• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: مریم خان

ملبوسات: عکس گارمنٹس

آرایش: Sleek beauty salon by Annie

کوآرڈی نیشن: وسیم ملک

عکّاسی: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

"The Ravenwolf " کے نام سے فیس بُک پر ایک پیج ہے، جس کی تخلیق کار، ریوین ولف نامی ایک خاتون ہیں اور اِس پیج کی99فی صد پوسٹس نہ صرف خواتین سے متعلقہ بلکہ خواتین کے لیے خاصی موٹیویشنل بھی ہوتی ہیں۔ پیج کے2.7 ملین فالورز ہیں اور اِس کی وجہ غالباً صرف ایک ہے کہ پیج کی مصنفہ کےپیش کردہ اقوال (اوراُن سے متعلق وضاحتی تحریریں) غم زدہ سے غم زدہ، مُردہ دل سے مُردہ دل خاتون کو بھی ایک بار جی اُٹھنے پر مائل کرتے، ایک نئی ہمّت، اُمنگ و ترنگ دے جاتے ہیں۔ 

یوں تو ریوین ولف کی کئی ای بُکس آن لائن موجود ہیں، لیکن خاص طورپرنئی کتاب "Strong Woman Arisen" کا تو موضوع ہی عورت کی وہ ہمّت و طاقت ہے، جس سے خُود عورت بھی ناواقف ہے۔ لیجیے، ذرا ’’دی ریوین ولف‘‘ صفحے پر موجود کچھ اقوال آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ’’وہ واحد ہستی، جس کی آپ سے متعلق رائے سو فی صد درست اور ہر قسم کے تعصّب سے پاک ہوسکتی ہے، وہ آپ خُود ہیں، تو اپنے لیے ہمیشہ اپنا دل ہر ممکنہ حد تک نرم و گداز رکھیں۔‘‘،’’کبھی کبھی زندگی وہ کچھ نہیں دیتی، جس کی تمنّا ہوتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ تم اُس کے حصول کے قابل نہیں بلکہ درحقیقت تم اُس سے کہیں زیادہ کی مستحق ہو۔‘‘،’’مجھےاپنا آپ منوانے کے لیے کسی سے مذاکرات کی ضرورت نہیں۔

مَیں ہمیشہ سے اپنا ایک وجود رکھتی تھی، رکھتی ہوں اور اگر کوئی میری ہستی تسلیم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، تویہ میرا نہیں، اُس کا قصور ہے۔‘‘، ’’تمہیں سب کچھ بھول کےآگے بڑھنا ہے اور یہ تب تک ممکن نہیں، جب تک تمہارا دل یہ بات سمجھ نہ لے کہ اب واپس مُڑنا ممکن نہیں۔‘‘، ’’مَیں نے اپنی زندگی کی کہانی خُود منتخب نہیں کی، بلکہ اُس کہانی نے اپنے لیے میرا انتخاب کیا ہے۔‘‘، ’’جو سوچتے تھے کہ مَیں بس ایک سخت چٹان سے ٹکرائی اور ختم ہوگئی۔ 

مَیں اُن ہی کو یہ بتانے کے لیے کہ مَیں کتنی مضبوط تھی اورمَیں نےخُودکو کیسے مجتمع کیا، آج اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالےکھڑی ہوں۔‘‘، ’’ایک عورت ہی جنگجو آنکھیں، کبھی نہ تھکنے والا دل اور فولادی عزم رکھ سکتی ہے۔‘‘، ’’زندگی کہتی ہے، ’’بےشک، تم بہت خُوش رہوگی، مگر پہلے مَیں تمہیں مضبوط بنائوں گی۔‘‘، ’’وہ گرتی ہے، ٹوٹتی،بکھرتی،ریزہ ریزہ ہوتی ہے، چیختی چلاتی، سخت رنجیدہ ہوتی ہے، ہتھیارڈالتی ہے، لیکن…وہ پھر سے کِھل بھی اُٹھتی ہے۔‘‘، ’’جب تم اپنےلیےلڑتی نہیں ہو، تو تم اپنےاندر مرجاتی ہو، مگر جب تم ایک بار اپنے لیے لڑنے کا فیصلہ کر لیتی ہو، تو پھراپنے پورے وجود کے ساتھ جی اُٹھتی ہو۔‘‘، ’’وہ بہت خطرناک ہے، اِس لیے کہ وہ جانتی ہے کہ ہزار بار گِر کے بھی کیسے اُٹھنا ہے۔ 

یہاں تک کہ چٹان کی تہہ بھی اُس کانام جانتی ہے،کیوں کہ وہ ٹُوٹ کے گرنے سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوتی۔‘‘، ’’ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی کی کتاب کاصفحہ پلٹنا کس قدر خوش کُن تجربہ ہے، بہ نسبت اس کے کہ ایک ہی صفحے پرانگلی رکھے بیٹھے رہیں۔‘‘، ’’تب مٹّی کی مُورتی کی طرح کھڑی نہ رہو، جب تمہارا دل، تم سے کہے کہ تم تو اُڑ سکتی ہو۔‘‘، ’’مانا کہ اُس صفحے کو پلٹنا بہت مشکل ہے، جس کے بعد پتا ہو کہ اب اگلے چیپٹر میں یہ کردار نہیں ہوگا، لیکن کہانی کو تو بہرحال آگے بڑھناہی ہوتا ہے۔‘‘، ’’ ایک مضبوط عورت کبھی اپنے معیارات سے نیچے نہیں آتی، کبھی اپنی تضحیک برداشت نہیں کرتی اوراُس سےکم پر کبھی آمادہ نہیں ہوتی، جس کی وہ درحقیقت مستحق ہے، کیوں کہ وہ کوئی عام عورت نہیں۔‘‘، ’’مَیں کبھی اس بات کےلیےمعذرت خواہ نہیں ہوسکتی کہ مَیں، مَیں کیوں ہوں۔ 

