خنساء سعید، سیال کوٹ
سلیم صاحب آج معمول کے مطابق اپنے کریانہ اسٹور کے سامنے رکھے اسٹول پر نہیں بیٹھے تھے۔ آج وہ اسٹول خالی تھا۔ کہیں گئے ہوئے تھے شاید، وگرنہ وہ گزشتہ چھے برس سے ہر روز اُسی اسٹول پر بیٹھے ملتے اور اپنی مضطرب، بے قرار آنکھوں سے شہر سے گاؤں کی طرف آنے والے سیدھے لمبے کچے رستے کو دیکھتے رہتے۔
دراصل وہ اِس قدر بے چین نگاہیں ہر روز اپنے اکلوتے، چھے سال سے لاپتا بیٹے کا رستہ تکتی تھیں کہ شاید آج وہ اسی راستے سے چلتا ہوا آجائے اور کہے۔ ’’ابّا جی! مَیں آگیا ہوں، اب آپ کو اِس عُمر میں یہ کریانہ اسٹور سنبھالنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
ماں تو بیٹے کی جدائی کے تین سال بڑی مشکل سے نکال پائی اور پھرداغِ مفارقت دے گئی، مگر باپ کے مَن اندر شاید کھوئے بیٹے کے زندہ لوٹ آنے کی اُمید پوری شدّت سے باقی تھی۔
ابھی وہ وہاں کھڑا یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ دُور سے اُسے سلیم صاحب اپنی دُکان کی طرف آتے دکھائی دیئے۔’’حاجی صاحب! کہاں رہ گئے تھےآج؟؟ دکان بھی بند تھی۔‘‘
اُس نے اُنھیں آتے دیکھ کے پوچھا۔ ’’احمد کی خبر ملی ہے۔‘‘ سلیم صاحب کی آنکھوں میں ایک اطمینان اور گہرا سکوت سا بَھرا تھا۔ ’’کیا…!! یہ تو بڑی خوشی کی خبر ہے۔ کہاں ہے احمد، کب واپس آ رہا ہے یا پھر واپس آ چکا ہے اور آپ کیا اُسے ہی لینے گئے تھے۔‘‘
اُس نے پُرجوش لہجے میں سارے سوال اکٹھے ہی کر ڈالے۔’’ہاں، احمد سے مِل کر ہی آرہا ہوں۔ مَیں نے اتنے سالوں بعد بھی اُسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ اسپتال کے مُردہ خانے سے فون آیا تھا۔‘‘ سلیم صاحب کی آواز کسی گہری کھائی سی آتی محسوس ہو رہی تھی۔