• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآنِ کریم میں ذکر: سورۃ القمر، قرآنِ کریم کی 54ویں سورت ہے۔ جس کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ: ’’قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔‘‘ یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قیامت کی گھڑی، جس کے آنے کی تم لوگوں کو خبر دی جاتی رہی ہے، قریب آلگی ہے اور نظامِ عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہوگیا ہے اور اب وہ دن دُور نہیں کہ جب قیامت کے دن سارے سیّارے اور ستارے ریزہ ریزہ ہوجائیں گے، لیکن اس کے باوجود ’’اُن لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں، تو منہ پھیر لیتے ہیں اورکہہ دیتے ہیں کہ یہ تو وہ جادو ہے، جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔‘‘ (سورۃ القمر، آیت2)۔

معجزئہ شقّ القمر کا ظہور: مشرکینِ مکّہ، آنحضرت ﷺ کو اذیت دینے کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے اورالٹے سیدھے مطالبات کرتے رہتے تھے۔ آپؐ اُن کے ہر وار کو ناکام بناتے اور اُن کے ہر سوال کا تسلّی بخش جواب دیتے کہ کسی طرح یہ توحید کی دعوت قبول کرلیں۔ ہجرت سے پانچ سال پہلے کی بات ہے کہ کفّار کے سرداروں کا یہ ٹولہ، حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ’’آپؐ ہمیں اپنی نبوت کی کوئی نشانی دکھائیں، تو ہم آپؐ پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘ ابھی سرورِ کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی جواب بھی نہ دے پائے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’اے محمدؐ! ﷺ آپؐ ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اس وقت یہ لوگ چلے جائیں اور دوبارہ فلاں رات کو آئیں، تو اُس رات کو وہ ایسی نشانی دیکھیں گے، جسے دیکھ کر انہیں آپؐ کی سچّائی کا قائل ہونا پڑے گا۔‘‘ چناں چہ آنحضرت ﷺ نے اُن لوگوں سے یہی بات فرمادی۔ 

اُس روز وہ سب واپس چلے گئے، لیکن مقرر کردہ رات وہ سب پھر حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا سابقہ مطالبہ دُہرایا۔ اس رات آپؐ منیٰ میں تشریف فرما تھے، قمری مہینے کی چودھویں شب تھی، چاندنی رات کا مکمل چاند پوری آب و تاب کے ساتھ آسمانِ کائنات پر نمودار ہوا۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد سوم، صفحہ137)۔ حضرت انسؓ بن مالک نے بیان کیا کہ کفارِ مکّہ نے نبی کریم ﷺ سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا، تو نبی کریم ﷺ نے انہیں چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھا دیئے، یہاں تک کہ انہوں نے حرا پہاڑ کو اُن دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں دیکھا۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر3868)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے ’’جس وقت چاند کے دو ٹکڑے ہوئے، تو ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ منیٰ کے میدان میں موجود تھے۔ آپؐ نے اُس وقت فرمایا، ’’لوگو! گواہ رہو‘‘ اور چاند کا ایک ٹکڑا دوسرے سے الگ ہوکر پہاڑ کی دوسری طرف چلا گیا۔(صحیح بخاری، 3636,3869)۔

باہر سے آنے والوں سے تصدیق: اتنے عظیم الشّان معجزے کے ظہور کے بعد بھی کفّارِ قریش نے اس پر یقین نہیں کیا اور اسے جادو قرار دیتے ہوئے اپنی اِعراض کی روش برقرار رکھی۔ اُن کی اس ہٹ دھرمی پراس سورئہ مبارکہ میں انہیں ملامت کی گئی ہے۔ کلام کے شروع میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’یہ لوگ نہ سمجھانے سے مانتے ہیں، نہ تاریخ سے عبرت حاصل کرتے ہیں، نہ آنکھوں سے صریح نشانیاں دیکھ کر ایمان لاتے ہیں، بلکہ نشانیاں دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک معمولی جادو کا کرشمہ ہے، جس کی مدد سے ہماری نظر بندی کردی۔ یہ جادو ہم پر تو چل گیا، لیکن دنیا پر نہیں۔ 

باہر سے لوگوں کو آنے دو، اُن سے پوچھیں گے کہ یہ واقعہ انہوں نے بھی دیکھا ہے یا نہیں؟‘‘ کفارِمکّہ نے جب باہر سے آنے والے مسافروں سے اس بات کی تحقیق کی، تو سب کا کہنا تھا کہ ’’ہاں، ہم نے بھی چاند کے دو ٹکڑے ہوتے، ایک دوسرے سے دُور جاتے اور پھر آپس میں ملتے ہوئے دیکھاہے۔‘‘ اتنی زیادہ شہادتوں کے باوجود وہ اپنی ضد پر قائم رہے اور اس کُھلے معجزے کو جادو سے تشبیہ دیتے رہے۔

