے اِس سلسلے میں کچھ معروضات تو پیش کی ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ انتخابات کی وجہ سے اب ان کی کم ہی اہمیت رہ گئی ہے اور آئی ایم ایف کے حکّام یہ جاننے کے لیے بے قرار ہوں گے کہ نئی حکومت اس کے دیئے گئے اہداف کو کس طرح پورا کرتی ہے۔ گزشتہ سالوں کا تجربہ، چاہے وہ پی ٹی آئی کا ہو یا پی ڈی ایم کا، یہ بتاتا ہے کہ عالمی ادارے کسی بھی قسم کی نرمی یا لحاظ کرنے کو تیار نہیں۔اگر کوئی اِس خام خیالی میں ہے کہ اسے یہ کہہ کر جھانسا دیا جائے گا کہ ہم تو ابھی آئے ہیں، پہلے سنبھل تو لیں، سمجھ لیں، پھر آگے بڑھیں گے، تو وہ شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ 

اپنے عوام کو تو لفّاظی اور سوشل میڈیا سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے، مگر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی ٹھوس تیاری کرنی ہوگی۔پھر اگلی مشکل قومی بجٹ کی صُورت سر پر موجود ہے۔لوگ پہلے ہی منہگائی اور ٹیکسز کے بوجھ تلے پِسے ہوئے ہیں، جب وہ بھاری بَھر کم بجلی، گیس کے بلز ادا کرتے یا کچھ خریدنے جاتے ہیں، تو ان کے دماغ ٹھکانے لگ جاتے ہیں۔سابقہ پی ڈی ایم حکومت اور نگران حکومت پر سب سے بڑا الزام ہی یہ ہے کہ اُنھوں نے آئی ایم ایف کی شرائط من وعن قبول کر لیں اور عالمی ادارے نے ٹیکسز یا بجلی، گیس کے بلز کی شکل میں عوام پر جو بھی بوجھ ڈالنے کا کہا، اُسے اُسی طرح عوام پر لاد دیا گیا۔

تو کیا نئی مخلوط حکومت اِس پوزیشن میں ہوگی کہ وہ اس ادارے کے سامنے کوئی اسٹینڈ لے سکے اور پھر یہ بھی سوال ہے کہ آخر آئی ایم ایف کیوں رعایت دے گا، جب کہ وہ واضح طور پر دیکھ رہا ہے کہ پاکستانی عوام کی معیشت کے معاملات سنوارنے میں بہت کم دل چسپی ہے۔ وہ تو اپنے بپھرے جذبات کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں۔یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ مُلک کے تمام اقتصادی ماہر اِس امر پر متفّق نظر آتے ہیں کہ حکومت سازی کے فوراً بعد آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام میں جانا لازمی ہوگا۔اِس لیے نہیں کہ قرضے لے سکیں، بلکہ اِس لیے کہ دوسرے ممالک سے سرمایہ کاری ممکن ہوسکے اور اس میں ہمارے دوست ممالک اولیت رکھتے ہیں، کیوں کہ وہ پہلے بھی اس امر پر بہت اصرار کرتے رہے کہ پہلے آئی ایم ایف کی ضمانت حاصل کرو، اس کے بعد ہم سے قرضے کی بات کرنا۔

گزشتہ مہینوں میں میڈیا کے ایک حصّے کا کردار خاصا مایوس کُن رہا۔اصل قومی مسئلہ معیشت کا تھا، لیکن فوری شہرت کے چکر میں، جسے عرفِ عام میں ریٹنگ کہا جاتا ہے، اس کا فوکس روز مرّہ کے عدلیہ کے ریمارکس اور الیکشن کے دیگر معاملات پر رہا۔ اسی لیے قوم میں یہ شعور کم رہا کہ معیشت ہی سب کچھ ہے، بلکہ الیکشن بھی معیشت کے سنوار کے لیے ہیں، نہ کہ کسی فرد یا پارٹی یا فیصلوں کی پزیرائی کے لیے۔ سوشل میڈیا سے تو ویسے بھی زیادہ امیدیں وابستہ نہیں تھیں اور اس کا کردار حسبِ توقّع سنسنی خیزی اور بے سروپا انکشافات پر مبنی رہا۔نتیجہ یہ نکلا کہ سولہ کروڑ اسمارٹ فون رکھنے والی قوم عجب کنفیوژن میں مبتلا رہی۔

