• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

دِل میں بارات ہے ٹھہری ہوئی ارمانوں کی ...

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز: حنا زوار، شہزادی اقراء، بشریٰ

ملبوسات : زرقا خان بوتیک

زیورات : فیشن ہُڈ جیولری بائے بشریٰ

آرایش: اسپاٹ لائٹ بیوٹی سیلون اینڈ اسپا بائے اسماء ناز

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: اسرارعلی

منور رانا کا نام، شعر و ادب کا مستند ترین حوالہ تو ہے ہی، مگر خُوب صُورت رشتوں، ناتوں، اٹوٹ بندھنوں خصوصاً ’’ماں‘‘ جیسے بے مثال و لازوال رشتے پر جو شان دار پیرایۂ اظہار انہوں نے اختیار کیا، ادبی دنیا میں ایسی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ 

نیز، ’’ماں‘‘ کے ساتھ بچّوں، خاص طور پر ’’بیٹیوں‘‘ کے حوالے سے بھی اُن کا لافانی کلام سامنے آیا۔ اور پھر ’’اُردو‘‘ زبان کے لیے اُن کی خدمات کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ گرچہ سالِ رواں کا پہلا ماہ ہی اُنہیں ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کر گیا، لیکن اُن کی امر شاعری بہرحال رہتی دنیا تک زندہ رہے گی۔ جیسے ’’بیٹی‘‘ کے موضوع پر اُن کے کچھ شاہ کار اشعار ہیں کہ ؎ یہ چڑیا بھی مِری بیٹی سے کتنی مِلتی جُلتی ہے..... کہیں بھی شاخِ گُل دیکھے، تو جھولا ڈال دیتی ہے۔ ؎ بڑی ہونے لگی ہیں مُورتیں آنگن میں مٹّی کی ..... بہت سے کام باقی ہیں، سنبھالا لے لیا جائے۔ ؎ رو رہے تھے سب تو مَیں بھی پُھوٹ کر رونے لگا.....ورنہ مجھ کوبیٹیوں کی رُخصتی اچھی لگی۔ ؎ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ختم میلہ ہوگیا.....اُڑ گئیں آنگن سے چڑیاں، گھر اکیلا ہوگیا۔ ؎ تو پھر جا کر کہیں ماں باپ کو کچھ چین پڑتا ہے.....کہ جب سُسرال سے گھر آکے بیٹی مُسکراتی ہے۔ 

اور پھر یہ غزل ؎ گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں.....لڑکیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں.....اُڑ کے اِک روز بہت دُور چلی جاتی ہیں.....گھر کی شاخوں پہ یہ چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں.....سہمی سہمی ہوئی رہتی ہیں، مکان دِل میں.....آرزوئیں بھی غریبوں کی طرح ہوتی ہیں.....ٹُوٹ کر یہ بھی بکھر جاتی ہیں، اِک لمحے میں.....کچھ اُمیدیں بھی گھروندوں کی طرح ہوتی ہیں۔ واقعی، ’’بیٹیاں‘‘ چڑیوں ہی کی طرح تو ہوتی ہیں۔ ابھی بابل کے انگنے میں اِدھر سے اُدھر پُھدکتی، گاتی گنگناتی، خُوب چہچہاتی پِھر رہی تھیں، یکایک دیکھتے ہی دیکھتے ماں کے کاندھے جا لگیں، آئینے کے مدّمقابل آگئیں۔ وہ پنجابی کی ایک محاورہ نُما مثل ہے ناں کہ ’’کُڑیاں، چڑیاں، بکریاں،تیریوےذاتاں وکھریاں‘‘ مطلب ’’لڑکیاں، چڑیاں اور بکریاں، دنیا سے الگ ہی کوئی تین ذاتیں ہیں۔‘‘ اور ایسا شاید اس لیے کہا گیا کہ اِن تینوں میں کئی مماثلتیں بہرحال موجود ہیں۔ 

تینوں ہی معصوم، بھولی بھالی، بہت بے ضرر، ڈرپوک، شرمیلی، حسّاس طبع، تھوڑی شوخ و شنگ اور بہت حد تک تابع فرمان ہوتی ہیں۔ بکریاں، مَن مرضی سے سدھا لی جاتی ہیں۔ چڑیوں کے گھونسلے اکثر و بیش تر شرارتی بچّے، تو کبھی منہ زور ہوائیں گرا جاتی ہیں، لیکن وہ بِنا کسی احتجاج کے، ایک بار پھر نئے سے سے تنکا تنکا جوڑنے لگتی ہیں۔ اورایسے ہی بیٹیاں بھی ’’تم پرایا دَھن، پردیسن ہو‘‘، ’’یہ سب شوق ’’اپنے گھر‘‘ جاکے پورے کرنا‘‘، ’’سسرال میں یوں دن چڑھے تک سوتی رہی، تو ساس سے پِٹو گی‘‘، ’’یہ جو باپ، بھائیوں نے اتنا سر چڑھا رکھا ہے، شوہر ایسے نخرے نہیں اُٹھاتے‘‘، جیسے جملوں کی گردان، تکرار ہی میں پروان چڑھتی، جوانی کی دہلیز پار کرتی ہیں۔

