• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یورپی یونین سے علیحدگی کا سوال گزشتہ کئی برسوں سے برطانوی سیاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ برطانیہ یورپی یونین کی ابتدائی شکل یورپین اکنامک کمیٹی میں 1973ء میں شامل ہوا تھا جس کے بعد یورپی یونین کسٹم کے رکن کی حیثیت سے اس کو دیگر رْکن ممالک سے تجارت کرنے میں آسانیاں ہوئیں مگر یورپین اکنامک کمیٹی میں اسٹرکچرل تبدیلیوں کی وجہ سے یورپی یونین کی اپنی کرنسی، اپنی پارلیمنٹ، کونسل اور عدالت قائم ہوئیں، رکن ممالک میں سرحدوں کا خاتمہ اور یورپی پارلیمنٹ کے قوانین کا نفاذ رکن ممالک پر لازم ہوگیا۔ یورپی یونین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو برطانیہ میں عوام نے ان کی خودمختاری سلب کرنا قرار دیا اور اس طرح برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی مہم شروع ہوئی، جو بالاخر کامیاب ہوگئی۔ اس مہم نے برطانوی عوام کو اس بات پر قائل کیا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ زیادہ خودمختار ہوگا، اپنے قوانین کا نفاذ کرپائے گا، امیگریشن اور بارڈر کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہوگاجبکہ یورپی یونین کی ممبر شپ کی مد میں ہر سال 20 ا رب پائونڈ دی جانے والی رقم کی بھی بچت ہوگی۔اس فیصلے کے بعد برطانیہ کو یورپی یونین چھوڑنے میں کم از کم دو سال لگ جائیں گے لیکن برطانوی معیشت کو اس کے منفی اثرات کا سامنا ابھی سے کرنا پڑسکتا ہے اور برطانوی معیشت مستقبل قریب میں مندی کا شکارہوسکتی ہے۔ برطانیہ یورپی یونین کو اپنی 45 فیصد برآمدات 400 ارب پائونڈز کرتا ہے لیکن ای یو سے علیحدگی کے بعد یورپی یونین کی برآمدات پر ممکنہ کسٹم ڈیوٹی لگنے سے برطانیہ کی ای یو کی ایکسپورٹس میں کمی آسکتی ہے جس سے برطانیہ میں بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔ اس وقت تقریباً 12 لاکھ برطانوی یورپی یونین میں رہتے ہیں جن کا برطانیہ کی علیحدگی کے بعد ای یو میں مستقل رہنا بھی ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی پر اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس صورتحال میں برطانیہ میں اگلے سال سے کساد بازاری (Ressasion) شروع ہوسکتی ہے جس سے مجموعی اقتصادی کارکردگی کی شرح اپنے ہدف سے کم ہوسکتی ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈی نے برطانیہ کی کریڈٹ ریٹنگ کو کم کرکے مستحکم سے منفی کر دیا ہے۔ موڈی کے مطابق ترقی یافتہ معیشتوں میں برطانیہ سب سے زیادہ خسارے کا بجٹ پیش کرنے والا ملک ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے بعد دنیا بھر میں بازارِ حصص میں مندی دیکھنے میں آئی اور برطانوی پاؤنڈ عشروں کی ریکارڈ سطح تک گر گیا۔ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ وہ 3 ماہ میں اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے ، ای یو سے علیحدگی کے حامی ایم پی بورس جانسن کو ان کا متبادل قرار دیا جا رہا ہے۔یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کی بڑی وجوہات معیشت، امیگریشن اور روزگار تھیں، برطانیہ میں نوکریوں پر یورپی یونین کے رکن ممالک کا غلبہ تھا جس کی وجہ سے برطانوی عوام نے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ای یو سے علیحدگی کے بعد برطانیہ سے غیرملکی سرمایہ کاری نکلنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
1970ء کے بعد ایک نیو ورلڈ آرڈر آگیا ہے، یورپ کی دیگر مضبوط معیشتیں بھی یورپی یونین سے علیحدگی کی طرف جاسکتی ہیں، معاشی اعتبار سے برطانیہ کو یورپی یونین چھوڑنا مہنگا پڑے گا، مہاجرین کے معا ملے پر بہتر موقف اختیار کرنے والی جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو بھی اپنی پوزیشن تبدیل کرنا پڑے گی،برطانیہ میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد یورپی یونین سے علیحدگی کے موقف کی حمایت کررہی تھی لیکن برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کا نقصان پاکستان کو بھی ہوگا۔ ای یو پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے ۔