اِن حالات میں میڈیا اور اس کے کردار پر یونی ورسٹیز کی سطح پر اکیڈمک ریسرچ کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ہم نے وکلاء تحریک کے بعد بھی اِس جانب توجّہ مبذول کروائی تھی کہ میڈیا پرسنز، سیاست دان بنتے جارہے ہیں، وہی کردار اب مزید مضبوط ہوگیا ہے اور پراپیگنڈے کو’’ آزاد صحافت‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے، جس سے ناپختہ ذہن جلد متاثر ہوتے ہیں۔میڈیا پرسنز مختلف جماعتوں کی کُھل کر حمایت کرتے ہیں اور اُنھیں اس پر فخر بھی ہے۔اِسی طرح میڈیا ماہرین کی شکل دیکھ کر بتایا جاسکتا ہے کہ وہ کیا فرمائیں گے۔

اس طرح کے رویّوں سے عام آدمی کی ذہن سازی میں کیا مدد ملتی ہے، سمجھ سے باہر ہے۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ہر بڑا اینکر اب’’ وی لاگر‘‘ بھی بن چُکا ہے، کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ اس کا ٹی وی پر گھنٹے بھر کے پرائم ٹائم پروگرام کو عوام اہمیت نہیں دے رہے، جو اُسے وی لاگر بننا پڑا۔پھر یہ کہ اب ہر اینکر دوسرے چینلز پر تجزیہ کار بنا ہوا ہے۔بہرحال، اِس معاملے پر مزید تجاویز سامنے آنی چاہئیں کہ میڈیا کا مثبت کردار کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے۔

نئی حکومت کے لیے معیشت سے جُڑا دوسرا بڑا چیلنج، دوست ممالک سے قرضوں کا حصول ہوگا۔اِس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ مُلک میں ایک ایسی قابلِ بھروسا حکومت ہو، جس پر دنیا کا اعتماد ہو کہ وہ مُلکی معاملات، خاص طور پر معاشی معاملات بخوبی چلاسکتی ہے۔ان سے لیے گئے قرضے درست استعمال ہوں گے اور یہ حکومت قرضوں کی واپسی کی بھی صلاحیت رکھتی ہو۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین یا کوئی بھی دوسرا مُلک پاکستانی عوام کو محض اِس بنیاد پر قرضے دے گا اور نہ ہی سرمایہ کاری پر آمادہ ہوگا کہ یہاں کوئی حکومت بنا لی گئی ہے۔انہیں تو اپنے سرمائے سے دل چسپی ہوگی کہ وہ کیسے محفوظ رہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی صُورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔غزہ سے متعلق ہمارے جذبات کیسے بھی ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بحران نے عرب ممالک کے قرضے دینے کی صلاحیت کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔حوثی باغی آئے دن جہاز رانی میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے حملے کر رہے ہیں، جس سے عالمی تجارت متاثر ہو رہی ہے اور اِس راستے سے دنیا کی تقریباً پندرہ فی صد تجارت ہوتی ہے۔پھر عرب ممالک کی ترجیح اِس وقت مشرقِ وسطیٰ کے مسائل سے نکلنا ہے۔جنگوں سے وہاں جو تباہی آئی ہے، اس کے لیے سرمایہ کاری بھی انہی کو کرنا پڑے گی۔ایسی صُورت میں اُن کے لیے پاکستان کو اربوں ڈالرز کے قرضے دینا کیسے ممکن ہوگا۔ کیا وہ نہیں چاہیں گے کہ سرمایہ کاری کے لیے کسی ایسے مُلک کو چُنیں، جہاں مستحکم سیاسی حکومت ہو اور ساتھ ہی جہاں کی معیشت انھیں منافع بھی دے سکے۔

