ترتیب: محمّد شاہ نواز خان
صفحات: 132 ، قیمت: 700روپے
ناشر: گردوپیش پبلی کیشنز۔
بیاض سونی پتی کا شمار اساتذہ میں ہوتا تھا۔ وہ غزل اور نعت کے منفرد شاعر تھے۔ پھر نقش بندی اور چشتیہ سلسلے سے وابستگی کے باعث اُن کی شاعری میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے۔ تصوّف سے متعلق اُن کی ایک کتاب ’’انوارِ عزیزیہ‘‘ 1973ء میں شائع ہوئی، جب کہ اُن کا شعری مجموعہ’’احساس کے انداز‘‘ 1985ء میں منظرِ عام پر آیا۔ زیرِ نظر کتاب میں بیاض سونی پتی کا منتخب کلام یک جا کردیا گیا۔ گرچہ انہوں نے اپنی ساری زندگی ایک چھوٹے سے قصبے’’کوٹ ادّو‘‘ میں گزاری، لیکن ان کی فکر محدود نہیں تھی۔
انہوں نے بہت جان دار شاعری کی اور بڑے بڑے ادبی حلقوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ وہ قیامِ پاکستان سے قبل انگریز فوج میں بھرتی ہوئے، پھر پاکستان آنے کے بعد 1948ء کے جہادِ کشمیر میں حصّہ لیا۔ 1949ء میں فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد علما و مشائخ کی صحبت اختیار کی اور خود کو دینی و رفاہی کاموں کے لیے وقف کردیا۔ اس دوران انہیں سرکاری سطح پر انعامات سے بھی نوازا گیا۔ بیاض سونی پتی کے فن اور شخصیت پر جن صاحبانِ نقد و نظر کے مضامین شامل کیے گئے ہیں، اُن میں نیاز خان کوکب، قاسم راز، محمّد یامین انور، غازی محمّد ایاز خان، نیک محمّد ناطق، جاوید ایاز خان، محمّد شاہ نواز خان اور ظہیر کمال شامل ہیں۔