• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رابعہ فاطمہ

آج ہمارے معاشرے میں جو تعلیمی نظام رائج ہے، یہ مسلمانوں کے زوال کے بعد وجود میں آیا، جس میں یا تو صرف عصری تعلیم کو ترقّی کا ضامن بتایا گیا یا پھر صرف دینی علوم پر زور دیا گیا۔ یوں مسلمانوں کے تعلیمی نظام سے وحدت کا تاثر زائل ہوتا گیا اور نتیجتاً تعلیم یافتہ افراد کے دو الگ الگ طبقات سامنے آئے، جو ہمیشہ ایک دوسرے سے لاتعلق رہے۔ ایک طرف انگریزی زبان پر عبور رکھنے والوں نے گُمان کیا کہ فلاں کو علم سے کیا سروکار، جب کہ دوسری طرف عربی زبان پر مہارت رکھنے والوں نے خیال کیا کہ انگریزی کُتب پڑھنے والے کو علم سے کیا واسطہ۔

تاہم، اب مسلمانوں کو تعلیمی دُنیا میں اب انقلاب کا نقّارہ بجانا ہوگا اور ایک ایسے تعلیمی نظام سے نسلِ نو کو متعارف کروانا ہو گا کہ جس میں جدید سائنسی و تحقیقی علوم کے ساتھ اسلامی علوم پر بھی دسترس حاصل کی جا سکے۔یوں بھی دُنیا کا کوئی ایسا برِ اعظم نہیں کہ جہاں مسلمان موجود نہ ہوں، جب کہ 56اسلامی ممالک اس کے علاوہ ہیں۔ تاہم، الم ناک بات یہ ہے کہ ان میں سے دو چار کے سوا کسی کی بھی شرحِ خواندگی30یا 40فی صد سے زاید نہیں ۔ حتیٰ کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان کی شرحِ خواندگی بھی30سے 40فی صد ہے۔ اس اعتبار سے پوری دُنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں 70سے 80کروڑ مسلمان ناخواندہ ہیں۔ 

انٹرنیشنل اسلامک نیوز ایجینسی کے ایک سروے کے مطابق، 40فی صد مسلمان لکھنا پڑھنا نہیں جانتے، جب کہ ان میں 60سے 65 فی صد مسلمان خواتین شامل ہیں۔ مذکورہ بالا اعدادوشمار سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، اگر مسلمان جدید اطوار پر اپنے تعلیمی نظام کا ڈھانچا استوار کرلیں، تو مختلف شعبوں میں اُن کی ترقّی یقینی ہے۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اسلامی ممالک کا نظامِ تعلیم بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے اور اسے کس طرح بہتر کیا جا سکتا ہے؟ تو اس ضمن میں چند تجاویز پیشِ خدمت ہیں۔

استعماری سوچ: انگریزوں نے برِصغیر میں ایک ایسے فرسودہ تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی، جس میں طبقاتی تفریق پائی جاتی تھی،تو ہمیں حاکم و محکوم کی درجہ بندی کرنے والے اس تعلیمی نظام کے فوری خاتمے کی ضرورت ہے اور اس نظامِ تعلیم پر میں صرف برِ صغیر ہی عمل پیرا نہیں بلکہ اس صف میں تمام اسلامی ممالک شامل ہیں، جو مغربی استعماریت کے زیرِ اثر رہے۔

معیارِ تعلیم میں بہتری: ہمیں اپنا تعلیمی معیار بلند کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ نیز، جدید علوم میں تحقیقی معیار بلند کرنے کے ساتھ ان کے حصول کے لیے آسانیاں بھی فراہم کرنی چاہئیں تاکہ مسلمان نہ صرف اپنی معاشرتی ضروریات سے آگاہ ہوں بلکہ جدید دَور کے فکری و تجریدی امور کا حصّہ بننے میں بھی کام یاب ہو سکیں۔

جدید نصابِ تعلیم کی ضرورت: آج اسلامی دُنیا کو اپنے نصابِ تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بھی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر بہ نظرِ غائرجائزہ لیا جائے، تو اسلامی ممالک کا نصابِ تعلیم مجموعی طور پر جمود کا شکار نظر آتا ہے۔ یاد رہے، ہمیں صرف دینی یا صرف عصری علوم پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ دونوں کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ نصابِ تعلیم تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

جدید علوم کی دوڑ: آج مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی بہت پیچھے نظر آتے ہیں، جب کہ اُن کا ماضی اُن کے حال کے برعکس تھا۔ اس ضمن میں جابر بن حیّان، ابن الہیثم اور ابنِ سینا وغیرہ جیسے سائنس دانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ افسوس، صد افسوس کہ اغیار نے تو اُن کے علوم سے فائدہ اٹھایا، مگر ہم جدید علوم کی دوڑ میں اُن کے مقابلے میں صدیوں پیچھے ہیں۔

تربیت یافتہ عملہ: ہمارے ہاں عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اساتذہ اپنے مضامین پرتو دسترس رکھتے ہیں، لیکن درس و تدریس کے اہل نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں، تو تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں فِن لینڈ کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جو دُنیا کا خوش حال ترین مُلک تصوّر کیا جاتا ہے اور وہاں تعلیمی اداروں میں نصابی سرگرمیاں بالکل مختلف ہیں۔ وہاں ایسے ماہرینِ تعلیم یا تربیت یافتہ عملہ بچّوں کو پڑھانے پر مامور ہوتا ہے کہ جن کو کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ فِن لینڈ میں کتاب کے ذریعے تعلیم و تربیت کا رواج ہی نہیں ہے۔ لہٰذا، ہمیں بھی اساتذہ کی تربیتّی نشستوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

برائے نام تحقیق: قرآنِ پاک کی ’’سورۃ القمر‘‘ میں اہلِ ایمان کو غور و فکر کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن اس کے برعکس آج ہم ہر سطح پر فکری جمود کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں تحقیق کا رُجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔نیز، تحقیق کے فقدان کا دوسرا سبب اس ضمن میں مواقع کی عدم فراہمی بھی ہے۔

معاشی بدحالی: مسلمانوں کے عروج کے دَور میں مفت تعلیمی نظام کا قیام عمل میں لایا گیا اور طلبہ کو معاشی فکر سے آزاد رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔ مُلکی معیشت کا استحکام یقینی بنایا گیا اور مسلم و غیر مسلم طلبہ کو مساوی درجہ دیا گیا، جب کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ معاشی بدحالی کے سبب مسلمان بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں، جو کہ ایک تشویش ناک صورتِ حال ہے۔ ایسے میں اسلامی دُنیا کو ایک ایسا نظامِ تعلیم متعارف کروانے کی ضرورت ہے کہ جس سے غربا بھی مستفید ہو سکیں۔

حکومتی منصوبہ بندی: اسلامی ممالک کی حکومتوں کو اپنے تعلیمی نظام کے لیے جدید طرز پر مبنی منصوبہ بندی کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ پلاننگ کے بغیر کوئی کام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا اور نہ ہی منصوبہ بندی کے بغیر کسی نظام میں بہتری ممکن ہے۔ منصوبہ بندی، سُنّتِ رسولﷺ بھی ہے، لہٰذا ہمیں نظامِ تعلیم میں انقلاب برپا کرنے کے لیے بہرحال ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