اِس پس منظر میں بھارت سے زیادہ کون سا مُلک اس خطّے میں اُن کے لیے پسندیدہ ہوسکتا ہے،جو تیزی سے ترقّی کا سفر طے کر رہا ہے۔ سوچنا ہوگا کہ جن منصوبوں کے خواب ہم دیکھ رہے تھے، کیا کوئی اُن میں سرمایہ کاری کرے گا۔ نریندر مودی تیسری مرتبہ انتخابات میں جارہے ہیں اور جس طرح بھارت نے ان کے دَور میں معاشی ترقّی کی ہے، اس کے بعد اُن کے تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہونے سے حالات کیسے ہوں گے، یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔بنگلا دیش بھی ترقّی میں بہت آگے ہے اور حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بھی مضبوط حکومت وجود میں آئی ہے۔ 

ہمیں غور کرنا چاہیے کہ حماقتیں، جذباتی دانش وَری اور بے مقصد سیاست ہمیں کہاں لے جا رہی ہیں۔ کیا ہم عرب دوستوں سے قرضے ہی مانگنے پر لگے رہیں گے۔کیا ہر وقت چین کو سہارا بناتے رہیں گے یا امریکا کی سازشی تھیوریز سے عوام کے خالی پیٹ بَھرتے رہیں گے؟وقت گزرتا جا رہا ہے، مگر ہم آنکھیں کھولنے پر آمادہ نہیں۔

چین ہمارا سب سے مضبوط دوست ہی نہیں، ترقّی کا پارٹنر بھی ہے۔ اِسی لیے ایک مرتبہ پھر ہماری نظریں اُسی کی طرف اٹھ رہی ہیں۔سی پیک میں وہ ہمارے ساتھ ہے، تاہم، نئی حکومت کو اُسے یقین دلانا ہوگا کہ نہ صرف اب یہ منصوبے پورے ہوں گے بلکہ ان کی رفتار بھی تیز رہے گی۔یاد رہے، چین نے ہمیں سی پیک کے تمام منصوبے قرضوں کی بنیاد پر دیئے ہیں، یہ قرضے نہ صرف واپس کرنے ہوں گے بلکہ اس سے خود کفالت اور مُلکی ترقّی کے لیے منافع بھی حاصل کرنا ہوگا۔

چین نے بین الاقوامی معاملات میں بہت کُھل کر ہمارا ساتھ دیا ہے، جن میں تنازعات سے لے کر معیشت تک شامل ہے۔ہماری امریکا اور یورپی ممالک سے تجارت، چین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، تاہم چین نے ہمارے عوام کی ترقّی اور خوش حالی کو مدّنظر رکھتے ہوئے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ اس کی اعلیٰ ترین قیادت ہمارے حُکم رانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتی رہی کہ وہ سب سے تعلقات اچھے رکھیں۔اُس نے امریکا اور بھارت سے بھی تعلقات اچھے رکھنے پر زور دیا۔ 

اُس نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ اس کے دو طرفہ معاملات کی خاطر پاکستان کو کوئی زک اٹھانی پڑے، کیوں کہ وہ یہ بات سمجھتا ہے کہ پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت میں ان تعلقات کی کیا اہمیت ہے، اسی لیے اس نے یہ بھی مشورہ دیا کہ عوام اور لیڈرز کو جذبات کی سیاست و سفارت کی بجائے، ترقّی اور معیشت کی جانب توجّہ مرکوز رکھنی چاہیے، لیکن لگتا یہ ہے کہ سوائے زبانی جمع خرچ یا جذباتی باتوں کے پاکستانی قوم نے اپنے اس عظیم دوست کی نصیحت پر کان نہیں دھرے اور اسے بس ہر موڑ پر مدد کرنے والے دوست ہی کے طور پر لیا۔

