دنیا بَھر میں 1911ء سے’’ عالمی یومِ خواتین‘‘ منایا جارہا ہے، جس کا بنیادی مقصد خواتین کو اُن کے بنیادی حقوق سے متعلق شعور و آگہی کی فراہمی ہے، وہیں خواتین کے ثقافتی، سیاسی اور معاشی میدانوں کے کارہائے نمایاں اجاگر کرنے کے ساتھ ،اُن کی حوصلہ افزائی بھی مقصود ہے تاکہ وہ مَردوں کے شانہ بشانہ قومی ترقّی کے دھارے میں شریک ہوسکیں۔ 2024ء کے’’ عالمی یومِ خواتین‘‘ کا تھیم بھی یہی ہے کہ معاشرے کے دیگر طبقات کو خواتین کے حقوق اور جائز مرتبے کا احساس دِلا کر اُنہیں کسی امتیازی سلوک کے بغیر شریکِ سفر کیا جائے۔
اگرچہ خواتین کا عالمی دن ایک سو سال سے زیادہ عرصے سے منایا جارہا ہے، لیکن دنیا بَھر کی خواتین کے مجموعی حالات میں اب تک بہتری نہیں آسکی اور ماہرین برملا کہتے ہیں کہ خواتین کو مَردوں کے برابر حقیقی مساوات کی فراہمی میں مزید کئی سوسال کا عرصہ درکار ہے۔تاہم، صُورتِ حال اِتنی بھی مایوس کُن نہیں۔
ایک طرف گزشتہ کئی دہائیوں میں امریکا، یورپ اور بہت سے ترقّی پذیر ممالک میں خواتین نے اپنے بنیادی حقوق کے ضمن میں کئی سنگِ میل طے کیے ہیں، تو دنیا کے بیش تر ممالک میں خواتین کے حقوق سے متعلق قانون سازی کا عمل شروع ہونے کے ساتھ، مَردوں کے رویّوں میں بھی مثبت تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔
پاکستان میں بھی خواتین کا عالمی یوم باقاعدگی سے منایا جاتا ہے اور خواتین کے اجتماعات، بالخصوص ’’عورت مارچ‘‘ میں خواتین کے بنیادی حقوق سے متعلق خاصی جوشیلی تقاریر بھی کی جاتی ہیں، لیکن خود خواتین اور مَردوں کو یہ احساس بھی ہے کہ پاکستان میں صنفی مساوات کے خواب کی تعبیر کی منزل اب بھی کوسوں دُورہے۔اِس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کے ادارے، جینڈر گیپ انڈیکس کی پاکستان سے متعلق رپورٹ حوصلہ افزا نہیں، جس میں صنفی مساوات کے حوالے سے دنیا کے 146 ممالک میں پاکستان کو 142 ویں درجے پر رکھا گیا ہے اور اِس ادارے نے پاکستان کو خواتین کے لیے دنیا کا چَھٹا خطرناک ترین مُلک بھی قرار دے رکھا ہے۔
لیکن یہ بھی ایک کُھلی حقیقت ہے کہ پاکستانی خواتین سے متعلق گزشتہ چند دہائیوں میں دکھائی دینے والی مثبت تبدیلیاں اِس بات کی مظہر ہیں کہ اِس طرح کی رپورٹس پورا سچ نہیں ہیں۔اعداد وشمار سے ثابت ہوتا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں خواتین نے افواجِ پاکستان، اعلیٰ ایگزیکٹیو عُہدوں، بزنس، تعلیم، پولیس، عدلیہ، سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی، فلم، ٹی وی، وکالت، گلوکاری اور کوہ پیمائی وغیرہ میں نمایاں کام یابیاں حاصل کی ہیں اور بعض خواتین نے تو اِن شعبوں میں عالمی شہرت بھی کمائی اور کئی بین الاقوامی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔
بلاشبہ یہ خواتین کی انفرادی کوششوں کا ثمر ہے، لیکن اِس امر میں میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مُلک میں مجموعی طور پر خواتین کی عمومی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالت میں بہتری نظر آرہی ہے۔ خاص طور پر نوجوان خواتین نے اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں بھرپور کارکردگی دکھائی ہے۔
عام انتخابات اور خواتین
