• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مضامین، افسانے اور کالم

مرتبہ: ڈاکٹر صائمہ اسماء

صفحات: 192، قیمت: 550 روپے

ناشر: ادارہ بتول، لاہور۔

فون نمبر: 37424409 - 042

مخنّث، خواجہ سِرا، ہیجڑے یا ٹرانس جینڈر سے متعلق ہمارے ہاں طرح طرح کے تصوّرات پائے جاتے ہیں۔ کیا یہ سب ایک ہی طرح کی جنس سے تعلق رکھتے ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے؟ اگر کوئی فرق ہے، تو اُس کی کیا نوعیت ہے؟ اقسام کے حوالے سے معاشرے میں ان کی حیثیت و مقام کا کیسے تعیّن کیا جائے؟ ان کے حقوق کیا ہیں، کہاں اور کس طرح ان حقوق کی پامالی ہو رہی ہے؟پھر یہ کہ آخر یہ جنس کی تبدیلی کا معاملہ کیا ہے، جس پر دنیا میں اِک شور سا مچا ہوا ہے۔کیا واقعتاً مرد، عورت اور عورت، مرد میں بدل جاتی ہے یا کوئی تیسری جنس بھی وجود میں آجاتی ہے اور یہ نئی جنس کس طرح کی ہوتی ہے؟ اِس ضمن میں عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کی صُورتِ حال کیا ہے؟ اِس سارے منظر نامے میں ہم کہاں کھڑے ہیں یا کہاں کھڑا ہونا چاہیے؟ یہ اور اِسی طرح کے دیگر معاملات پر خواتین کے مقبولِ عام جریدے، ماہ نامہ ’’بتول(چمنِ بتول)نے ایک خصوصی ’’صنفی شناخت نمبر‘‘ شایع کیا، جسے اب کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اِس کتاب میں ڈاکٹر میمونہ حمزہ، ندا اسلام، ڈاکٹر صائمہ اسماء، شگفتہ عُمر، تزئین حسن، ڈاکٹر کوثر فردوس، افشاں نوید، ڈاکٹر بشریٰ تسنیم اور ذکیہ فرحت کے مضامین، جب کہ شاہدہ اکرام، آسیہ راشد، قانتہ رابعہ، نیّر کاشف، عابدہ فرحین، ثمرہ ملک، رضیہ سلطانہ، طلعت نفیس، مسرّت جبیں اور شہلا خضر کے افسانے شامل ہیں۔گو کہ تمام ہی تحریریں اپنے اپنے موضوع کے اعتبار سے بہترین ہیں اور لکھاریوں نے صنفی شناخت کے مختلف پہلوؤں پر بہت تفصیل سے لکھا ہے، تاہم ڈاکٹر صائمہ اسماء کا مضمون’’ کیا تیسری جنس ایک حقیقت ہے؟‘‘ اِس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اِس میں ماہرین کی آرا کی روشنی میں شناخت کا مسئلہ بہت اچھے طریقے سے سمجھایا گیا ہے۔ اِسی طرح، شگفتہ عُمر نے اپنے دو مضامین میں ہم جنس پرستی کی تحریک اور پاکستان میں خنثیٰ افراد کے لیے قانون سازی پر بہت عُمدہ مواد فراہم کیا ہے۔یہ تمام مضامین یا افسانے مذہبی نقطۂ نظر سے قلم بند کیے گئے ہیں، مناسب ہوتا کہ اختلافی آرا پر مبنی کوئی ایک آدھ مضمون بھی کتاب میں شامل کرلیا جاتا تاکہ قارئین دوسرے نقطۂ نظر سے بھی آگاہ ہوسکتے، ہاں، اپنے موقف کی وضاحت کے لیے پوائنٹ ٹو پوائنٹ اُس کا جواب بھی شایع کیا جاسکتا تھا۔