وفاقی کابینہ کی توانائی کمیٹی نے 2009سے التوا میں پڑے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے پہلے مرحلے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ایرانی سرحد سے گوادر تک 80کلومیٹر حصے پر کام ہوگاجبکہ دوسرے مرحلے کی منظوری کے بعد گوادر تا نواب شاہ اسے توسیع دی جائے گی اور مین لائن سے جوڑدیا جائے گا۔یہ ایک دور رس نتائج کا حامل منصوبہ ہے،اس کی تکمیل سے صنعتی اور گھریلو سطح پر کم و بیش دودہائیوں سے جاری گیس کے شدید ترین بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔یہ معاہدہ 2009میں ہوا تھااور 2015میں منصوبہ مکمل ہونا تھا تاہم ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان عمل درآمد نہ کرسکا۔اس دوران ایران نے پاکستانی سرحد تک اپنے حصے کی 900کلومیٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرلی اور منصوبے کو سرد خانے میں دیکھ کر قانونی چارہ جوئی کی ،جس کے تحت پاکستان کو اس کی تکمیل کیلئے ڈیڈلائن دے رکھی ہے جس میں ستمبر 2024تک توسیع دی گئی ہے۔چند روز قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ حکومت پاکستان 18ارب ڈالر جرمانے سے بچنے کیلئے اپنی سرزمین پر پائپ لائن بچھانا چاہتی ہے اور مالیاتی مسئلے سے نمٹنے کیلئےاس پراجیکٹ کو گیس انفرااسٹکچرڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) سےفنڈ فراہم کئے جائیں گے۔یہ بات باعث ستائش ہے کہ ایران نے پاکستان کو تکنیکی مہارت فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے ۔یہ کل 1931کلومیٹر پائپ لائن کا منصوبہ ہے جس کا 781کلومیٹر حصہ پاکستان میں ہے۔ایران سے گوادر گیس کی ترسیل اس سال ستمبر میں شروع ہونےکے روشن امکانات ہیں، تاہم باقی حصے کومزید تاخیر کئے بغیر مکمل کرنے سے ہی مسئلہ حل ہوسکے گا اور گھریلو سطح کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے کو اس کی مطلوبہ سپلائی بحال ہونے کی توقع بےجا نہ ہوگی۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998