2024ء کا’’ عالمی یومِ خواتین‘‘ پاکستانی خواتین کے لیے اس اعتبار سے بھی کچھ خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اِس سال اُن کی سیاسی بے دای نے قوم کو حیران کردیا، کیوں کہ 2018ء کے عام انتخابات میں خواتین زیادہ بڑے پیمانے پر شریک نہیں ہوسکی تھیں۔اسی لیے اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر، شیری رحمان کا کہنا ہے کہ 2002ء سے اگرچہ پاکستانی خواتین صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصّہ لے رہی ہیں، لیکن یہ رفتار بہت سُست تھی۔ 2018ء میں خواتین کا سیاست میں مجموعی حصّہ صرف11 فی صد تھا، تاہم اِس بار یعنی 2024ء کے عام انتخابات میں3ہزار سے زاید خواتین نے مختلف سیاسی جماعتوں کے ٹکٹس یا آزاد اُمیدواران کے طور پر حصّہ لیا، جب کہ 2018ء میں یہ تعداد1687 تھی اور 2013ء میں تو تعداد اس سے بھی کم، یعنی 1171 تھی۔
اگر ووٹ کاسٹنگ کی بات کریں، تو 2018ء میں 4کروڑ 60 لاکھ رجسٹرڈ خواتین ووٹرز میں سے صرف 40 فی صد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔انتخابات سے چند روز قبل عالمی ادارے، فافن نے انتخابی فہرستوں پر اپنی رپورٹ جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ 18سے35 سال کی عُمروں میں سب سے زیادہ صنفی فرق20 فی صد ہے اور خواتین ووٹر رجسٹریشن کے نمایاں رجحانات ہیں۔یاد رہے، 2013ء کے انتخابات کے بعد سے4 کروڑ23 لاکھ ووٹرز کا اضافہ ہوا، جب کہ ووٹرز کی کُل تعداد مُلک کی مجموعی آبادی کا 53.2فی صد ہے۔
پنجاب میں 57، خیبر پختون خوا میں 53، سندھ اور اسلام آباد میں ووٹرز آبادی کا تقریباً50 فی صد ہیں۔تاہم، بلوچستان میں صرف36 فی صد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ اِس بار خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ 2018ء میں ووٹرز کا صنفی فرق11.8 فی صد تھا، جو اب7.7 فی صد رہ گیا۔گویا، 2018ء کے بعد خواتین کی رجسٹریشن، مَردوں سے بڑھ گئی۔2024ء میں خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا اور ایک دل چسپ بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ اگرچہ 2018ء کے مقابلے میں2024 ء میں ٹرن آئوٹ کم رہا، (52.1 فی صد سے کم ہو کر 47.6فی صد ہوگیا) لیکن فافن کی رپورٹ کے مطابق، اِس بار گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں23لاکھ سے زاید خواتین ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ 2018ء میں دو کروڑ10 لاکھ عورتوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا تھا اور اِس بار دوکروڑ 33 لاکھ خواتین نے اپنی پسند کے اُمیدواروں کو ووٹ دئیے۔
نیز،111 سیاسی جماعتوں نے280 خواتین امیدواروں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ بھی جاری کیے۔ مجموعی طور پر 6037 امیدواروں میں یہ شرح4.64 فی صد بنتی ہے۔نیز، اِس بار پہلی مرتبہ خیبر پختون خوا کے علاقے، بونیر سے ایک ہندو خاتون، ڈاکٹر ساویرا پرکاش نے بھی انتخابات میں حصّہ لیا۔ گو کہ وہ کام یاب تو نہ ہوسکیں، لیکن اُن کے یوں میدان میں اُترنے کو بھی خواتین کی سیاسی بے داری کے ضمن میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں میں تحریکِ انصاف کی حمایت یافتہ خواتین اُمیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی53تھی۔ اُن میں سے28 نے قومی اور 23 نے صوبائی اسمبلیوں کے لیے مقابلہ کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے35 خواتین کو میدان میں اُتارا، جن میں11 قومی اور24 صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر اُمیدوار تھیں۔