گو کہ پاکستان میں عام انتخابات8 فروری کو ہوئے، مگر ’’پولنگ‘‘ کا عمل تین دن تک جاری رہا، جس پر لوگوں نے طنزاً یہ تک کہنا شروع کردیا کہ’’ پہلے انتخابات کرواتے نہیں تھے اور اب ختم نہیں کر رہے۔‘‘ انتخابی نتائج ویسے ہی آئے، جیسے ماضی میں آتے رہے ہیں۔ الزامات، انتظامیہ کی سرپرستی، اَن دیکھی قوّتوں کے پسِ پردہ کردار، ووٹوں کی خرید و فروخت، نتائج کی تبدیلی اور دھاندلی کا شور، اِن میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔
عام رائے یہی ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے، وہ سب شفّاف اور غیر جانب دارانہ نہیں تھے اور مبصّرین کے تجزیوں کی روشنی میں یہ بات ٹھیک ہی دِکھائی دیتی ہے۔ شاید پاکستان دنیا کا وہ واحد مُلک ہے، جہاں جمہوریت کے استحکام، غیر یقینی سیاسی، معاشی اور انتظامی حالات میں بہتری کے نام پر انتخابات کروائے جاتے ہیں، لیکن الیکشنز کے بعد جنم لینے والا انتشار پہلے سے کہیں زیادہ غیر یقینی صُورتِ حال پیدا کر دیتا ہے، حتیٰ کہ جمہوریت کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ اِس مرتبہ انتخابات میں سوشل میڈیا کا بھی اہم کردار رہا، جسے ایک جماعت نے خاصے منظّم طور پر استعمال کیا گیا۔
نیز، پولنگ کے دوران ہونے والی بے ضابطگیوں اور مبیّنہ دھاندلیوں سے متعلق بھی سوشل میڈیا پر ویڈیوز کی بھرمار رہی۔ اِس سے جہاں ایک طرف کئی شواہد سامنے آئے، تو دوسری طرف، انتخابی نظام کی خامیوں، انتظامیہ کے کردار اور اس عمل میں شامل اداروں کے طرزِعمل نے بھی عوام کو بدظن اور مایوس کیا۔ انتخابی عمل کا مشاہدہ کرنے والی بین الاقوامی ٹیمز نے پاکستان میں قیام کے دَوران تو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹس کے ساتھ ہلکے پُھلکے ہومیو پیتھک انداز میں بدانتظامیوں کی نشان دہی کی، لیکن اپنے اپنے مُلکوں میں واپس جاکر وہی بیان کیا، جو اُنہوں نے دیکھا تھا۔امریکا سمیت کئی اہم ممالک اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے پاکستان میں انتخابی عمل کے بعض پہلوؤں پر تشویش اور تحفّظات کا اظہار بھی کیا گیا۔
2024ء کے انتخابات کی ایک اہم بات یہ رہی کہ اس میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد نے جہاں پولنگ کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا، وہیں خواتین اُمیدواروں کی بھی ریکارڈ تعداد سامنے آئی، تاہم کئی معروف خواتین سیاست دان، جن کی جیت یقینی بتائی جارہی تھی، وہ ناکام رہیں، جب کہ پہلی مرتبہ انتخابات میں حصّہ لینے والی کئی خواتین اُمیدواروں نے کام یابی حاصل کی۔ پاکستان تحریکِ انصاف خواتین کو ٹکٹس دینے میں سرِ فہرست رہی۔
پی ٹی آئی کی کئی خواتین رہنما انتخابات سے قبل سیاست چھوڑ گئی تھیں، جن میں سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق، شیریں مزاری، سابق رُکن پنجاب اسمبلی مسرّت جمشید چیمہ اور سابق رکن قومی اسمبلی بیرسٹر ملیکہ بخاری نمایاں ہیں۔ کئی خواتین نامساعد حالات کے باوجود الیکشن لڑنے پر تیار ہوئیں اور مرد اُمیدواروں کا مقابلہ کیا، لیکن جیت نہ سکیں۔
چند خواتین سے متعلق کہا جا رہا تھا کہ وہ میدان میں اُتریں گی، تاہم اُنہوں نے انتخابات میں دل چسپی نہیں دِکھائی۔ ان خواتین میں خدیجہ شاہ بھی شامل ہیں، جو فیشن ڈیزائنر ہونے کے علاوہ پی ٹی آئی کی کارکن بھی ہیں۔ اُنہیں نو مئی کے واقعات کی پاداش میں آٹھ ماہ جیل میں گزارنے پڑے۔ عام تاثر تھا کہ سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کی بیٹی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سامنے آئیں گی، لیکن اُنہوں نے جیل سے رہائی کے بعد اپنے پیشے کے ساتھ وابستگی ہی کو ترجیح دی۔ دوسری طرف، جیل میں قید جوشیلی کارکن، صنم جاوید کے حوالے سے مسلسل کوششیں ہوتی رہیں کہ وہ سیاسی جدوجہد کے ساتھ، پارلیمانی سیاست میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔
اُنہیں مریم نواز کے مقابلے میں مضبوط اُمیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، تاہم اُنہیں انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے مشکلات کا سامنا رہا، جب کہ بعد میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود وہ انتخابی دنگل میں نہیں کود سکیں۔ صنم جاوید این اے 119 اور این اے 121سے پی ٹی آئی کی متوقّع امیدوار تھیں، لیکن پی ٹی آئی عدالتی فیصلے سے قبل اِن نشستوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کرچُکی تھی، اِس لیے صنم جاوید عدالت سے اجازت ملنے کے باوجود انتخابات سے دست بردار ہو گئیں۔علاوہ ازیں، پی ٹی آئی کی ایک اور متحرّک سیاسی کارکن، طیبہ راجا کے حوالے سے بھی اُمید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہ انتخابی میدان میں اُتریں گی، مگر وہ سامنے نہیں آئیں۔
پی ٹی آئی کی کئی خواتین جنرل نشستوں پر زبردست مقابلے کے بعد کام یاب قرار پائیں۔ انیقہ مہدی نے دو لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے، جب کہ این اے 185 سے زرتاج گُل بھی کام یاب ہوئیں۔ اِسی طرح این اے30 پشاور سے شاندانہ گلزار نے بھی میدان مارا۔ این اے119 سے مسلم لیگ نون کی رہنما، مریم نواز قومی اسمبلی کی نشست پر بھی کام یاب ہوئیں، جب کہ اُنھوں صوبائی اسمبلی کی نشست بھی جیتی۔
مجموعی طور پر چار سیاسی جماعتوں سے12 خواتین اپنے مخالف مضبوط ترین اُمیدواروں سے الیکشن جیت کر قومی اسمبلی کا حصّہ بننے میں کام یاب رہیں۔خیبر پختون خوا کے علاقے، بونیر25 سے پاکستان پیپلز پارٹی کی سویرا پرکاش جنرل نشست پر الیکشن لڑ رہی تھیں، لیکن وہ اسمبلی تک نہیں پہنچ سکیں۔
عام سیاسی ورکرز کے علاوہ معروف خواتین سیاست دانوں نے بھی انتخابات میں حصّہ لیا۔اِس بار پورے مُلک کی نظریں این اے130 میں یاسمین راشد اور میاں نواز شریف کے مقابلے پر تھیں، لیکن یاسمین راشد ہار گئیں۔ این اے 64گجرات سے چوہدری پرویز الٰہی کی اہلیہ، قیصرہ الٰہی کا اپنے ہی خاندان کے اُمیدوار چوہدری سالک حسین سے مقابلہ تھا، تاہم قیصرہ الٰہی فارم47 کے مطابق شکست کھا گئیں۔ اِسی طرح سابق وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کی بیٹی، مہر بانو قریشی این اے151 ملتان سے سابق وزیرِ اعظم ،یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے، علی موسیٰ گیلانی سے ہار گئیں۔ این اے118 پر پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ، عالیہ حمزہ ملک نے مسلم لیگ نون کے رہنما، حمزہ شہباز سے مقابلہ کیا اور پانچ ہزار ووٹوں کے فرق سے ناکام رہیں۔
عالیہ حمزہ جیل میں ہیں، جس کی وجہ سے اُن کی نوعُمر بیٹی نے اُن کی انتخابی مہم چلائی۔ایک بڑا مقابلہ سیال کوٹ میں دیکھنے کو ملا، جہاں خواجہ آصف کے سامنے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ اُمیدوار، ریحانہ ڈار تھیں، تاہم وہ کام یاب نہ ہو سکیں۔ کئی خواتین کا دعویٰ ہے کہ وہ فارم 45 کے مطابق اپنی نشستیں جیت چُکی ہیں، لیکن اُنھیں دھاندلی کے ذریعے ہروایا گیا ہے۔ مسلم لیگ نون کی سائرہ افضل تارڑ کو این اے 67 میں ایک خاتون نے شکست دی۔ اِسی طرح اپنے سخت بیانات، چٹکلوں سے خبروں میں رہنے والی سائرہ بانو بھی اِس بار اسمبلی میں دکھائی نہیں دیں گی۔وہ جی ڈی اے کے ٹکٹ پر سانگھڑ سے امیدوار تھیں۔
استحکامِ پاکستان پارٹی کی فردوس عاشق اعوان بھی این اے70 سے ہار گئیں۔پی ٹی آئی کی دیگر خواتین رہنماؤں میں ایمان طاہر، کنول شوزب، عذرا مسعود، کوثر بھٹی، سیمابیہ طاہر اور عارفہ نذیر جٹ اسمبلی جانے سے محروم رہیں۔ اِسی طرح دیگر جماعتوں کی خواتین اُمیدواروں میں این اے 24 سے شازیہ تہماس، این اے38 سے مہر سلطانہ، این اے177 سے شیر بانو بخاری سمیت کئی دیگر خواتین اسمبلی تک نہیں پہنچ پائیں۔
انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے ادارے، فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی ایک رپورٹ کے مطابق111 سیاسی جماعتوں کی 275 خواتین امیدواروں نے جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصّہ لیا۔یوں اُن کا تناسب4.6 فی صد بنتا ہے۔ چار سیاسی جماعتوں کی12 خواتین اُمیدوار قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں سے منتخب ہوچُکی ہیں( کئی نشستوں پر تنازعات، الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں) اور ان میں سے اکثر پہلی بار الیکشن لڑ کر پارلیمان کا حصّہ بنی ہیں۔ تاہم، اِس بار اہم ترین خواتین رہنما جنرل الیکشن ہار گئیں۔
8 فروری کے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ کے درمیان مبیّنہ دھاندلی کے الزامات بھی سامنے آئے۔ تاہم، بعض ایسے بھی اُمیدوار ہیں، جنھوں نے کُھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کی۔ الیکشن کمیشن نے جماعتِ اسلامی، کراچی کے امیر، حافظ نعیم الرحمٰن کو سندھ اسمبلی کی نشست پر کام یاب قرار دیا، لیکن اُنھوں نے اِس فتح کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ’’ہمیں خیرات کی سیٹ نہیں چاہیے۔‘‘ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما معاذ مقدّم کے20608 ووٹس کے مقابلے میں حافظ نعیم الرحمٰن نے26269 ووٹ لے کر تقریباً ساڑھے پانچ ہزار کے فرق سے یہ نشست جیتی، مگر اُنھوں نے12 فروری کو کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ’’ اِس حلقے میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی اور الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو یک ساں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی۔‘‘
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ’’مجھے26 ہزار کی بجائے30464 ووٹ ملے، لیکن مجھ سے بھی زیادہ ووٹ تحریکِ انصاف کے آزاد امیدوار (سیف باری) کو ملے اور مَیں یہ اعلان کرنے کا ظرف رکھتا ہوں کہ حلقے سے میرے بجائے، پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار جیتے ہیں۔‘‘ اگرچہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے دعووں کی تردید کی گئی، تاہم حافظ نعیم الرحمٰن سمیت کئی امیدوار نتائج میں ردّ وبدل کے الزامات لگاتے چلے آ رہے ہیں۔
یاد رہے، الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج میں تاخیر کی وجہ پولنگ ڈے پر موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی معطّلی کو قرار دیا تھا۔ ادھر حافظ نعیم الرحمٰن کے الزامات کی تريد کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے اُن کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور اسلام آباد سے آزاد اُمیدوار، مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ’’مَیں اپنی شکست کُھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں۔ تاہم، یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار، علی بخاری کو حلقہ48 این اے اسلام آباد کی سیٹ ہروا دی گئی، جب کہ وہ واضح طور پر جیتے ہوئے تھے۔ جن موصوف کو نتیجہ بدل کر جتوایا گیا ہے، وہ دوڑ میں کہیں بھی نہ تھے۔‘‘
اُنھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ’’شعیب شاہین بھی حلقہ این اے47 سے واضح برتری کے ساتھ جیت چُکے ہیں۔ یہ بدترین دھاندلی آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔‘‘ اِسی طرح سماجی کارکن اور وکیل، جبران ناصر نے ایکس( سابقہ ٹوئیٹر) پر لکھا کہ’’ مَیں نے این اے 241پر صرف کاغذاتِ نام زدگی جمع کروائے تھے اور مہم صرف پی ایس 110 کے لیے چلائی تھی، پھر بھی ووٹرز نے ہمیں این اے 241 کی نشست پر1027 ووٹ دیئے، جب کہ ایم کیو ایم کے فاروق ستار کو انتخابی مہم چلانے کے باوجود صرف 494 ووٹ ملے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی مقبولیت کی یہی حقیقت ہے۔
پی پی پی دوڑ میں قریب تک نہیں تھی، مگر اُسے فاتح قرار دینا اور پی ٹی آئی کو دوسرے نمبر پر رکھنا ایک مذاق ہے۔میرے حلقے کے ووٹرز کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ہمارا لیگل ایڈ سیل این اے241 کے لیے خرم شیر زمان کی نمائندگی کرے گا۔‘‘جب کہ الیکشن کمیشن نے اپنے ایک بیان میں دھاندلی کے الزامات یک سَر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ’’اِکّا دُکّا واقعات سے انکار نہیں، جن کے تدارک کے لیے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔‘‘
مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست شکست کھا گئی…؟؟؟
مثل مشہور ہے کہ’’ محبّت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے‘‘، لیکن اب اس میں سیاست کو بھی شامل کر لینا چاہیے، یعنی’’ محبّت، جنگ اور سیاست میں سب جائز ہے۔‘‘کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا اور حالیہ انتخابات میں اِس مقولے کی عملی شکل بار بار دیکھنے کو ملی۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کس طرح ہزاروں کے مجمعے میں مولانا فضل الرحمان کے لیے’’ڈیزل، ڈیزل‘‘ کے نعرے لگوایا کرتے تھے اور کس طرح مولانا فضل الرحمان انہیں ’’فتنہ‘‘ اور’’ یہودی ایجنٹ‘‘ قرار دیا کرتے تھے، لیکن پھر عمران خان کی ہدایت پر تحریکِ انصاف کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد ہاتھوں میں ’’سفید پرچم‘‘ لیے اسد قیصر کی قیادت میں مولانا فضل الرحمان کے گھر پہنچا اور خود مولانا صاحب نے ’’یہودی ایجنٹ‘‘ کے رفقاء کا پُرجوش خیرمقدم کیا۔ مولانا فضل الرحمان ایک معاملہ فہم اور زیرک سیاست دان ہیں، اُنہوں نے ہمیشہ اقتدار میں رہنے کی سیاست کی اور جب چاہا، حالات کے پیشِ نظر اپنے لیے اپوزیشن کا کردار منتخب کرلیا، لیکن حالیہ انتخابات میں مولانا صاحب کی سیاست شکست کھا گئی یا پھر اُنہیں شکست سے دوچار کر دیا گیا۔
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اُس وقت کی اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمان کی سیاسی بساط پر اپنے مہروں کی چال چلی تھی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی بنیاد رکھ کر مولانا فضل الرحمان ہی کو اس کا صدر بنایا گیا تھا۔ پھر اسلام آباد میں مولانا صاحب کے زیرِ اثر دینی مدارس کے جارحانہ انداز رکھنے والے طلبہ اور اساتذہ کا کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنا سیاسی منظر نامے پر نہایت اہمیت کا حامل تھا۔
مسلم لیگ نون کے جلسے جلوسوں میں افرادی قوّت مہیّا کرنے کے علاوہ بھی اُن کی غیر علانیہ کچھ سیاسی خدمات ایسی بھی تھیں کہ وہ بجا طور پر اپنی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل ہوتے دیکھ رہے تھے کہ اِس مرتبہ اُنہیں مُلکی صدارت کے منصب پر براجمان ہونے کا موقع دیا جائے گا۔لیکن یہ خواہش جب مطالبے کی شکل میں شدّت اختیار کرنے لگی، تو حکومت سازی کے لیے اسلام آباد میں ہونے والی اتحادی جماعتوں کی سرگرمیوں میں اُن سے لاتعلقی اختیار کر لی گئی، جس پر مولانا صاحب کا مایوس، دل برداشتہ اور مشتعل ہونا ایک فطری سی بات تھی اور پھر اُنہوں نے اپنے انٹرویوز میں چشم کُشا انکشافات کردئیے، جن میں اُن کا یہ کہنا تھا کہ’’ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اُس وقت کے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی ہمارے ساتھ رابطے میں تھے۔‘‘(گرچہ بعد میں انھوں نے ڈی جی آئی ایس آئی کا نام واپس لے لیا)۔
انتخابات میں دھاندلی کے ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ’’اگر اسٹیبلشمینٹ یہ کہتی ہے کہ الیکشن شفّاف ہوئے ہیں، تو پھر9 مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا۔‘‘ مولانا صاحب نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ’’ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، پاکستان پیپلز پارٹی چلا رہی تھی۔‘‘ اور اِس طرح مولانا فضل الرحمان نے اپنی سیاست پر خودکُش حملہ کردیا، لیکن مولانا صاحب سیاست کے سمندر سے باہر رہنے اور زیادہ دیر تک تڑپنے والے نہیں۔ جلد یا بدیر وہ سیاست میں اپنا نیا کردار متعیّن کر ہی لیں گے۔ بقول شخصے ’’اسٹیبلشمینٹ کے پاس مولانا صاحب کو راضی کرنے کے لیے کئی ترپ کے پتّے ہیں۔‘‘