اُٹھ مِری جان! مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تُجھے
قلبِ ماحول میں لرزاں شرر ِجنگ ہیں آج
حوصلے وقت کے اور زیست کے یک رنگ ہیں آج
آبگینوں میں تپاں ولولۂ سنگ ہیں آج
حُسن اور عشق ہم آواز و ہم آہنگ ہیں آج
جس میں جلتا ہوں، اُسی آگ میں جلنا ہے تُجھے
اُٹھ مِری جان! مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تُجھے
تیرے قدموں میں ہے فردوسِ تمدّن کی بہار
تیری نظروں پہ ہے تہذیب و ترقّی کا مدار
تیری آغوش ہے گہوارۂ نفس و کردار
تا بہ کے گرد تِرے وہم و تعیّن کا حصار
کوند کر مجلسِ خلوت سے نکلنا ہے تُجھے
اُٹھ مِری جان! مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تُجھے
تُو کہ بے جان کھلونوں سے بہل جاتی ہے
تپتی سانسوں کی حرارت سے پگھل جاتی ہے
پاؤں جس راہ میں رکھتی ہے، پھسل جاتی ہے
بن کے سیماب ہر اِک ظرف میں ڈھل جاتی ہے
زیست کے آہنی سانچے میں بھی ڈھلنا ہے تُجھے
اُٹھ مِری جان! مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تُجھے
زندگی جُہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں
نبضِ ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں
اُڑنے کُھلنے میں ہے نکہت، خمِ گیسو میں نہیں
جنّت اِک اور ہے، جو مَرد کے پہلو میں نہیں
اس کی آزاد رَوش پر بھی مچلنا ہے تُجھے
اُٹھ مِری جان! مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تُجھے
قدر اب تک تِری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تُجھ میں شعلے بھی ہیں، بس اشک فشانی ہی نہیں
تُو حقیقت بھی ہے، دل چسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے اِک چیز، جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تُجھے
اُٹھ مِری جان! مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تُجھے
(کیفی اعظمی کے کلام سے عشرت فاطمہ، کراچی کا انتخاب)