• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مبشّرہ خالد، کراچی

کہنے کو تو ہم دَورِ جدید میں زندہ ہیں، جس میں پُرانے رسم و رواج کو ’’آئوٹ ڈیٹڈ‘‘ یا فرسودہ سمجھا جاتا ہے۔ آئے روز انسانی زندگی کو سہل بنانے والی نئی نئی ایجادات سامنے آ رہی ہیں اور ٹیکنالوجی کی بہ دولت فاصلے سمٹتے جا رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود خواتین کو متعدّد مسائل کا سامنا ہے اور وہ ہنوز اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ غالباً اسی لیے خواتین سے متعلق ایک سے زائد عالمی ایّام کے اہتمام کی ضرورت پیش آئی، خصوصاً ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کی۔ اور پھر ان عالمی ایّام کے مواقع پر دُنیا بَھر میں سیمینارز، اویئرنیس واکس کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی خواتین صنفِ نازک پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کے خلاف آواز اُٹھاتی ہیں، قراردادیں پیش کرتی ہیں اور انہیں حکومت سے شرفِ قبولیت بخشوانے کے لیے مختلف اقدامات بھی کرتی ہیں۔ 

ان سیمینارز ہی کے ذریعے ایسے تلخ حقائق بھی سامنے آتے ہیں کہ مَرد، خواتین پر ظلم و تشدّد کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ شادی سے انکار پر تیزاب گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ عزّت و ناموس کے نام پرخواتین کی ہلاکتوں کے واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ عورت مجبوراً یا اپنے خواب پورے کرنے کے لیے گھر سے نکلے، تو اسے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین کی مرضی کے خلاف شادی کو تو اخلاقی وقانونی طور پر غلط سمجھنے کا کوئی تصوّر ہی نہیں۔

خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے ،اُن کے حقوق کی پاس داری ہی کے ضمن میں ’’نظریۂ حقوقِ نسواں‘‘ وجود میں آیا، جسے عام طور پر ’’فیمنزم‘‘ کہا جاتا ہے۔ فیمنزم کی تعریف کچھ یوں ہے کہ ’’مَردوعورت کی تخصیص کے بغیر سیاسی، معاشرتی اور سماجی مساوات پر یقین اور وکالت۔‘‘(جس کا اظہار، خاص طور پر خواتین کی جانب سے منظّم سرگرمی کے طور پر کیا جائے) اگر اس تعریف پر غور کیا جائے، تو فیمنزم تو مثبت سوچ کو پروان چڑھاتا ہے۔ 

تاہم، آج جو نام نہاد لبرل خواتین اس تحریک کا حصّہ بن رہی ہیں، وہ فیمنزم کو دانستہ و نا دانستہ طور پر غلط رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف جنگ لڑنے کی بجائے مَردوں کے بغیر رہنے کی سوچ کو ترویج دے رہی ہیں۔ یہ عاقبت نا اندیش خواتین مَردوں کے صنفِ نازک سے غیر انسانی سلوک کو بُرا کہنے کی بجائے مَرد کو بُرا بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک ایسے معاشرے میں’’ مَرد‘‘ کیسے بُرا ہو سکتا ہے کہ جہاں باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے جیسے رشتے موجود ہوں، جو عموماً تپتی دُھوپ میں گھنی چھاؤں کی مانند ہوتے ہیں۔

اصولاً، ہمیں مَردوں کے خلاف نہیں، بلکہ اُن کی اِس منفی سوچ کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے کہ اگر عورت پڑھ لکھ گئی، تو باغی ہو جائے گی۔ اگر کمانے لگی، تو ہمیں کم تر سمجھے گی ۔ اگر اسے خُلع کا حق دیا، تو بلاوجہ گھر برباد کر دے گی وغیرہ وغیرہ۔ فیمنزم کی آڑ میں خواتین کو مَردوں کے مقابل لاکھڑا کرنے کی کوشش کرنے والی یہ خواتین دراصل اس بات سے ناواقف ہیں کہ ہم عورتوں کی کام یابی و آسودگی میں ہمارے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹوں کا بھی کردار ہوتا ہے اور ہم ان رشتوں کے بغیر زندگی گزارنے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتیں۔ البتہ اگر کوئی خاتون اپنے باپ، شوہر، بھائیوں یا بیٹوں کے مظالم سے تنگ ہے اور اُن کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، تو اُسے اُن سے الگ رہنے کا حق ضرور ملنا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی لڑکی کو شادی سے انکار پر تشدّد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو اس گھناؤنے عمل کے مرتکب افراد کو بھی ضرور سزا ملنی چاہیے۔

سو، ہمیں فیمنزم کی اصل تعریف کو فروغ دینا چاہیے اور ایسی خواتین کی بھرپور حوصلہ شکنی کرنی چاہیے کہ جو اس مثبت نظریے کی آڑ میں مَرد مخالف تحریک چلا رہی ہیں۔ نیز، پوری دُنیا کے سامنے پاکستانی خواتین کا ایسا تاثر پیش کر رہی ہیں، جس کا ہماری سماجی بُنت سے کوئی واسطہ ہی نہیں اور نہ ہی ہم خواتین ایسا حقیقت میں ہونے دیں گی، کیوں کہ ہمیں مَردوں سے نہیں، مَردوں کی جابرانہ سوچ سے جنگ لڑنی ہے اور جنگ ہمیشہ منفی سوچ، رویّے، کردار ہی سے ہونی چاہیے، کسی مخصوص صنف سے نہیں۔