اسلام آباد (ایجنسیاں)پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے کون تھا اس حوالے سے نئی بحث چھڑگئی ہے ‘جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے جنرل باجوہ تھے‘ گزشتہ روز جنرل فیض کا نام غلطی سے میری زبان پر آگیا‘سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہیں ہونا چاہیے ۔ادھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن کے گزشتہ روز کے بیان پر ان سے سخت سوالات کئے ہیں ۔مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان نے کہا ہے کہ باجوہ نے تو اپوزیشن کو تحریک واپس لینے کا مشورہ دیا تھا مگرفضل الرحمان نے مشورے کی مخالفت کی اور تحریک عدم اعتماد پر ہی اصرار کیا‘اب مولانا کا پی ٹی آئی کے حوالے سے یو ٹرن سمجھ سے بالاتر ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنماءفیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کا سب سے زیادہ فائدہ مولانا کو ہوا ‘سب مزے لینے کے بعد فضل الرحمان کی جانب سے ان باتوں کا کیا فائدہ ہے۔ایم کیوایم کے خالدمقبول نے فضل الرحمن کے بیان کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بناناپاکستان کے مفاد میں نہیں‘بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کا باجوہ نے نہیں کہا تھا‘فیصلہ پی ڈی ایم جماعتوں نے متفقہ کیا۔جے یوآئی (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات پر مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی کو تکلیف کیوں ہے؟ پیپلزپارٹی کی قیادت رات کوبانی پی ٹی آئی عمران خان سے جیل میں ملاقات کیلئے منتیں کرتی رہی ۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کو ایک انٹرویو میں فضل الرحمان کا کہناتھاکہ گزشتہ انٹرویو میں جنرل(ر) فیض حمید کا نام غلطی سے لے لیا تھا۔نواز شریف اور زرداری سے بات کرنے کو تیار ہوں ہو سکتا ہے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات ٹوٹ جائیں ‘ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے جنرل باجوہ تھے‘ میں باجوہ اور فیض حمید کو 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔اس بار ملک میں کہیں بھی انتخابات ٹھیک طریقے سے نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مجھے عدلیہ سمیت دیگر اداروں پر اعتماد نہیں، ہم سارے سسٹم کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، دیکھتے ہیں سپریم کورٹ الیکشن کے حوالے سے کیا کہتی ہے۔پی ٹی آئی نے ماضی میں میرے خلاف جو زبان استعمال کی اس پر درگزر سے کام لوں گا۔ پیپلزپارٹی کا مقصد ہی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا تھا جبکہ اس وقت میرا موقف تھا کہ حکومت کو تحریک سے ختم کیا جائے۔ملک میں جمہوریت پٹری سے اتر چکی ہے جسے واپس درست سمت پر لانے کے لیے ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ادھرلاہورمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملک احمد خان نے فضل الرحمن کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد سیاسی تھی ، جنرل(ر) باجوہ نے تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کی تھی لیکن مولانا نے ان کی تجویز مسترد کردی تھی۔فضل الرحمن کی بانی پی ٹی آئی سے متعلق باتیں جلی حروف میں لکھنی چاہئیں، کیا کوئی کسی کو تحریک عدم اعتماد کے لیے دبا وڈال سکتا ہے؟تحریک عدم اعتماد اگر جنرل(ر))قمرباجوہ نے کروائی تو فضل الرحمن نے واپس لینے کا کیوں کہا؟ باجوہ نے کہا تھا کہ تحریک واپس لیں تو الیکشن ہوجائیں گے لیکن فضل الرحمن نے ان کی بات نہیں مانی‘جنر ل فیض اپنے بارے میں خود بتا سکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں اسلام آبادمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی اور ندیم افضل چن نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی تو کہتے تھے ان کو مولانا کہنا بھی تضحیک ہے۔فیض حمید اس وقت سرکاری عہدہ پر تھے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔مولانافضل الرحمان کہہ دیتے اور عدم اعتماد میں ہمارا ساتھ نہ دیتے۔عدم اعتماد کا سب سے زیادہ فائدہ مولانا کو ملاہے۔جے یوآئی کو وزارتیںاور گورنر کے پی کے کا عہدہ ملا۔ سیاست سے مولانا صاحب جا رہے ہیں آ نہیں رہے۔آپ ایک الیکشن ہارنے پر بندوق اٹھا رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن)کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ وفاق میں حکومت سازی کے لیے فضل الرحمن کے بعد تحریک انصاف کو بہت جلد آصف زردای کے درِ دولت پر حاضری دے کر ایک اور یو ٹرن لے گی۔ اختر مینگل نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کا باجوہ نے نہیں کہا تھا،تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے متفقہ کیا۔ اختر مینگل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عدم اعتماد لانے کا جنرل (ر)باجوہ نے نہیں کہا،وہ تو بانی پی ٹی آئی کو اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات پر راضی کرچکے تھے۔تحریک عدم اعتماد کے وقت جنرل (ر)فیض کور کمانڈر پشاور تھے،ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی،فضل الرحمان کی میزبانی میں سندھ ہاؤس میں ہوئی افطاری کے بعد سب ایک میس گئے،جہاں جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی۔