• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مجسم عشوہ و انداز بھی ہے ... مگر عورت جہانِ راز بھی ہے

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: ربیعہ منہاس

ملبوسات: شاہ پوش

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

2024ء، دنیا بھر کے کم از کم 64؍ ممالک میں (علاوہ یورپی یونین) انتخابات کا سال ہے۔ مطلب، دنیا کی لگ بھگ 50؍ فی صد آبادی سالِ رواں قومی انتخابات کے عمل سے گزر رہی ہے یا گزرے گی اور اِن ہی ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ نے اِسے الیکشنز کا سال نہیں، بلکہ دنیا کے لیے ’’اصل انتخاب کا سال‘‘ قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں ایک بار پھر ’’متنازع انتخابات‘‘ کی روایت ہی پر مُہر ثبت کی گئی۔ ہاں مگر، خوش آئند بات یہ ہے کہ لاکھ تنازعات کے باوجود عام انتخابات میں کئی خواتین، اپنی عُمدہ کارکردگی کے باعث مَردوں کو زیر کرنے میں کام یاب رہیں، خصوصاً مُلکی تاریخ میں پہلی بارایک خاتون کو مُلک کے سب سے بڑے صوبے کی وزیرِاعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔سو، ایسے موقعے پردنیا کی کچھ سرکردہ خواتین سیاست دانوں کے، خواتین ہی سے متعلق چند اہم اقوال یہاں شیئرکرنا ہرگز بےمحل نہ ہوگا۔ مثلاً:

’’آئرن لیڈی‘‘ کے نام سے معروف، سابق برطانوی وزیرِاعظم، مارگریٹ تھیچر کا قول ہے کہ ’’اگر آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، تو کسی مرد سے کہیں، لیکن اگر آپ کچھ کروانا چاہتے ہیں، تو پھرکسی خاتون سے کہیں۔‘‘ سابق جرمن چانسلر، اینجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ ’’مَیں نے کھی خُود کو کم ترنہیں سمجھا  اور اگر کچھ کرنے کی جستجو ہو تو کبھی کچھ غلط ہو بھی نہیں سکتا۔ مَیں جُھک سکتی ہوں، لیکن ٹُوٹ نہیں سکتی، کیوں کہ بحیثیت ایک مضبوط عورت یہ میری سرشت کے خلاف ہے۔‘‘ سابق آسٹریلوی وزیرِاعظم، جولیا گیلارڈ کا قول ہے کہ’’اگر آپ ایک قوم، اپنے کرّہِ ارض کو بدلنا چاہتے ہیں تو ایک لڑکی کوتعلیم دلوائیں۔‘‘چلی کی سابق صدر، مشیل ہیکلیٹ کاکہنا تھاکہ ’’میرے نزدیک بہترین جمہوریت وہ ہے، جس میں خواتین کو نہ صرف ووٹ دینے، منتخب کرنے بلکہ منتخب ہونے کا بھی حق حاصل ہو۔‘‘ 

لائبیریا کی سابق صدر، ایلن جانسن سرلیف کا قول ہے کہ ’’خواتین کی بعض خُوبیاں ایسی ہیں، جو اُنہیں مَردوں پر برتری دلاتی ہیں۔ یہ عام طور پر زیادہ دیانت دار ہوتی ہیں، مسائل سے متعلق زیادہ حسّاس، اور یہ جو کچھ کرتی ہیں، پختہ عزم و لگن کے ساتھ کرتی ہیں، شاید اس لیے کہ یہ مائیں ہوتی ہیں۔‘‘ ناروےکی سابق وزیرِاعظم، ایرنا سولبرگ نے کہا کہ ’’دنیا بھر میں خواتین کی تعلیم اور خُود مختاری کے نتیجے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک محبت و تحمّل بَھری، مُنصفانہ اور پُرامن زندگی وجود میں نہ آئے۔‘‘ نیوزی لینڈ کی سابق وزیرِاعظم، جیسنڈا آرڈرن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ’’نہ تو مَیں دنیا کی پہلی عورت ہوں، جو بیک وقت کئی امور انجام دے رہی ہے اور نہ مَیں دنیا کی آخری عورت ہوں، جس نے ایک بچّی کی ماں ہوتے ہوئے وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اپنی بچّی سے دُور ہوکرمجھے گلٹ ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ مَیں ایک بہترین بیٹی، بہن، ساتھی اور ماں ہوں۔ اور دنیا کی کون سی عورت ہے، جو بہترین نہیں۔‘‘