اور..... پھر ایک روز اُسی ’’پیا دیس‘‘ کے سَت رنگےسپنے ذہن و دل میں بسائے،بڑی خاموشی کےساتھ سرجُھکا کے،لرزتےقدموں، نم آنکھوں، بھیگی پلکوں کے ساتھ بابل کے دہلیز پار کر جاتی ہیں۔ ’’ساڈا چڑیاں دا چنبا وے، بابل اَساں اُڈ جاناں..... ساڈی لمبی اُڈاری وے، بابل اَساں مُڑ نئیں آناں.....‘‘ وہ گھر، گلیاں، چوبارے، جن کے چپّے چپّے پر بچپن سے جوانی تک کے ہزارہا نقوش ثبت ہوتے ہیں۔ 

وہ کمرے، دالان، درو دیوار، آنگن، کیاریاں، جن سے گُھٹنوں کے بَل چلنے سے لے کر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے، ہرنی سی قلانچیں بَھرنے، تتلی سی اُڑتے پِھرنے، ٹہل ٹہل پڑھنے، سہج سہج چلنے، والدین، بہن بھائیوں کےچھوٹےچھوٹے سیکڑوں کام کرنے، اورپھر ڈولتے، ڈگمگاتے قدموں سے سامانِ رخصت باندھنے تک کی نہ جانے کتنی آہٹیں، چاپیں لپٹی ہوتی ہیں، سب پیچھے رہ جاتا ہے، بہت پیچھے۔ مُڑ کے دیکھیں، تو لگتا ہے کہ بس، اِک خواب سا تھا۔ ایک حسین سپنا، جو نیند ٹوٹنے پر بکھرگیا۔ اور ..... اِس حسین سپنے کا کلائمکس ہوتا ہے، ایک ’’عروسی جوڑا‘‘۔

تو لیجیے، آج ہم نے اپنی بزم اِسی کلائمکس بلکہ ’’بھرپور کلائمکس‘‘ سے مزیّن و مرصّع کر رکھی ہے کہ ایک نہیں، تین تین ماڈلز براجمان ہیں، تو ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک، کُل چھےعروسی پہناووں کی بھی گویا بہار سی آئی ہوئی ہے۔ ذرا دیکھیے، اِسکن رنگ میں کھاڈی نیٹ پر بھاری کام دار لہنگا، چولی ہے، تو گہرے تربوزی اور سی گرین رنگوں کے امتزاج میں روایتی طرز کا لہنگا ہی نہیں، گلابی اور مسٹرڈ کےحسین کامبی نیشن میں جدید انداز شارٹ باڈی چولی، لہنگے کا اسٹائل بھی ہے۔ کاہی سبز رنگ میں، بھاری بھر کم چاندی کے زیورات کے ساتھ ایک نہایت خوش نُما انداز ہے، تو حسین بے بی پنک رنگ میں لانگ ڈبل شرٹ، ایپرن اسٹائل کا بھی جواب نہیں اور ڈل گولڈن (میٹیلک برانز کا پر شمر) رنگ میں کٹ ورک اسٹائل پہناوے کے ساتھ ہم آمیز بھاری زیورات کے لُک کی تو بات ہی کیا ہے۔

گھر کی شاخوں پہ چہکتی، چہچہاتی چڑیوں نے بالآخر ایک روز اُڑ ہی جانا ہوتا ہے اور اِن دِنوں تو جیسے اُڑان بَھرنے کا موسم پورے جوبن پر ہے۔ سو، اِن کی حیاتی کے اِس سب سے خاص دِن کےلیےہمارے منتخب کردہ رنگ و انداز میں سے کچھ بھی منتخب کرلیں۔ فانی بدایونی کا وہ شعر آپ ہی آپ مجسّم ہوجائے گا کہ ؎ اب اُنہیں اپنی ادائوں سے حجاب آتا ہے..... چشمِ بد دُور، دلہن بن کے شباب آتا ہے۔