ہم نے کئی مرتبہ اِس امر کی جانب توجّہ مبذول کروانے کی کوشش کی کہ چین اور ایسے ہی تیزی سے معاشی ترقّی کرنے والے ممالک ہمارے لیے ترقّی کا ماڈل بن سکتے ہیں، لیکن نامعلوم کیوں ہمیں باتیں کرنے اور صرف جذباتی دوستی کے بیانات دینے کا مرض لاحق ہے،عملی کاموں سے ہم بھاگتے ہی رہتے ہیں۔ہماری ایک خوش فہمی یہ بھی ہے کہ چین جیسے عظیم دوست ہماری ہر حماقت اور معاشی کوتاہی میں ہمیں بیل آئوٹ کریں گے اور چوں کہ اُن کے پاس بہت دولت ہے، اِس لیے وہ بغیر کسی غرض کے ہمیں اس میں سے حصّہ دے کر پالتے رہیں گے۔ 

ہمارے اہلِ دانش وقتاً فوقتاً ہمیں ایسے منصوبوں سے متعلق بتاتے رہتے ہیں، جن میں چین، روس اور دوسرے ممالک شامل ہوکر ہمیں دنیا کے عظیم ممالک کی صف میں شامل کر دیں گے۔یاد رہے، اِسی قسم کی ایک تھیوری افغانستان سے امریکا کے جانے کے بعد بھی پھیلائی گئی تھی، جو تجزیہ کاروں کا عرصے تک پسندیدہ موضوع رہی کہ چین، روس، پاکستان، افغانستان اور ایران مل کر کوئی بلاک بنائیں گے، جو امریکا اور یورپ کو شکست دے گا، حالاں کہ ایسا کوئی منصوبہ چین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔

نئی حکومت کے لیے خارجہ پالیسی بھی اہم ہوگی،حالاں کہ یہ اِس الیکشن میں ذرا بھی زیرِ بحث نہیں آئی۔خارجہ پالیسی کی اہمیت ہمارے لیے معاشی کم زوری کی وجہ سے غیر معمولی ہوگئی ہے۔مشکل یہ ہے کہ ہمارے اردگرد تنازعات اور فوجی تصادم ہوتے رہتے ہیں، جن میں کبھی ہم براہِ راست ملوّث ہو جاتے ہیں، تو کبھی بلاواسطہ حصّہ بن جاتے ہیں۔

کشمیر ان میں بنیادی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے، کیوں کہ اس پر پیش رفت کے بغیر بھارت سے کسی بھی قسم کے تعلقات کو معمول پر لانے سے متعلق کوئی حکومت سوچ بھی نہیں سکتی۔غزہ کی لڑائی ہے، جو پانچویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے، پھر یوکرین، روس جنگ ہے، جو دوسال سے جاری ہے۔مشرقِ وسطیٰ کا ہر معاملہ ہمارے لیے جذباتی بھی ہوتا ہے اور معاشی بھی۔جذباتی اِس لیے کہ ہم مسلم ممالک میں شامل ہیں اور اپنی فوجی، ایٹمی طاقت اور بڑی آبادی کی وجہ سے ایک خاص اہمیت بھی رکھتے ہیں۔

غزہ کی جنگ کو ہم نے اپنی ہی جنگ سمجھا اور وہاں کے بے بس شہریوں کی اذیّت کو اسی طرح محسوس کیا، جیسے یہ سب کچھ ہم پر گزر رہا ہو۔ اس کا یہ مذہبی اور انسانی پہلو ہے، اسی کے ساتھ سیاسی اور معاشی پہلو بھی ہیں۔غزہ کی جنگ میں ایران ایک اہم فریق ہے، اس کی حمایت حماس، حوثی قبائل، حزب اللہ اور دیگر مسلّح جنگ جوؤں کو حاصل ہے، جو براہِ راست اِس جنگ میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اس کے نتائج حوثی باغیوں پر امریکی اور مغربی ممالک کے حملوں کی شکل میں ظاہر بھی ہو رہے ہیں، تو دوسری جانب، امریکا نے شام اور عراق میں کئی ایرانی حامی گروپس کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔

باب المندب کی صُورتِ حال ایک الگ سُلگتا مسئلہ ہے، جسے بحرِ ہند کی اہم ترین گزر گاہوں میں ہونے کی وجہ سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔اِس پس منظر میں جو بھی نئی حکومت آئے گی، اُسے خارجہ پالیسی میں مشرقِ وسطی کے معاملات بھی دیکھنے پڑیں گے اور لامحالہ عوامی جذبات کی پاس داری بھی کرنی ہوگی۔دوسرا بڑا مسئلہ تیل کی قیمتوں کا ہے۔یہ بات کسی کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ تیل کی بڑھتی قیمتیں عوام پر کیا ستم ڈھاتی ہیں۔اگر غزہ کی لڑائی اختتام کو نہیں پہنچتی، تو ہمارے لیے ایک طرف تیل کا لین دین اور دوسری طرف، اس کی مؤخر قیمتوں پر دست یابی کس طرح متاثر ہو گی، یہ آنے والے وزیرِ اعظم کے لے سب سے بڑا سر درد بن جائے گا۔

وہ مشرقِ وسطی کے کتنے چکر لگائیں گے، کس کس کی منتیں کریں گے، عوام اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھیں گے۔ وہ تجزیہ کار اور ماہرین جو اس طرح کی باتوں کا مذاق اُڑاتے ہیں، انہیں بھی یہ سمجھ نہیں آئے گا کہ اگر یہ قرضے نہ ملے، تو کس طرح سے مُلکی زرِ مبادلہ کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔یہ بات کسی کو نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں ہوئے اور عوام نے اُس وقت یہ منقسم مینڈیٹ دیا ہے، جب بجٹ بننے میں بمشکل دو ماہ رہ گئے ہیں۔ 

جماعتیں اپنے اقتدار کا جشن منائیں گی یا رات دن اِس فکر میں گھلیں گی کہ عوام کو کس طرح سالانہ بجٹ میں ریلیف فراہم کریں۔ پی پی پی نے انتخابی مہم میں بڑے بڑے دعوے کیے ہیں، جن میں لاکھوں نوکریاں، گھروں کی تعمیر اور مفت بجلی کی فراہمی شامل ہے، اب دیکھتے ہیں، ان میں سے عوام کو کیا کچھ ملتا ہے اور کیسے ملتا ہے۔ جسے مُلکی حالات کا ذرا سا بھی ادراک ہے، یہ دعوے اُس کی سوچ سے بالاتر ہیں۔دوسرا اہم معاملہ یوکرین جنگ سے جنم لینے والی منہگائی ہے۔

روسی تیل کا دوسال قبل بہت شور تھا، لیکن اس کی قلعی جلد کُھل گئی اور آج کوئی اُس سستے روسی تیل کا نام بھی نہیں لیتا۔منہگائی میں کمی کا اہم ترین نسخہ برآمدات میں اضافہ کرنا ہے، مگر کم زور حکومت کس طرح اسے مینیج کر سکے گی، یہ دیکھنے کی بات ہوگی۔جب ہر تاجر شور مچائے گا کہ ہمارا مال منہگے خام مال، بجلی، گیس کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں کوئی خریدنے کو تیار نہیں، تو نئی حکومت سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی۔ خارجہ پالیسی میں ہمارے لیے ایک اور اہم ایشو امریکا اور مغربی ممالک سے تعلقات کو معمول پر رکھنے کا بھی ہے۔

غزہ کی جنگ کی وجہ سے یہاں جذبات بہت غالب ہیں، لیکن سفارتی تعلقات’’ کچھ لو، کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر چلتے ہیں اور یہ بھی کہ آپ کا مُلک اور قوم کس حد تک دوسرے مُلک کے لیے اہم ہے۔اچھے بیانات یا یہ کہنا کہ’’ مَیں اُس قوم یا مُلک کو سمجھتا ہوں‘‘ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔اب اوورسیز پاکستانیوں کے لیے بھی اصل کردار ادا کرنے کا وقت آگیا ہے کہ اُن کا مُلک اُنہیں پکار رہا ہے۔ اُنہوں نے گزشتہ چھے سالوں میں بڑے بھرپور طریقے سے مُلک کی اندرونی سیاست میں حصّہ لیا، تو اب وہ آگے بڑھ کر اپنے مُلک اور قوم کے لیے کچھ کر کے بھی دِکھائیں۔