مسلم لیگ نون نے28 خواتین کو ٹکٹس دیئے، جن میں12 قومی اسمبلی اور16 صوبائی اسمبلیوں کے لیے تھیں۔ مجموعی طور پر خواتین اُمیدواروں کی یہ شرح تقریباً5 فی صد بنتی ہے۔البتہ، مبصّرین کے مطابق، یہ کوٹا خواتین کی آبادی کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے کہ خواتین ووٹرز کی تعداد6 کروڑ سے زائد ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، اِس بار قومی اسمبلی کے لیے ابتدائی طور پر355اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 672 خواتین نے کاغذاتِ نام زدگی داخل کروائے تھے، جن میں سے کافی مسترد ہوگئے۔پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواتین کے لیے مختص5 فی صد کوٹا بھی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خاندانوں ہی تک محدود رہتا ہے اور عام خواتین سیاسی کارکنان کو اس میں سے کم ہی حصّہ ملتا ہے، حالاں کہ 6کروڑ سے زائد خواتین ووٹرز کو اپنی صفوں ہی میں سے زیادہ سے زیادہ نمائندوں کے انتخاب کا موقع ملنا چاہیے۔
2024ء کے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق، قومی اسمبلی کی 12، پنجاب اسمبلی کی 11، سندھ اسمبلی کی2 اور کے پی کے اسمبلی کی ایک جنرل نشست پر خواتین منتخب ہوئیں۔قومی اسمبلی پہنچنے والی خواتین میں تحریکِ انصاف کی حمایت یافتہ 5 ، مسلم لیگ نون کی4 اور پیپلز پارٹی کی2 خواتین شامل ہیں۔تاہم، ووٹس کی دوبارہ گنتی وغیرہ کے نتیجے میں ہار، جیت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، جس سے کام یاب خواتین کی تعداد میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔
اِس بار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مختلف حلقوں سے جن خواتین امیدواروں نے میدان مارا، اُن میں مریم نواز شریف، شازیہ مری، زرتاج گل، فریال تالپور، شاندانہ گلزار، نفیسہ شاہ، ڈاکٹر شذرہ منصب علی خان کھرل، عائشہ نذیر جٹ، تہمینہ دولتانہ، نوشین افتخار، عائشہ اسحاق صدیقی، ثریا بلال، نور شاہد، آشفہ ریاض فتیانہ، سونیا، مصباح واجد، شازیہ حیات، ثریا سلطانہ، صائمہ کنول، نادیہ کھر، زرناب شیر، بسمہ چوہدری اور عذرا مغل نمایاں ہیں۔
سیاسی مبصّرین2024 ء کے عام انتخابات میں خواتین کی بھرپور شرکت کو تاریخی کام یابی کے طور پر دیکھتے ہیں، کیوں کہ اِس قدر سیاسی شعور و آگاہی اور سیاسی عمل میں دل چسپی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اِس بار پاکستانی سیاست نے ایک ایسا رُخ اختیار کیا کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے لگائو اور کمٹمنٹ بیش تر گھرانوں میں روزمرّہ کی گفتگو کا موضوع رہا، خواتینِ خانہ، خاص طور پر لڑکیوں نے اپنے پسندیدہ اُمیدواروں سے کُھل کر اظہارِ یک جہتی کیا۔
یہی وجہ ہے کہ پولنگ کے دن خواتین کی ایک بڑی تعداد گھروں سے باہر نکلی، سواری کا انتظام خود کیا اور اپنے پولنگ اسٹیشنز تلاش کرکے مَن پسند اُمیدوار کو ووٹ بھی ڈالا۔ ایسی ضعیف العمر خواتین بھی، جنہیں شاید یہ بھی علم نہ ہو کہ ہر سال خواتین کا کوئی عالمی یوم بھی منایا جاتا ہے، ووٹ ڈالنے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑی رہیں۔ ایک عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ مُلک میں خواتین کے ووٹس کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن اِس بار اُنہوں نے یہ مفروضہ غلط ثابت کردیا۔
تاہم، ابھی طویل سفر باقی ہے!