یورپی یونین نے جنوری 2014ء سے پاکستان کو 10 سال کیلئے جی ایس پی پلس کا درجہ دیا تھا جس کے تحت پاکستان کو یورپی یونین کے 28 ممالک میں ڈیوٹی فری ایکسپورٹس کی مراعات حاصل ہیں جس سے ہماری ای یو ایکسپورٹ میں تقریباً ایک ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن اب برطانیہ کی ای یو ممالک سے علیحدگی کے بعد پاکستان سے برطانیہ ڈیوٹی فری ایکسپورٹ ممکن نہیں رہے گی جس سے ہماری برطانیہ کو ایکسپورٹس میں کمی آسکتی ہے۔ پائونڈ اور یورو کی قیمت گرنے سے پاکستان کی برطانیہ اور ای یو کو ایکسپورٹس بھی مہنگی ہوجائیں گی جس سے پاکستانی ٹیکسٹائل کی برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ برطانیہ میں کساد بازاری کے باعث برطانیہ سے پاکستان آنے والے ترسیلات زر میں بھی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
برطانیہ کی ای یو سے علیحدگی کے فیصلے کے فوراً بعد سرمایہ کاروں نے یورپی یونین کے اسٹاک ایکسچینج سے اپنا سرمایہ نکلوانا شروع کردیا ہے جس سے گلوبل ایکویٹی مارکیٹ میں صرف ایک دن میں 2.1کھرب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج 100 انڈکس سے 1400 پوائنٹس گرگیا لیکن بعد میں 848 پوائنٹس کی کمی پر انڈیکس 37390 پر بند ہوا۔ PSE میں بینک اور تیل کمپنیوں نے زیادہ خسارہ برداشت کیا۔ پائونڈ اسٹرلنگ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ 13فیصد تک گرگیا، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 4 فیصد گرگئیں اور سونا انٹرنیشنل مارکیٹ میں راتوں رات 1326ڈالر فی اونس کی بلند سطح پر پہنچ گیا۔پاکستان کی صرافہ مارکیٹ میں بھی سونے کی قیمت 50200 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی۔ جاپانی کرنسی ین 3% اضافے سے ڈالر کے مقابلے میں 102 روپے تک پہنچ گیا جس کا پاکستان کی مقامی آٹو سیکٹر پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ جاپان سے گاڑیوں کے پارٹس اور آلات کی امپورٹ پر لاگت بڑھ جائے گی جس کی وجہ سے مقامی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔
یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹکس کے بقول برطانیہ یورپی یونین کو چھوڑ کر ایک بڑی غلطی کررہا ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے کہا ہے کہ برطانیہ کے یورپ سے نکلنے کے فیصلے کے بعد اسکاٹ لینڈ برطانیہ کا حصہ رہنے پر ایک اور ریفرنڈم کرائے گا کیونکہ اسکاٹ لینڈ کے عوام نے ریفرنڈم میں یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ بہرحال برطانیہ کی یورپی یونین سے غیر متوقع علیحدگی موجودہ صدی کا اہم تاریخی واقعہ ہے جس نے دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ برطانیہ جو Divide & Rule کی پالیسی پر عمل کرتا آیا ہے، آج خود اپنے فیصلے پر منقسم نظر آرہا ہے۔ ریفرنڈم کے بعد 20 لاکھ سے زائد برطانوی شہریوں نے ایک آن لائن پٹیشن پر دستخط کئے ہیں جس میں برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے خلاف ایک اور ریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ یورپی یونین نے برطانیہ کو جلد از جلد ای یو سے نکل جانے کا مشورہ دیا ہے اور برطانیہ کے انخلاء کیلئے ایک اسپیشل ٹاسک فورس بھی تشکیل دے دی ہے جبکہ فرانسیسی قانون سازوں نے انگریزی کو یورپی یونین کی باقاعدہ زبانوں کی فہرست سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی حکومت کے اپنے ایک تخمینہ کے مطابق ای یو سے علیحدگی کے بعد 2030ء تک برطانوی معیشت 3.8% سے 7.5% کی شرح تک سکڑ سکتی ہے۔ برطانیہ کے ای یو سے علیحدگی کے فیصلے سے برطانیہ میں رئیل ااسٹیٹ کی قیمتوں میں بھی منفی اثر پڑسکتا ہے کیونکہ کچھ سرمایہ کار برطانیہ کے موجودہ بحران اور غیر ملکی کرنسیوں کے اتار چڑھائو کو دیکھتے ہوئے اپنی سرمایہ کاری کیلئے محفوظ جگہیں تلاش کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں یورپ کیلئے بننے والی کاریں برطانوی ماحولیاتی اور حفاظتی معیار پر بنائی جارہی ہیں لیکن یورپ سے علیحدگی کے بعد کیا یورپی یونین کو برطانیہ کا موجودہ معیار قابل قبول ہوگا؟ اسی طرح کیا یورپی یونین برطانوی شہریوں کو ویزے کی چھوٹ دے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب مستقبل میں برطانیہ اور یورپی یونین کے تعلقات کی بنیاد ہوں گے۔
تازہ ترین