اسلام آباد(ایجنسیاں/مانیٹرنگ ڈیسک) جمعیت علمائے اسلام (ر)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی‘جنرل (ر)فیض اور جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ ہمارے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کی موجودگی میں سیاسی جماعتوں کو بلایا گیا اور سب کے سامنےہدایات دی گئیں کہ آپ نے ایسا کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے ۔
فیض حمید میرے پاس آئے اور کہا جو کرنا ہے سسٹم کے اندر رہ کر کریںآؤٹ آف سسٹم نہیں ‘ میں تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا ‘چاہتا تھا تحریک کے ذریعے حکومت ہٹائی جائے‘عدم اعتماد کی تحریک پیپلز پارٹی چلا رہی تھی‘ اس پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مہر لگا ئی‘عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا میں نے بانی پی ٹی آئی کو بچایا۔
2018ء میں دھاندلی ہوئی تھی اوراب بھی الیکشن چوری ہوئے ہیں جس کا بظاہر فائدہ (ن)لیگ کو ہوا ہے‘موجودہ پارلیمنٹ کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا‘پاکستان میں کرسی پر بیٹھنے والا حکمران نہیں ہوتا‘پارلیمان میں فیصلے اور پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گی‘ریاستی اداروں کا احترام ہے لیکن وہ سیاست میں کیوں آتے ہیں،ہم ان کو سپورٹ کریں گے وہ جمہوری نظام کو سپورٹ کریں‘عمران خان سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے‘ ہمارے درمیان ایسی کوئی انڈرسٹینڈنگ نہیں ہے کہ میں ان کے فلسفے اور حکمت عملی کو سمجھ سکوں‘اسمبلی میں ہم تحفظات کیساتھ جارہے ہیں اس لیے وزارت عظمیٰ یا دیگر عہدوں کیلئے کسی کی حمایت نہیں کریں گے‘اس حما م میں سب ننگے ہیں۔
جمعرات کو ایک انٹرویو میں فضل الرحمن نے کہاکہ حالیہ انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن انتخابی چوری ایسا عمل ہے جس کا گواہ یا شواہد پیش کرنا دشوار ہوتا ہے‘پورا الیکشن چوری ہوا ہے۔دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے‘سڑکوں کو گرمائیں گے‘فضل الرحمن نے کہاکہ تاثر موجود ہے کہ نواز شریف کو لاہور کی سیٹ دی گئی ہے‘یہ جو حکومت نہیں لے رہے شاید یہ بھی اسی وجہ سے ہو۔
انہوں نے کہاکہ پی ڈی ایم انتخابی یا حکومتی اتحاد نہیں تھا،اس تحریک میں ہم اختلافات کے باوجود اکٹھے چل رہے تھے کیونکہ جو حکمت عملی تیار کی گئی اس سے ہمیں اتفاق نہیں تھا اور یہ ہمارے تمام دوست جانتے ہیں۔
تمام اکابرین اور دوست جانتے ہیں کہ میں پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا لیکن میں نے اپنے دوستوں کیلئے اور وحدت کیلئے اپنے موقف اور رائے کی قربانی دی تھی‘میںنے عدم اعتماد سے انکار کردیاتھالیکن پھر جب پی ٹی آئی کے لوگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی ٹوٹ کر آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس اکثریت ہے۔حکومت بنانے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے میں اسے کامیاب حکمت عملی نہیں سمجھتا لیکن اگر انہوں نے فیصلہ کیا ہے تو اس کے اچھے برے کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمان نہیں چلے گی، اس کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے‘پارلیمان میں فیصلے اور پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گی، آئندہ پارلیمان پی ٹی آئی والے دور سے زیادہ ہائبرڈ پلس ہوگا ۔