• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اللّٰہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے حالیہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی عطا فرمائی۔ میں اپنے تمام دوست احباب اور قارئین کا بھی تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے اِس اہم منصب پر میری کامیابی پر مبارکباد دی اور اپنی دعاؤں میں مجھے یاد رکھا۔ میں اپنے ڈیفنس کلفٹن کے حلقے NA-241 کے ووٹرز کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے مجھے ووٹ دے کر کامیاب بنایا۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ میں اپنے وسیع تجربے اور معاشی معلومات کی بناء پر قومی اسمبلی میں ملک کیلئے ایسی طویل المیعاد پالیسیاں تشکیل دوں جو پاکستان کی معاشی خوشحالی کا سبب بنیں۔ اِن پالیسیوں کا تسلسل میری اولین ترجیح ہوگی تاکہ ملک میں مہنگائی اور غربت میں کمی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوسکیں۔

میں آج کا کالم بیرون ملک مقیم اُن پاکستانیوں کے نام کرتا ہوں جو اپنی محنت کی کمائی وطن بھیج کر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور اُن کی ترسیلات زر وطن عزیز کیلئے ایک قیمتی تحفہ ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلامک چیمبرز آف کامرس اور البرکہ بینک نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں ترسیلات زر پر ’’البرکہ ریجنل کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا جس کی دلچسپ معلومات اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ کانفرنس میں شریک میرے دوست اور اسلامک چیمبرز کے سیکریٹری جنرل یوسف خلاوی نے بتایا کہ 2017 سے 2022تک 5سال کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 150ارب ڈالر کی ترسیلات زر اپنے وطن بھیجیں اور 2022 میں پاکستان دنیا میں ترسیلات زر بھیجنے والا پانچواں بڑا ملک قرار پایا جبکہ 2023 میں ملکی ترسیلات زر میں 5.4فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور ہمیں تقریباً 30 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جو ملکی ایکسپورٹس کے برابر اور امپورٹس کا 40 فیصد ہیں۔ صرف دسمبر میں سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے 577.6 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 419.2 ملین ڈالر، برطانیہ سے 368 ملین ڈالر اور امریکہ سے 264 ملین ڈالر موصول ہوئیں جبکہ جنوری میں ترسیلات زر میں 26 فیصد اضافہ ہوا لیکن مالی سال 2023میں ملکی ترسیلات زر میں تقریباً 4 ارب ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی جس کی وجہ انٹربینک (آفیشل) اور اوپن مارکیٹ (غیر آفیشل) نرخوں میں 30 روپے کا بڑا فرق تھا یعنی اگر بیرون ملک سے بینکوں کے ذریعے ترسیلات زر پاکستان بھیجی جاتی تھیں تو اس وقت ڈالر کے مقابلے میں 300 روپے جبکہ ہنڈی حوالہ کے ذریعے بھیجنے پر 330 روپے مل رہے تھے۔ ڈالر کے ریٹ میں اتنا بڑا فرق ایک غریب مزدور کیلئے پرکشش تھا جس کی وجہ سے بیرون ملک سے پاکستانیوں نے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بھی اپنی رقوم بھیجیں جس سے آفیشل ترسیلات زر میں کمی ہوئی مگر نگراں حکومت نے کریک ڈائون کرکے حوالہ ہنڈی اور ڈالر کی سٹہ بازی کو ختم کردیا جس کے باعث گزشتہ کئی مہینوں سے روپے کی قدر مستحکم ہے اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں حوالہ ہنڈی کے ذریعے ترسیلات زر بھیجنے کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ آج انٹربینک میں ڈالر کے نرخ 279 روپے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 281 روپے ہیں اور فرق بمشکل 2 روپے رہ گیا ہے۔

ورلڈ بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پیش گوئی کی ہے کہ عالمی کساد بازاری کی وجہ سے پاکستان میں مالی سال 2023-24میں ترسیلات زر میں 10فیصد کمی آسکتی ہے۔ کسی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 4ذرائع سے بنتے ہیں۔ پہلے نمبر پر ملکی ایکسپورٹس، دوسرے نمبر پر ترسیلات زر، تیسرے نمبر پر بیرونی سرمایہ کاری اور چوتھے نمبر پر عالمی مالیاتی اداروں کی مالی امداد۔ ہمارے ملک کی ایکسپورٹس گزشتہ کئی برسوں سے 30اور 33ارب ڈالرز کے درمیان جمود کا شکار ہیں حالانکہ ایکسپورٹس میں اضافے کا بے حد پوٹینشل موجود ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے باعث ملکی ترسیلات زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو 30 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی صورتحال کے باعث بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے عالمی اداروں کے پاس جانا پڑرہا ہے اور ہم IMF کی سخت شرائط ماننے پر مجبور ہیں جو ملک میں مہنگائی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میںاضافے اور سست معاشی گروتھ کا ذمہ دار ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے ہمیں ملکی ایکسپورٹس اور ترسیلات زر میں اضافے کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ہمیں IMF کے پاس بار بار قرضوں کیلئے نہ جانا پڑے۔

دنیا میں 2021میں بھیجی جانے والی ترسیلات زر کی رینکنگ کے مطابق سب سے زیادہ ترسیلات زر بھارت 87ارب ڈالر، دوسرے نمبر پر چین 53ارب ڈالر، تیسرے نمبر پر میکسیکو 53ارب ڈالر، چوتھے نمبر پر فلپائن 36ارب ڈالر، پانچویں نمبر پر پاکستان 33 ارب ڈالر، چھٹے نمبر پر مصر 33ارب ڈالر، ساتویں نمبر پر بنگلہ دیش 23ارب ڈالر اور آٹھویں نمبر پر نائیجریا 18ارب ڈالر شامل ہیں۔ تعلیم یافتہ، انگریزی زبان جاننے اورتکنیکی ہنرمندی کے باعث فلپائن اور بھارت کے ورکرز کو دنیا میں ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ بیرون ملک بھارتی اور فلپائنی باشندے مقیم ہیں جس کا اندازہ ان کے بھارت اور فلپائن کو بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے لگایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کی افرادی قوت کو ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے ہنرمند بناکر بیرون ملک بھیجے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ اجرتوں پر ملازمتیں مل سکیں جس سے ہماری ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین