• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات: نوجوانوں کا معیشت کو ووٹ

دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت، انڈونیشیا میں، پرابوو سوبیانتو صدر منتخب ہوگئے ہیں، وہ سابق صدر، جوکوویدودو کے جاں نشین ہوں گے، جنہوں نے اپنی دو صدارتی مدّتوں کے دس سال پورے کیے ہیں۔ نو منتخب صدر کا تعلق موجودہ حُکم ران پارٹی سے ہے، جس میں وہ وزیرِ دفاع ہیں۔اُن کا مقابلہ دو گورنرز، انیس باسویدان اور گنجر پرانوو سے تھا۔صدارتی انتخابات کے ساتھ قومی اسمبلی اور لوکل کاؤنسلز کے الیکشن بھی ہوئے۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق سوبیانتو نے ساٹھ فی صد سے زاید ووٹ حاصل کیے، اِس طرح اُنہیں رن آف الیکشن میں نہیں جانا پڑا، کیوں کہ انڈونیشیا کے آئین کے مطابق پہلے مرحلے میں پچاس فی صد سے زاید ووٹ لینے ضروری ہیں۔ 

انڈونیشیا دنیا بَھر میں ایک دن پولنگ کروانے والا سب سے بڑا جمہوری مُلک ہے۔ نوجوان آبادی کُل، مُلکی آبادی کا پچاس فی صد ہے، لیکن اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہزاروں جزائر پر مشتمل مُلک کے نوجوانوں نے ٹھنڈے دل و دماغ اور غور وفکر سے ووٹ دیا۔انڈونیشیا ایک درمیانے درجے کی ترقّی پذیر معیشت ہے، اِسی لیے عوام کو اندازہ تھا کہ ووٹ دینے کے معاملے میں جذبات کی بجائے ہوش سے کام لینا ہے۔ اس ضمن میں محور و مرکز معیشت ٹھہری اور اُنھوں نے اُسی کا انتخاب کیا۔انتخابی مہم منہگائی، بے روزگاری اور ماحولیاتی مسائل کے گرد گھومتی رہی۔

نو منتخب صدر کا فوج سے تعلق رہا ہے، بعدازاں سابق صدر جوکوویدودو کی کابینہ کے رُکن رہے۔یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ جوکوویدودو کی بھرپور اشیرباد ہی کے سبب کام یابی سے ہم کنار ہوئے کہ جن کے بیٹے کا بطور نائب صدر انتخاب کیا گیا ہے۔وراثت کی سیاست پر تنقید کرنے والوں کو اِس سے سیکھنا چاہیے کہ ایشیائی ممالک کی جمہوریت میں اس کی کیا اہمیت ہے اور اس کے مُلکی سیاست پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ ہم بنگلا دیش اور بھارت کی مثال دیتے رہے ہیں، جہاں شیخ مجیب اور نہرو خاندان کے بیٹے، بیٹیاں حُکم رانی تک پہنچے۔

انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا کا ایک بڑا اور اہم مُلک ہے، یہ چین اور امریکا دونوں ہی کی ضرورت ہے، اِسی لیے بڑی طاقتیں وہاں کے صدارتی انتخابات میں دل چسپی لے رہی تھیں۔ انڈو نیشیا نے مسلم دنیا میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی بجائے علاقے ہی پر توجّہ مرکوز رکھی ہے۔اِس کی آبادی تقریباً اٹھائیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، یوں یہ دنیا کا چوتھا اور اسلامی دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا مُلک ہے۔

اپنی جغرافیائی ہیئت کے لحاظ سے یہ دنیا کا ایک انوکھا مُلک ہے کہ17000 جزائر پر پھیلا ہوا ہے، اس لیے انتخابات کا انعقاد خاصا دشوار ہوتا ہے۔ غیر حتمی نتائج تو آگئے، لیکن حتمی اور سرکاری نتائج آتے آتے ایک مہینہ لگ جاتا ہے، جب کہ اقتدار کی منتقلی میں مزید چار، پانچ ماہ لگیں گے۔ وہاں عموماً اتحادی حکومتیں ہی قائم ہوتی ہیں۔انتخابی نتائج جمع کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ کشتیوں کو بھی کام میں لایا جاتا ہے۔

جکارتا کو دارالحکومت کی حیثیت حاصل ہے۔انڈونیشیا آٹھ سو مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے فوجی اور تجارتی طور پر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔آبنائے ملاکا، بحرِ ہند کی پانچ اہم ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے، جہاں سے دنیا کی ٹریڈ کا بڑا حصّہ گزرتا ہے۔ اِس گزرگاہ کے ایک طرف انڈونیشیا کا شہر سماٹرا ہے، تو دوسرے کنارے پر ملائیشیا کا شہر ملاکا واقع ہے۔ آبنائے ملاکا ایک تنگ آبی گزرگاہ ہے، جہاں تجارتی اور فوجی جہازوں کی لمبی لمبی قطاریں ہم نے بھی دیکھی ہیں۔جاوا، جو دنیا کا سب سے بڑی آبادی والا جزیرہ ہے، مُلک کی نصف آبادی کا مسکن ہے۔انڈونیشیا میں صدارتی نظامِ حکومت قائم ہے۔ تاہم، قانون سازی کے لیے پارلیمان منتخب کی جاتی ہے۔

مُلک میں38 صوبے اور تین ٹائم زونز ہیں۔اس کی سمندری سرحدیں علاقے کے تمام اہم ممالک سے ملتی ہیں، جن میں ملائیشیا، مشرقی تیمور، پاپوا نیو گنی، فلپائن، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں۔یہ مُلک تین صدی سے زاید ہالینڈ کی نو آبادی رہا۔ دوسری جنگِ آزادی کے بعد اسے آزادی حاصل ہوئی اور سوئیکارنو اس جنگ کے رہنما تھے، جو بعد میں ایک فوجی انقلاب میں ہلاک ہوئے۔مارشل لاء لگا، جو تقریباً تیس سال جاری رہا۔ جنرل سوہارتو فوجی حکومت کے سربراہ تھے۔پاکستانی عوام انڈونیشیا کی مہربانیاں کبھی نہیں بھول سکتے، کیوں کہ 1965 ء کی جنگ میں وہ اُن اہم ممالک میں شامل تھا، جنہوں نے کُھل کر پاکستان کی حمایت کی اور ہر قسم کی مالی و فوجی امداد کی پیش کش کی۔65 ء کی جنگ کے دوران یہاں سوئیکارنو صدر تھے اور اِس حمایت پر پاکستانیوں نے اُنھیں’’ ہیرو‘‘ کا درجہ دیا۔ 

انڈونیشیا، چین اور بھارت کے ساتھ غیر جانب دار ممالک کی تحریک کے بانیوں میں سے تھا، جس کی سرد جنگ کے دوران بہت اہمیت تھی۔ کوئی پچیس سال تک یہ عظیم مسلم مُلک مشکل سیاسی دَور سے گزرا، جب یہاں فوجی حکومت اور سیاسی عدم استحکام رہا۔ جمہوری انقلاب کے بعد کئی حکومتیں آئیں، لیکن صدر جوکوویدودو ہی نے اسے وہ جمہوری روایات اور استحکام دیا، جس کی وجہ سے آج وہاں کے لوگ اعتماد سے جمہوریت کو چلا رہے ہیں۔ جوکوویدودو کی غیر معمولی مقبولیت کی وجہ بھی یہی ہے۔انڈونیشیا میں ووٹرز کی کُل تعداد200 ملین کے لگ بھگ ہے، جن کے لیے آٹھ لاکھ پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔

اوپر ذکر ہوچکان ہے کہ پرابوو سوبیانتو فوج کے سابق جنرل ہیں اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق اُنہوں نے ساٹھ فی صد سے زاید ووٹ حاصل کیے۔نیز، ووٹرز ٹرن آؤٹ72 فی صد رہا، جسے بہت اچھا کہا جاسکتا ہے۔سوبیانتو نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ یہ فتح انڈونیشیا کے عوام کی ہے۔انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ سابق صدر، ویدودو کے بیٹے اور نو منتخب نائب صدر، جبران راکا بومنگ کے ساتھ مِل کر عوام کی خدمت کریں گے، خواہ اُن کا تعلق کسی بھی پارٹی یا گروپ سے ہو۔اطلاعات کے مطابق، الیکشن کمیشن پولنگ کے حتمی سرکاری نتائج مارچ کے وسط تک جاری کرے گا اور اِس عرصے میں، یعنی تقریباً ایک ماہ تک، عوام جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے، معمول کے طریقۂ کار کے مطابق سرکاری نتائج کا انتظار کریں گے۔ 

ہم الیکشن پر کوئی کمنٹ کرنے کی بجائے صرف اِتنا کہیں گے کہ ہمیں اپنے مُلک کی صُورتِ حال کا اِس تناظر میں ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ انڈونیشیا میں بھی آزادی سے 55 سال تک فوج کی حُکم رانی رہی۔اُنہوں نے وہی کچھ برداشت کیا، جو پاکستانی عوام کرتے رہے، لیکن جمہوریت آنے کے بعد اُنہوں نے یہ سبق سیکھ لیا کہ جمہوریت جذبات اور ہیجانی کیفیات میں چلائی جاسکتی ہے اور نہ ہی دھونس دھمکیوں،اَنا سے اس کا کچھ لینا دینا ہے۔وہاں کے17000 جزائر میں سات سو زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ان کے اقتصادی حالات قابلِ رشک نہیں، جب کہ جمہوریت میں اب کہیں جاکر وہ قدم جما رہے ہیں۔

وہاں اب بھی فوج کے اثرات غالب ہیں، بڑے عُہدوں اور خوش حال لوگوں میں اُن کا حصہ ہے، لیکن سب مِل جُل کر جمہوریت کی راہ پر چل رہے ہیں۔ہمارے مُلک کی صُورتِ حال یہ ہے کہ الیکشن کے دوسرے ہی دن سے ہماری کئی سیاسی جماعتیں اور بہت سے اہلِ دانش بے صبرے ہوگئے ہیں۔ہر ایک کی یہی خواہش ہے کہ سب کچھ اُسی کی مرضی کے مطابق ہو۔ تجزیہ کار مُلک کی تباہی اور بربادی کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔میڈیا سُرخیاں جمانے کے لیے وہ سب کچھ کرنے کی کوشش میں ہے، جو بازار میں بِکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم میں صبر کا مادّہ ختم ہی ہوچُکا ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مِل جُل کر کوئی حل نکانے کی بجائے دھمکیوں پر اُتر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا جھوٹے اور بے ہودہ الزامات سے اَٹا پڑا ہے، جنھیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ عوام کو اپنے مُلک کی تعمیر و ترقی سے بھی کوئی دل چسپی ہے۔ہم ہر وقت ایک انتہا پر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔جذبات کا یہ عالم ہے کہ اپنی معیشت کی تو خبر نہیں، لیکن دنیا بَھر کے تنازعات کی ٹھیکے داری سنبھال رکھی ہے۔ انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا اسلامی مُلک ہے، لیکن شاید ہی کبھی کسی نے سُنا ہو کہ اُس نے کسی عالمی یا علاقائی معاملے میں فعالیت کا مظاہرہ کیا ہو۔نومنتخب صدر اپنی سخت زبانی کے لیے مشہور ہیں اور زبردست تنقید کی زَد میں بھی رہے ہیں، لیکن اُنہوں نے الیکشن جیتنے کے فوراً بعد ہم آہنگی، رواداری، مِل جُل کر چلنے اور سیاسی مفاہمت کی بات کی۔

چالیس سال سے کم عُمر ووٹرز کی تعداد پچاس فی صد سے زاید ہے، اِسی لیے نومنتخب صدر اور نائب صدر نے یقین دِلایا کہ نوجوانوں کو حُکم رانی اور انتظامی معاملات میں زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں گے کہ وہی مُلک کا مستقبل ہیں۔پرابوو سوبیانتو کی فتح بڑی حد تک یقینی تھی، لیکن وہ جس مارجن سے جیتے، اس نے اُن کے ناقدین کو حیران کردیا، لیکن اس میں جوکوویدودو کی مدد کا بھی بڑا ہاتھ ہے، کیوں کہ سوبیانتو اُنہی کی پالیسیز آگے بڑھانے کی بات کرتے رہے ہیں، جنہیں عوام میں مقبولیت حاصل ہے، خاص طور پر معیشت کی مضبوطی اور تعمیر و ترقّی کے طور طریقے۔

سوبیانتو72سال کے ہیں، یعنی اُن کی عُمر عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری کے برابر ہی ہے۔اُن کا فوج سے تعلق رہا اور اِس بنیاد پر تنقید بھی ہوتی رہی، لیکن انتخابی سیاست میں آنے کے بعد وہ بالکل بدل گئے، اُنہوں نے پُرزور طریقے سے جمہوری روایات کی پاس داری کے فروغ کی کوشش کی۔وہ جس پارٹی کے اُمیدوار تھے، اُس نے جوکوویدودو کی جماعت سے اتحاد کیا تھا اور جوکوویدودو آج بھی انڈونیشیا کی سیاست میں’’ کنگ میکر‘‘ ہیں۔وہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے، معمولی کام کرتے رہے، پھر فرنیچر کی دکان کھولی اور وہیں سے سیاست میں آئے۔

جکارتا کے میئر بنے، پھر مُلک کے صدر بھی منتخب ہوئے۔پانچ، پانچ سال کی دوآئینی مدّتیں پوری کی۔نو منتخب صدر اُنہی کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔گو کہ جوکوویدودو پر اپوزیشن کی طرف سے الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے بڑے بیٹے کو نائب صدر بنا کر سیاست میں موروثیت کا عُنصر شامل کردیا ہے، لیکن انڈونیشیا میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔اِس سے قبل مُلک کے بانی صدر، سوئیکارنو کی بیٹی میگاوتی بھی صدر منتخب ہوئیں اور آج بھی اُن کی پارٹی کی اسمبلی میں سب سے زیادہ، یعنی 128نشستیں ہیں، جب کہ سوبیانتو کی پارٹی کے پاس78 سیٹس ہیں۔

انڈونیشیا کو مغربی ممالک کی جانب سے انسانی حقوق اور جمہوریت کے معاملات پر اُسی قسم کے بھاشنوں کا سامنا رہا، جیسا آج کل پاکستان کو ہے۔ جوکوویدودو کے دَور میں بھی امریکا اور یورپ کی طرف سے اُن پر الزامات عاید کیے جاتے رہے، تاہم وہ یک سوئی سے عوام کی فلاح و بہبود میں جُٹے رہے اور آج یہ مُلک دنیا کی سولہویں بڑی اکانومی ہے۔

انڈونیشیا میں نتائج آنے میں اگر مہینہ لگتا ہے، تو حکومت سازی میں تین ماہ تک لگ سکتے ہیں، کیوں کہ اب دس سال بعد ایک سے دوسری حکومت کو اقتدار منتقل ہوگا۔ اندازہ ہے کہ نئے صدر اکتوبر سے پہلے اپنا عُہدہ نہیں سنبھال پائیں گے۔سوبیانتو کی پارٹی کو پارلیمان میں تیرہ فی صد حمایت حاصل ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُنہیں اتحادی حکومت بنانی پڑے گی، جس کے لیے طویل اور صبر آزما مذاکرات درکار ہیں۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ قانون کی منظوری کے لیے ان جماعتوں کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔

تاہم، یہ کوئی بہت پیچیدہ معاملہ نہیں، کیوں کہ ایک تو صدر کے پاس خصوصی اختیارات ہیں، تو دوسری طرف سیاسی جماعتیں بھی قومی مفاد کو ترجیح دیتی ہیں، کم ازکم اب تک تو یہی روایات رہی ہیں۔ وہاں جمہوریت آنے کے بعد سے سیاسی اَنا اور ہٹ دھرمی نہیں دیکھی گئی۔جوکوویدودو سب کو ساتھ لے کر چلنے میں اپنی مثال نہیں رکھتے، ہر وہ بِل، جو اُنہوں نے منظور کروانا چاہا، باآسانی کروالیا اور سب نے کُھلے دل سے اُن کا ساتھ دیا۔نتیجتاً بڑے بڑے منصوبوں پر عمل کرنا ممکن بنا اور انڈونیشیا نے تیز رفتار معاشی ترقّی کی۔