احادیث کی کتب میں تصدیق: معجزئہ شقّ القمر کا یہ واقعہ بخاری، مسلم، ترمذی، احمد، ابودائود، طبرانی اور ابنِ جریر سمیت تمام حدیث کی کتب میں بکثرت سند کے ساتھ موجود ہے، جن میں صحابۂ کرام، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت حذیفہؓ، حضرت جبیر بن مطعمؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا ہے۔ اُن میں سے تین صحابی، یعنی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت حذیفہؓ اور حضرت جبیربن مطعمؓ تصریح کرتے ہیں کہ وہ اس واقعے کے عینی شاہد ہیں اور دو صحابی ایسے ہیں کہ جو اُس واقعے کے عینی شاہد نہیں ہوسکتے، کیوں کہ اُن میں سے ایک یعنی حضرت عبداللہ بن عباسؓ اُس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے اور دوسرے یعنی حضرت انس بن مالکؓ اُس وقت کم عُمر تھے، لیکن چوں کہ یہ دونوں حضرات صحابہ رسولؐ ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسے عُمر رسیدہ صحابیوںؓ سے سُن کر ہی اسے روایت کیا ہوگا، جو اس واقعے کا براہِ راست علم رکھتے تھے۔ (تفہیم القرآن 229/5)۔

قُربِ قیامت کی بڑی نشانی: سورۃ القمر کی ابتدا ہی اللہ تعالیٰ نے معجزئہ شقّ القمر کو قُرب قیامت کی نشانی بتاکر کی ہے۔ خود نبئ مکرم ﷺ کا دنیا میں تشریف لانا، قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اللہ ذوالجلال نے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول مبعوث فرمائے اور سب سے آخرمیں امام الانبیاء، حضور نبی کریمﷺ کو نبئ آخر الزماں کی حیثیت سے مبعوث فرماکر یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم فرمادیا۔ 

حضرت انسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’میرا دنیا میں آنا اور قیامت، اس طرح ملے ہوئے ہیں، جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں (شہادت اور بیچ کی انگلی)، (صحیح بخاری، حدیث 6504، 6505)۔ ڈاکٹر اسرار احمد سورۃ القمر کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضوراکرمؐ کی بعثت کے بعد اب قیامت بالکل سامنے ہے۔ 

حضرت اسرافیل اپنے منہ کے ساتھ صور لگائے بالکل تیار کھڑے ہیں، بس اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک اشارے کی دیر ہے۔ جونہی اشارہ ہوگا، وہ صور میں پھونک ماریں گے۔‘‘ قُربِ قیامت کے اس مفہوم کو سورۃ المعارج میں یوں بیان کیا گیا ہے، ترجمہ: ’’یہ لوگ تو قیامت کو بہت دُور سمجھ رہے ہیں، جب کہ ہم اِسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں۔‘‘ (بیان القرآن، 7/67)۔

معجزئہ شقّ القمر پر کم عقلوں کا اعتراض: مکّہ مکرّمہ میں باہر سے آنے والے مسافروں کی شہادت اور تصدیق کے باوجود ایک طبقہ ایسا بھی تھا، جو اپنے شبے کا اظہار تو کرتا رہا، لیکن آج تک کسی عقلی دلیل سے شقّ القمر کا محال اور ناممکن ہونا ثابت نہ کرسکا۔ ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا رہا کہ اگر ایسا عظیم الشّان واقعہ پیش آیا ہوتا، تو پوری دنیا کی تاریخ میں اس کا ذکر ہوتا، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ مکّہ معظمہ میں رات کے وقت پیش آیا، اُس وقت بہت سے ممالک میں دن ہوگا، وہاں اس واقعے کے نمایاں اور ظاہر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور بعض ممالک میں نصف شب اور آخر شب میں ہوگا، جس وقت عام دنیا سوتی ہے اور جاگنے والے بھی تو ہر وقت چاند کو نہیں تکتے رہتے۔ 

زمین پر پھیلی چاندنی میں اس کے دو ٹکڑے ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، جس کی وجہ سے کسی کی اس طرف توجّہ ہوتی۔ پھر یہ تھوڑی سی دیر کا قصّہ ہے۔ روزمرّہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی مُلک میں چاند گہن ہوتا ہے، لیکن پہلے سے اس کی اطلاع ہونے کے باوجود ہزاروں، لاکھوں افراد اس سے بالکل بے خبر رہتے ہیں اور اُنھیں کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔ تو کیا اس کی یہ دلیل بنائی جاسکتی ہے کہ چاند گہن ہوا ہی نہیں۔ اس لیے دنیا کی عام تاریخوں میں مذکور نہ ہونے کی وجہ سے اس واقعے کی تکذیب ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی مشہورو مستند ’’تاریخِ فرشتہ‘‘ میں اس کا ذکر موجود ہے کہ ہندوستان میں مہاراجا مالا بار نے یہ واقعہ بچشمِ خود دیکھا اور اسے اپنے روزنامچے میں لکھوایا، اور یہی واقعہ ان کے مسلمان ہونے کا سبب بنا۔ (معارف القرآن، جلد8،صفحہ 227)۔

