• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8 فروری کو ہونے والے انتخابات ہر حوالے سے مختلف ہیں۔ زندگی میں کبھی اس طرح کے انتخابات نہیں دیکھے۔ انھیں شفاف کہوں تو دل روتا ہے انھیں غیر شفاف کہوں تو دماغ ماتم کرتا ہے۔ تو پھر یہ کیا تھے ؟ کیوں کہ 8فروری کو جس طرح رابطے کے تمام ذرائع بشمول فون کالز پر صبح صبح پابندی لگا دی گئی اس سے شکوک وشبہات پیدا ہونا شروع ہوگئے ۔ مگر انتخابات کا نتیجہ دیکھتا ہوں اور جب یہ دیکھتا ہوں کہ بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار جیت کر سامنے آئے ہیں تو پھر ان انتخابات پر کوئی رائے قائم کرنے سے قاصرہوجاتا ہوں مگر پھر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کراچی اور لاہور میں ایک بڑی تعداد 8فروری کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ ڈالتے نظر آئی لیکن کراچی کا نتیجہ اس کے برعکس ہے۔ ذاتی طور پر ایسے امیدواروں کو جانتا ہوں جو جیت کر اسمبلی پہنچ گئے ہیں مگر حلقے کے عوام یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ انھوں نے ان کوووٹ ڈالا۔ کراچی میں انتخابات پر سوالیہ نشان ضرور ہے ۔ کراچی میں چند نشستوں پر پی پی پی امیدوار جیت کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں لیکن بہت سی سیٹوں سے وہاں پر انتظامی مشینری کے ذریعے انھیں ہرایا بھی گیا ۔اس کوشش کے باوجود پی پی کو جو پذیرائی کراچی کے عوام کی طرف سے ملی ہے اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہےکہ ساری رکاوٹوں کے باوجود آخر ی جیت عوام کی ہوئی۔ دوسری طرف کراچی سمیت ملک بھر میں پی پی پی بہت بڑا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب رہی ہے۔

مگرپی پی پی قیادت کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کے کراچی میں بہت سے امیدوار 6ہزار سے زائد ووٹ کیوں نہ لے سکے۔ لیکن اس نے سندھ میں یک طرفہ کامیابی حاصل کرکے مخالفوں کی ضمانتیں ضبط کروا دیں یہ ہی صورتحال دیکھ کرکراچی میں پی پی کی کم از کم پانچ سیٹیں ایم کیو ایم کی جھولی ڈال دی گئیں۔ جماعت اسلامی کے بہت سے امیدوار مقابلہ کرتے نظر آئے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کو جس طرح 8 فروری کو جتوایا گیا وہ بھی ایک عجیب معاملہ ہے۔ خیر جو بھی ہوا شکر خدا کا کہ انتخابات پر امن طریقے سے ہوگئے ہیں۔ مگر ملکی سطح پر ایک عجیب رجحان نظر آیا جس میں لوگوں نے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کی حمایت کی اور عمران خان کے حق میں فیصلہ دیا ۔یہ دو ٹوک فیصلہ ہمیں سمجھ آئے نہ آئے لیکن یہ عوام کا فیصلہ ہے جس کو پی پی اور ن لیگ کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ان انتخابات میں یقینی طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کو اس طرح کے نتائج نہ مل سکے جس طرح کے نتائج وہ سوچ رہے تھے۔ پی پی پی کو سندھ میں برتری اور مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں برتری حاصل ہوئی ہے لیکن مجموعی طور پر عوام کا رجحان عمران خان کو مظلوم سمجھ کے ان سے ہمدردی کا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گزشتہ حکومت میں مہنگائی اور غربت نے جہاں عمران خان کے کارناموں کا ریکارڈ توڑ دیا وہاں شہباز شریف کی حکومت نے عمران خان کے خلاف ایسے اقدامات اٹھائے جس سے وہ مظلوم بن گئے اور پاکستان کے عوام ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے نظر آتےہیں ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جس پر ظلم ہورہا ہے اس نے عوام کے ساتھ کیا کیا۔ مگر اس میں سبق کیا ہے ؟ کیا ہم ہر چند سال بعد اس طرح کے انتخابات کروا کر ایسے لوگوں کو اسمبلیوں میں پہنچاتے رہیں گے کہ جن کے پاس ہمارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کے حقیقی نمائندے اسمبلی میں پہنچیں اور عوام کے مسائل حل کریں۔

2024 کے انتخابات ہوچکے ہیں۔ جلد حکومت بھی بن جائے گی۔ اور وزراء بھی اپنے دفاتر پہنچ جائیں گے۔ مگر کیا پاکستان کے مسائل حل ہوجائیں گے ؟ کیا غربت کا خاتمہ ہوگا۔ کیا مہنگائی میں کمی آئے گی۔ کیا آئی ایم ایف سے چھٹکارا مل جائے گا ؟ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں یہ بہت ضروری ہے کہ سیاسی استحکام پیدا کیا جائے ؟ جس کے لیے ضروری ہے کہ 9مئی کے مرکزی مجرموں کے علاوہ تمام افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک قومی حکومت بنائی جائے اور اس حکومت میں تمام جماعتوں کو شامل کر لیا جائے تاکہ ملک کو غیر مستحکم معاشی حالات سے باہر نکالنے کے لیے قومی پروگرام سامنے آئے جس کی کوئی مخالفت نہ کرے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو بھی اب ہوش کے ناخن لینا ہوںگے۔ وہ ملکی افواج ، پی پی پی اور پی ایم ایل این کے خلاف استعمال ہوتے آئے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ عمران خان کو پاکستان کی خاطر اپنی انا کو دفن کر کے 9مئی کے مجرموں سے لا تعلقی کا اعلان کر کے آصف علی زرداری اور نواز شریف سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے۔ وقت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آصف علی زرداری اپنا کردار ادا کریں اور ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالیں اور پاکستان کو نئی سوچ کے ساتھ نوجوان قیادت بلاول بھٹو زرداری کیلئے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کریں۔

تازہ ترین