چند روز قبل پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے اپنے پرانے وفادار ساتھیوں کے جھرمٹ میں حلف اٹھانے کے بعد صوبے کے عوام کی فلاح بہبود کیلئے متعدد منصوبوں کا اعلان کیا۔ انکی طرف سے بتایا گیا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ پنجاب کے غریب عوام کو رمضان کے مبارک مہینے میں انکے گھروں پر مفت راشن پہنچایا جائیگا۔ خاتون وزیراعلیٰ کی طرف سے نگہبان رمضان پیکیج کا اعلان یقیناً بڑی خوشخبری ہے مگر مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام کی اکثریت کیلئےبجلی ، پانی اور گیس کے بل ادا کرنےکے بعد بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانا مشکل ہو گیا ہے۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے لوگ ڈپریشن اور ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں گھروں میں جھگڑے بڑھ رہے ہیں، لوگ نشے کے عادی ہو رہے ہیں، خودکشیاں اور لوٹ مار کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت کو چاہیے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے تمام لوگوں کو مستقل بنیادوں پر راشن کارڈ کے ذریعے مفت یا رعایتی نرخوں پر اناج فراہم کرے اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے موجودہ ناقص سسٹم کو ختم کر کے ان مراکز کو ڈیلوری پوائنٹس میں تبدیل کر دے جہاں سے راشن کارڈ کو ٹے پر مستحق لوگ باعزت طریقے سے اشیائے خورونوش حاصل کر سکیں۔ لاکھوں کروڑوں غریب عوام کیلئے مفت یا معمولی نرخوں پر اناج کی فراہمی کیلئےحکومت کو اربوں روپے ماہوار چاہئیں جو موجودہ حالات میں کہیں سے دستیاب نہیں ،تاہم سرکاری اخراجات میں کٹوتی اور ترقیاتی کام منجمد کرنے سے مطلوبہ رقم حاصل کی جا سکتی ہے۔ فنڈز کی فراہمی کیلئے تمام بیش قیمت سرکاری گاڑیاں نیلام کر کے افسران کو چھوٹی گاڑیاں دی جانی چاہئیں نیز ان کا ٹی اے ڈی اے اور ماہانہ پٹرول کوٹہ بھی پچاس فیصد کم کر دینا چاہیے۔ پروجیکٹس کے نام پر اضافی مراعات بند کرنی چاہئیں۔ سرکاری افسران کے گھروں پر ایک سے زیادہ اسٹاف پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ اعلیٰ سرکاری افسران کی حفاظت پر مامور حفاظتی گارڈ زکو سرکاری لنگر سے کھانے کی فراہمی بند کر کے متعلقہ افسر کے کچن سے انہیں کھانا فراہم کیا جانا چاہیے۔ وزراءاور افسران کے بے مقصد بیرونی دوروں پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ ایکڑوں میں پھیلی سرکاری رہائش گاہوں کو منہدم کر کے ملٹی اسٹوری فلیٹس تعمیر کیے جانے چاہئیں جن کیلئے فنڈز فالتو قیمتی سرکاری زمینیں فروخت کر کے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ تمام سرکاری املاک میں سولر سسٹم لگانا چاہیے تا کہ گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کی بچت ہو سکے۔ تمام سرکاری افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ یا کسی دوسرے ذریعے سے تعیناتی پر پنشن اور دوسری مراعات کو اس دورانیے کیلئے منجمد کر دیا جانا چاہیے۔ ان تمام تجاویز کا اطلاق کسی ایک صوبے پر نہیں بلکہ پورے ملک کے تمام سرکاری اداروں پر ہونا چاہیے۔ گزشتہ دونوں متعدد محکموں میں قیمتی سرکاری گاڑیاں خریدی گئیں جبکہ ایم پی سکیل سمیت متعدد افسران کی تنخواہوں میں بلا جواز لاکھوں روپوں کا اضافہ کیا گیا جو ملکی خزانے پر سراسر بوجھ ہے۔ ایک طرف مزید قرضوں کیلئے آئی ایم ایف شرائط، بجٹ خسارہ،ترقیاتی اخراجات اور حکومتی خرچے پورے کرنے کیلئے پٹرول و گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جا رہا ہے، تمام گھریلو صارفین کیلئے پانی اور کوڑا اٹھانے کا اضافی ٹیرف لگایا جا رہا ہے، غریب کسان اور ہاری جو کھاد، زرعی ادویات اور بیجوں کی گرانی سے پریشان ہیں انکے آبیانے کی شرح میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے اور یہ سب بوجھ عوام پر ڈالنے کے بعد بھی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ محترمہ مریم صاحبہ کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ شہروں اور دیہات میں گلیوں، نالیوں کی مرمت اور کوڑا کرکٹ کی صفائی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا ان کو سستا آٹا ، گھی اور دالیں چاہئیں ، انہیں بہترین تعلیم اور باعزت روزگار چاہیے، بجلی کے حد سے متجاوز نرخوں سے چھٹکارا چاہیے جس کیلئےحکومت سستے سولر پینل لاکھوں کی تعداد میں غریبوں کوآسان اقساط پر مہیا کرے۔ چیف منسٹر صاحبہ کا ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے شعبے کی ترقی کا عزم قابل تحسین ہے مگر ان کو چاہیےکہ ملک میں آئی ٹی سروسز سے منسلک تمام پرائیویٹ اداروں سے لوگوں کو بلا کر انکی تجاویز پر غور کریں، چند مخصوص لوگوں پر تکیہ نہ کریں۔ فائیو جی سروسز کو پوری طرح رول آؤٹ کرنے سے پہلے ٹیلی کام کمپنیوں اور آئی ٹی سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کی گزارشات سنی جانی چاہئیں اور ان کے تحفظات دور کیے جانے چاہئیں۔ مفت وائی فائی کیلئے بھاری فنڈز اور دوسرے لوازمات کی فراہمی کہاں سے اور کیسے ہو گی اس کے متعلق سی ایم کو بریفنگ لینی چاہیے۔ ہمارے ملک کی گنتی کی چند یونیورسٹیاں آئی ٹی میں اچھی تعلیم دے رہی ہیں اور ان تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل بچے بھی بڑی تعداد میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں ان حالات میں دنیا کی بڑی کمپنیاں ٹرینڈ ورک فورس اور مناسب انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی میں ہمارے ملک میں کیسے آپریشن شروع کر سکتی ہیں۔ ہمیں اپنے ملک میں تعلیم کا معیار بہتر بنانا ہو گا، بیرونی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا ہو گی اور ملک میں موجود آئی ٹی سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو کچھ مراعات کے عوض ینگ گریجویٹس کو انٹرن شپ اور ٹریننگ دینے پر آمادہ کرنا ہو گا۔ آخر میں وزیراعلیٰ صاحبہ سے گزارش ہے کہ پولیس تھانوں، ہسپتالوں وغیرہ کے دوروں اور افسران کی دوڑیں لگوانے کی ضرورت نہیں، خوشامدی نالائق اور کرپٹ لوگوں کے حصار سے نکل کر ایک غیر سیاسی اچھی ٹیم تشکیل دے کر خود اپنے دفتر بیٹھیں اور اپنے وزراءاور ماتحتوں سے مضبوطی سے کام لیں۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)