بادشاہ مسلمان ہوگیا: ’’تاریخِ فرشتہ‘‘ کے مصنّف، ملّا محمد قاسم تحریر کرتے ہیں کہ ’’تیسری صدی ہجری کے شروع میں کچھ عرب تاجر سمندر کے راستے کشتی پر سری لنکا جارہے تھے کہ راستے میں شدید طوفان کی وجہ سے راستہ بھول کر جزائر مالابار جاپہنچے۔ اُس زمانے میں وہاں کا حاکم ’’سامری‘‘ نام کا ایک شخص تھا۔ اسے اپنے علاقے میں مسلمانوں کے آنے کا علم ہوا۔ سامری نے مسلمانوں سے متعلق یہودی اور عیسائی سیّاحوں اور تاجروں سے سن رکھا تھا۔ چناں چہ اُس نے انہیں بلا بھیجا اور اسلام سے متعلق جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ مسلمانوں نے پہلے اسلامی تعلیمات اور پھر پیغمبرِ اسلامؐ سے متعلق تفصیلاً بتایا۔ ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کے معجزات کا بھی ذکر کیا۔ 

دورانِ گفتگو واقعہ شقّ القمر کا بھی ذکر آیا، جسے سُن کر بادشاہ نے کہا، ’’ذرا ٹھہرو، ہم تمہاری صداقت کا ابھی امتحان لیتے ہیں۔ ہماری بادشاہت کا یہ دستور ہے کہ دنیا میں جو بھی اہم واقعہ پیش آتا ہے، ہم اُسے تحریر کرواکر شاہی خزانے میں محفوظ کروادیتے ہیں۔‘‘ چناں چہ اس نے فوری طور پر اس سال کا پرانا رجسٹر طلب کروایا۔ اس کے مصاحب، ورق گردانی میں مصروف ہوگئے۔ جس تاریخ کو شقّ القمر ہوا تھا، وہ پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ رجسٹر میں درج تھا۔ چناں چہ سامری مسلمان ہوگیا اور اپنا تخت و تاج چھوڑکر مسلمانوں کے ساتھ عرب چلاگیا۔ (تاریخِ فرشتہ، 489/2)۔

برصغیر کی پہلی مسجد: روایت میں ہے کہ مالابار کا راجا چیرامان پیرومل (راما وریا) ایک رات کسی پریشانی کی بِنا پر اپنے محل کی چھت پر ٹہل رہا تھاکہ اچانک اس نے دیکھا کہ چودہویں کا پورا چاند دو ٹکڑوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے دُور ہوگئے اور کچھ دیر بعد پھر آپس میں مل گئے۔ راجا بڑا حیران ہوا، اُس نے اس کا سبب معلوم کرنے کے لیے اپنی حکومت کے لوگوں کو دوڑایا، چناں چہ اُسے معلوم ہوا کہ مُلکِ عرب میں مسلمانوں کے نبی ﷺ نے اپنی انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کردیئے۔ 

راجا اس واقعے کا چشمِ دید گواہ تھا، وہ اس عجیب و غریب واقعے کی مزید کھوج لگانے کے لیے مکّہ مکرّمہ پہنچ گیا۔ اور پھرجب آنحضرت ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، تو اس کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ اُس نے آنحضرتﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا اور اپنا نام تاج الدین رکھ لیا۔ اس کا انتقال، مکّہ مکرّمہ میں قیام کے دوران یمن کے شہر صلاتہ کے مقام پرہوا۔ انتقال سے پہلے اس نے اپنے جانشین کو ایک خط تحریر کیا، جس میں لکھا کہ حضرت مالک بن دینارؒ کی مدد سے نیگنور کیرالہ میں ایک مسجد تعمیر کروائو۔ 

یہ مسجد ،چیرامان جامع مسجد کے نام سے مشہور ہے، جسے برصغیر کی پہلی مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت مالک بن دینار پہلے تابعی ہیں، جو تبلیغِ دین کے لیے ہندوستان کے شہر کیرالہ پہنچے۔ یاد رہے، مملکتِ اسلامیہ کے جوہری بم اور میزائل پروگرام کے خالق، نام وَر ایٹمی سائنس دان، ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم نے 22جولائی 2009ء ، 14اکتوبر2009ء اور 31مارچ 2010 ء کے روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے اپنے مقبول کالم ’’سحر ہونے تک‘‘ میں مختلف مستند حوالہ جات کے ساتھ اس عظیم معجزے اور مسجد چیرامان کے تعلق سے ایمان افروز، تفصیلی مضامین تحریر کیے ہیں۔