مَیں جیسی بھی ہوں، خُود کوبہت پسندہوں۔‘‘، ’’عورت کی جرأت وہمّت، اُس کےسرکا تاج ہے،جسے ہمیشہ کسی ملکہ کی طرح بڑےفخرسے پہننا چاہیے۔‘‘، ’’بےشمار مضبوط ومستحکم، خودمختارعورتوں کے پیچھے ایک بہت ڈرپوک لڑکی کا ماضی دفن ہوتا ہے، جس نے گرنے کے بعد خود اُٹھنا اور پھر کبھی کسی پر انحصار نہ کرنا سیکھا۔‘‘، ’’اپنے لیے ہمیشہ کسی ایسے شخص کا انتخاب کرو، جو تمہاری چھوٹی چھوٹی باتوں، حماقتوں سے پیار کرتا ہو، نہ کہ کسی ایسے شخص کا، جو تمہیں ہمیشہ ایک ’’مکمل عورت‘‘ کے رُوپ میں چاہے۔‘‘، ’’مَیں کل جو عورت تھی، اُس نے مجھے اُس عورت سے متعارف کروایا، جو مَیں آج ہوں اور اب مَیں اُس عورت سے ملنے کے لیے بہت پُرجوش اور بے تاب ہوں، جس سے مَیں آنے والے وقت میں ملنے والی ہوں۔‘‘

معاف کیجیے گا، ماہِ مارچ ’’عورت ماہ‘‘ ہونے کے سبب اعصاب پرکچھ اس قدر سوار ہوگیا ہے کہ آج تو سارا رائٹ اَپ ’’عورت نامہ‘‘ ہی بن کے رہ گیا۔ ایک ہی نشست میں اتنے بہت سے ارشادات اوروہ بھی عورت کو تھوڑی شہہ دینے والے، پڑھ کے حضرات کا ہاضمہ ہی خراب نہ ہوجائے۔ تو چلیں، اِس بزم کی بات کیے لیتے ہیں،جوخواتین کےرنگارنگ ملبوسات و لوازمات سے سجی دیکھ کر بھی اِک ’’وجودِ زن‘‘ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ 

ہلکی پھلکی سردی کی مناسبت سے کھدّر کے تھری پیس فیروزی کام دار پہناوے کا انتخاب کیا گیا ہے، تو عنّابی رنگ میں فاختیٔ رنگ کی آمیزش لیے لینن کا میشنی کڑھت سے آراستہ حسین پہناوا ہے۔ سفید رنگ میں کھاڈی نیٹ فیبرک پر حسین ایمبرائڈری کا جلوہ ہے، توسیاہ وسفید کے سدا بہار کامبی نیشن میں بھی ایک دل کش انداز ہے۔ آسمانی رنگ کے ساتھ نیوی بلیو کا کنٹراسٹ لیے ایمبرائڈری اورلیس ورک سےمرصّع حسین پہناوا ہے، تو ہلکے سبز رنگ کے میچنگ سیپریسٹس کے ساتھ چُنری دوپٹّے کی ہم آمیزی کا بھی جواب نہیں۔

سرما کے جاتے قدموں کے ساتھ، آمدِ بہاراں کی ہلکی پُھلکی چاپ بھی سُنائی دینے لگی ہے۔ اور سال بھرجس رُت کا بڑی بےصبری سے انتظار کیا جاتا ہے، اُس کا استقبال شایانِ شان نہ ہو، کیسے ممکن ہے۔ وہ شاہد جمیل نے کہا ہے ناں کہ ؎ زرد پتّوں کے تصوّر سے ڈری رہتی ہے.....دل کے گلشن میں کوئی سبز پَری رہتی ہے.....موسمِ درد میں ہر پیڑ بکھر جاتا ہے..... اِک اُمید کی وہ شاخ ہری رہتی ہے..... وقت کی دھوپ، تپش لاکھ اُگالے دل پر..... ایک گوشے میں مگر تھوڑی تَری رہتی ہے..... فکرِ محبوب، غمِ دنیا، خیالِ مسجود..... بےخُودی ایسے مسائل سے بَری رہتی ہے..... ٹُوٹتا رہتا ہے کمرے میں اندھیرا شاہد..... دھوپ دیوار کے اُس پار دھری رہتی ہے۔ خواتین کا مہینہ، بہار کی دستک اور ایک سے بڑھ کر ایک ایک پہناوا..... تو پھر ’’عورت نامہ‘‘ تو بنتا ہی تھا ناں!!