سابق برطانوی وزیرِاعظم، ٹریسامے کا کہناتھا کہ ’’اچانک مَردوں کوخیال آیا کہ خواتین بھی سیاست میں حصّےدار ہیں اوریہ خیال اُنھیں تب آیا، جب اُنھیں احساس ہوا کہ یہ بھی تو ووٹ ہیں۔‘‘ سابق خاتونِ اوّل، مشیل اوباما کے چند اقوال کا مجموعہ ہےکہ ’’خواتین کی حیثیت سے ہم جو کچھ کرسکتی ہیں، اُس کی کوئی حد نہیں۔ جب خواتین تعلیم یافتہ ہوں تو اُن کے ممالک مضبوط اور خوش حال ہوتے ہیں۔ ہر لڑکی خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی رہتی ہو، اُسے اپنے اندر کے وعدے پورے کرنےکاحق حاصل ہونا چاہیے اور میرے نزدیک تو دنیا کی ہر عورت قابلِ احترام ہے۔‘‘ معروف امریکی سیاست دان، سفارت کار، سابق وزیرِخارجہ، ہلیری کلنٹن کے اقوال ہیں۔ ’’خواتین، دنیا میں ٹیلنٹ کا ایسا بڑا ذخیرہ ہیں، جنہیں ہنوز بروئے کار نہیں لایا گیا۔ 

اگرچہ ہم انتہائی سخت اوربلند ترین چھت کو پاٹ نہیں سکیں، لیکن ہم نے اِس میں کئی ملین دراڑیں ضرور ڈال دی ہیں اور ہر درز سے روشنی کی ایک پھوار سی آتی محسوس ہورہی ہے۔‘‘، ’’میرا ماننا ہے کہ خواتین مظلوم نہیں، ہم تبدیلی کی امین، ترقی کی علم بردار، امن کی معمار ہیں۔ ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ ہمیں لڑنے کے مواقع میسّرآئیں۔‘‘ اور ہماری اپنی مادرِ ملّت، محترمہ فاطمہ جناح کا قول ہے کہ ’’عورت دنیا میں انتہائی اہم مقام رکھتی ہے اور قدرت نے اِس کی صلاحیتیں دیکھتے ہوئے ہی اِسے وسیع ذمّےداریاں سونپی ہیں۔

اگرآپ اپنی ذمّے داریوں کی انجام دہی میں ناکام رہتی ہیں تو یہ صرف آپ کی ذات کا نہیں، ہماری اجتماعی زندگی کا نقصان ہے۔‘‘ اِسی طرح ہماری بہت اپنی، مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم (دی ڈاٹر آف ایسٹ) محترمہ بےنظیر بھٹو کا کہنا تھا کہ ’’خاتون ہونا کہیں بھی آسان نہیں اور خاتون سیاست دان ہونا تو مزید کٹھن ہے۔ ہمارے لیے نہ صرف رکاوٹیں زیادہ بڑی، بندشیں زیادہ سخت، تقاضے زیادہ مشکل بلکہ دہرے معیارات بھی زیادہ شدید ہیں۔‘‘

عالمی یومِ خواتین (8؍مارچ) کی آمد آمد ہے۔ اِس تناظر میں اِن عظیم، صحیح معنوں میں کام یاب، قابلِ قدرولائقِ ستائش خواتین کےاقوال، ارشادات کی روشنی میں اپنے لیے کچھ نئی راہیں متعیّن کرنے، کچھ نئےچراغ جلانے کی کوشش کریں۔ یہ ’’عورت آزادی مارچ‘‘ جیسے کھیل، تماشے، سوانگ، ناٹک ہم، آپ جیسی عام خواتین کے لیے رچائے جاتے ہیں اور نہ ہی اِن سے ہمیں کچھ حاصل وصول ہوگا۔

یہی دیکھیے، آج آپ کی مَن مرضی کے بناؤ سنگھارکے لیے ہم نے کیسی خُوب صُورت سی بزم مرصّع کی ہے، جس میں پلین ٹرائوزرز کے ساتھ پرنٹڈ کُرتیاں، پیپلمز ہیں، تو میچنگ سیپریٹس کے حسین و دل نشین رنگ و انداز بھی۔ اپنے خاص دن کے لیے، ان میں سے جو بھی منتخب کرناچاہیں، بخوشی کریں اور شوکت پردیسی کی نظم ’’عورت‘‘ کے مثل کہلائیں کہ ؎ مجسّم عشوہ و انداز بھی ہے…مگر عورت جہانِ راز بھی ہے… ستم آرائیاں تسلیم لیکن… نہایت مخلص و دَم ساز بھی ہے… شکستِ آرزو کی بات کیسی… ہجومِ آرزو کا راز بھی ہے… اگر کوتاہ نظری ہو نہ حائل… تو شاید مرکزِ پرواز بھی ہے… کہیں افسانۂ عشق و محبّت… کہیں رُودادِ سوزو ساز بھی ہے… جہاں ہے سر بہ سجدہ عشق ابھی تک… یہی وہ بارگاہِ ناز بھی ہے…غرض، عورت جہانِ آب و گل میں… زمانہ بھی، زمانہ ساز بھی ہے۔