سب سے پہلے تو اُنہیں زرِ مبادلہ کی ترسیل دُگنی کرنا ہوگی تاکہ مُلک کسی طرح سنبھل سکے۔نیز، اُنہیں یہاں سرمایہ کاری کرنا ہوگی اور اس ضمن میں جدید ممالک کی ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر کے دِکھانا ہوگا۔یہ کوئی ایسا کام نہیں، جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ہم بار بار چینی اور بھارتی تارکینِ وطن کا ذکر کرچکے ہیں، جو اپنے وطن واپس آئے اور اسے سہارا دیا۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ اہم ہیں، مگر سب سے اہم کردار خود پاکستانی عوام کا ہوگا، جنہوں نے یہ منقسم مینڈیٹ دیا ہے۔جرمنی میں دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک بننے والی تمام حکومتیں اتحادی ہی رہی ہیں۔

چانسلر مرکل، جنہوں نے بیس سال حکومت کی اور اپنے مُلک کو یورپ کی سب سے طاقت ور معیشت اور دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنایا، ہمیشہ اتحادی حکومت کی سربراہ رہیں۔ انہوں نے مُلک تو کیا، یورپ کے انتیس ممالک کو اپنے اشاروں پر چلایا اور دنیا کی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی باتیں منوائیں۔یاد رہے، وہ جرمنی کے مشرقی حصّے کی روسی بولنے والے ایک غریب پادری کی بیٹی تھیں۔ کیا ہماری سیاسی جماعتوں، رہنماؤں اور سب سے بڑھ کر عوام میں یہ خواہش، عزم اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایسے منقسم مینڈیٹ پر بننے والی حکومت کا ایسا سربراہ لائیں، جو اِس مُلک کو ترقّی کی شاہ راہ پر ڈال سکے۔

نئی حکومت کے لیے ایک اور اہم فیصلہ اپنے ہم سایوں سے تعلقات کو ٹھیک کرنا ہوگا۔بھارت سے ہماری دشمنی اور شدید تنازعات کا سب کو پتا ہے، جس میں مسئلہ کشمیر سب سے اہم ہے۔لیکن اب شاید یہ ضروری ہوگیا ہے کہ کم زور ترین معاشی صُورتِ حال کے تناظر میں یہ فیصلہ کیا جائے کہ بھارت سے تعلقات کی نوعیت کیا ہو۔ تمام جماعتیں اور دونوں ممالک مسئلۂ کشمیر کا حل چاہتی ہیں، تو اب اِس سمت بڑھنا چاہیے کہ مسلسل دشمنی کسی کے حق میں نہیں۔تنازعات بہت سے اقتصادی مسائل کا سبب ہیں اور کم ازکم ہم ان کے متحمّل نہیں ہوسکتے۔ نئی حکومت کا تمام تر فوکس اندرونی سیاست پر ہو گا۔ دہشت گردی کی نئی لہر نے پیچیدگیوں میں اضافہ کیا ہے، تو ایسے میں تنازعات کا حل بہت ضروری ہوچُکا ہے۔

سائفر معاملے نے امریکا سے تعلقات متاثر کیے، سازش کا بیانیہ اور اس کے اثرات دُور تک گئے، لیکن شاید امریکا نے سمجھ لیا ہے کہ اس میں اندرونی سیاست زیادہ تھی اور اس کا خارجہ پالیسی سے تعلق کم تھا۔ انتخابات بھی ہوگئے اور جلد ہی وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتیں بن جائیں گی، سوال یہ ہے کہ کیا مُلک کو مزید پانچ سال اِسی طرح گھسٹ گھسٹ کر چلنا ہے یا ترقّی کی تیز رفتار شاہ راہ پر دوڑنا ہے۔