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قانون سازی میں خواتین کا حصّہ صرف4 اعشاریہ 5 فی صد ہے۔ اِسی طرح شعبۂ تعلیم سے متعلق یونیسکو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ20 لاکھ بچیاں اسکولوں سے باہر ہیں۔ جینڈر گیپ انڈیکس رپورٹ میں پاکستان کو خواتین کے لیے دنیا کا چَھٹا خطرناک ترین مُلک قرار دیا گیا ہے۔یہ اعداد و شمار غلط ہیں یا درست، یہ ایک الگ بحث ہے، مگر یہ واضح ہے کہ پاکستان میں خواتین کے کردار کو عالمی سطح پر اِسی طرح کی رپورٹس کی بنیاد پر زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔
تاہم، حال ہی میں خواتین میں جو شعور و آگہی دیکھنے کو ملی، ماہرین اِسے بہت بڑی تبدیلی قرار دیتے ہیں، جس سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ میں بھی بہتری آئے گی۔ نیز، اِس تبدیلی کی بنیاد پر مستقبل میں خواتین کے حالات بھی سازگار دِکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں بعض روایات کی وجہ سے انتخابی عمل میں خواتین کا حصّہ ہمیشہ سے محدود رہا ہے، لیکن حالیہ انتخابات میں محدود سوچ پر مبنی اِس طرح کی روایات بھی بہت پیچھے رہ گئیں اور خواتین نے بڑھ چڑھ کر سیاسی عمل میں حصّہ لیا۔
جیلوں میں بند خواتین سیاسی کارکنان کا کردار بھی اِس ضمن میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، جن میں سے کئی ایک نے انتخابات میں بطور اُمیدوار حصّہ لے کر حیران کُن تعداد میں ووٹس بھی حاصل کیے۔ ایک سیاسی مبصر نے خیبر پختون خوا کی سیاسی صُورتِ حال سے متعلق کہا کہ ماضی میں صوبے کے بعض علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے مَردوں سے اجازت لینی پڑتی تھی، لیکن اِس بار ایسا نہیں ہوا۔ سیاسی بے داری کی لہر نے خواتین کے سیاسی رنگ ڈھنگ بھی بدل دیئے ہیں۔
اس ضمن میں ایک معروف یونی ورسٹی کی شعبہ سوشل سائنسز کی سربراہ، مسز نعیم ہاشمی کا کہنا ہے کہ’’ اگر پاکستان کے سب سے قدامت پرست علاقے میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں، تو اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر علاقوں کی خواتین میں اپنے بنیادی حقوق سے متعلق کس قدر آگہی پیدا ہو چُکی ہوگی۔ وہ اب اپنے سیاسی نمائندوں کے انتخاب میں گھر کے مَردوں کے احکامات پر آنکھیں بند کرکے عمل نہیں کرتیں، بلکہ اپنی ذاتی پسند، ناپسند کو بھی سامنے رکھتی ہیں۔
دُور جانے کی ضرورت نہیں، مَیں نے اپنے گھر میں دیکھا کہ ہمارے ہاں کام کرنے والی نے اپنے شوہر کے لاکھ کہنے کے باوجود، سب کو بتا کر اپنی پسند کے اُمیدوا کو ووٹ دیا۔ اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ وہ اُمیدوار کی جانب سے فراہم کردہ ٹرانسپورٹ کا انتظار کرنے کی بجائے اپنی جیب سے رکشا کر کے پولنگ اسٹیشن گئی۔ پاکستان کی آبادی کا آدھا حصّہ خواتین پر مشتمل ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ان کی آواز نہ سُنی جائے۔ بشرطیکہ اُن کی جدوجہد صرف’’عورت مارچ‘‘ جیسی سرگرمیوں ہی تک محدود نہ ہو۔‘‘