• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واقعۂ فیل، ایک معجزہ: اصحابِ فیل کا واقعہ، امام الانبیاء سیّدالمرسلین، رحمۃ للعالمین، حضور رسالتِ مآب، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادتِ باسعادت سے50 یا 55 دن قبل ماہِ محرم 571 عیسوی، فروری کے اواخر یا مارچ کے اوائل میں پیش آیا۔ یہ درحقیقت ایک تمہیدی نشانی تھی، جو اللہ نے اپنے نبیؐ اور کعبۃ اللہ کے لیے ظاہر فرمائی تھی۔ بیت المقدس اُس دَور میں اہلِ اسلام کا قبلہ تھا، وہاں کے باشندے مسلمان تھے۔

اس کے باوجود اس پر مشرکین قابض ہوچکے تھے۔587ق۔م میں بخت نصر اور70عیسوی میں اہلِ روما، بیت المقدس پر مسلّط ہوچکے تھے، لیکن اس کے برخلاف کعبے پر عیسائیوں کا تسلّط نہ ہوسکا، حالاں کہ اُس وقت یہی مسلمان کہلاتے تھے اور کعبے کے باشندے مشرک تھے۔ (رحیق المختوم، صفحہ 79) کعبے کی حفاظت کی ذمّے داری اللہ ربّ العزت نے خود لی تھی۔ 

یہی وجہ ہے کہ بیت اللہ کو مسمار کرنے کی نیّت سے آنے والے کفّار کے لشکر کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے کنکروں کی صُورت عذابِ الٰہی نازل فرماکر تہس نہس کردیا۔ محدّثین نے آنحضرتﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عبرت ناک واقعے کو معجزئہ عظیم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی105ویں سورہ ’’سورۃ الفیل‘‘ میں اس واقعے کو مختصراً بیان فرمایا ہے۔ سورۃ الفیل، مکّہ مکرّمہ میں نازل ہوئی، اس میں پانچ آیات ہیں۔ ہم یہاں معروف محدّثین کی شہرئہ آفاق کتب سے استفادہ کرتے ہوئے اس واقعے کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔

یمن پر ابرہہ کا قبضہ: یہ 525عیسوی کی بات ہے کہ جب مُلکِ یمن پر یہودی فرماں روا ذُونُواس حکم ران تھا۔ علّامہ ابنِ کثیرؒ نے اسے مشرک لکھا ہے۔ یہ شخص نصرانیوں سے بڑی نفرت کرتا تھا۔ محدثین لکھتے ہیں کہ اُس شخص نے یمن کے شہر ،نجران سے ایک طویل خندق کُھدواکر اُسے آگ سے بھردیا اور تمام نصرانیوں کو زندہ خندق میں ڈال کر جلادیا، جن کی تعداد بیس ہزار کے قریب تھی۔ (معارف القرآن، 817/8) مسیحیوں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے حبشہ کی عیسائی سلطنت نے قسطنطنیہ کی رومی حکومت کے ساتھ مل کر یمن پر حملہ کردیا۔ اس لڑائی کے لیے رومیوں نے بحری بیڑا فراہم کیا، جب کہ ملکِ حبشہ کی 70 ہزار فوج، یمن کے ساحل پر اُترکر یمن پر قابض ہوگئی۔ 

مصر و شام پر قابض رومی سلطنت کی کوشش یہ تھی کہ مشرقی افریقا سے ہندوستان، انڈونیشیا اور مشرق کے اُن تمام دُور دراز کے علاقوں سے، جن کی تجارت پر عرصۂ دراز سے عرب قابض تھے، عربوں کو نکال کروہاں اپنا مکمل غلبہ حاصل کرلیں۔ اسی مقصد کے تحت رومیوں نے حبشہ کی عیسائی حکومت سے گٹھ جوڑ کیا اور بحری بیڑے سے اُس کی مدد کرکے اسے یمن پر قابض کروادیا۔ 

حافظ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں کہ یمن پرحملہ دو کمان داروں کی زیرِ قیادت کیا گیا تھا، جن میں سے ایک کا نام ’’ابرہہ‘‘ اور دوسرے کا ’’آریاط‘‘ تھا، لیکن پھر یہ دونوں آپس میں لڑ پڑے۔ مقابلے میں آریاط مارا گیا اور ابرہہ ملک پر قابض ہوگیا۔اس کے بعد اُس نے شاہِ حبشہ کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اُسے یمن میں اپنا نائب مقرر کردے۔ یہ شخص رفتہ رفتہ یمن کا خود مختار بادشاہ بن گیا۔ مگر اس نے شاہِ حبشہ کی برائے نام بالادستی تسلیم کررکھی تھی اور خود کو مفوّض الملک، یعنی نائب شاہ لکھتا تھا۔ (تفہیم القرآن، 463/6)۔

حج کے لیے کلیسا کی تعمیر: ابرہہ کو خانۂ کعبہ میں ہونے والے حج سے عداوت تھی، چناں چہ اس نے یمن کے شہر ’’صنعاء‘‘ میں سونے، چاندی اور جواہرات سے مرصّع ایک عظیم الشّان کلیسا بنوایا۔ یہ اُس وقت دنیا کی سب سے خُوب صورت اور حسین عمارت تھی۔ ابرہہ نے لوگوں کو زبردستی مجبور کیا کہ وہ خانۂ کعبہ جانے کے بجائے اس کلیسا میں عبادت کریں۔ عربوں کو جب ابرہہ کی اس ناپاک جسارت کی اطلاع ملی، تو ان میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی۔

بنوکنانہ کے ایک شخص نے رات کی تاریکی میں کلیسا کے اندر جاکر اس کی دیواروں اور عبادت کی جگہ پر نجاست مل دی۔ ابرہہ کو جب صبح اس کا عِلم ہوا، تو وہ غصّے سے پاگل ہوگیا اور اس نے خانۂ کعبہ کو ڈھانے کا فیصلہ کرلیا۔ ابرہہ نے بادشاہ نجاشی سے اجازت مانگی، اس نے اپنے خاص اور کوہ پیکر ہاتھی ’’محمود‘‘ سمیت آٹھ دیگر طاقت وَر ترین ہاتھیوں کو ابرہہ کے پاس بھیج دیا۔ مقصد یہ تھا کہ بیت اللہ کے ستونوں میں لوہے کی مضبوط اور طویل زنجیریں باندھ کر ان زنجیروں کو ہاتھیوں کے گلے میں باندھ دیں اور انھیں ہنکادیں، تو سارا بیت اللہ فوراً زمین پر آرہے گا۔

مکّہ مکرّمہ کی جانب پیش قدمی: ابرہہ ساٹھ ہزار فوج کے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ بیت اللہ شریف کی جانب روانہ ہوا۔ فوجی لشکر کے آگے نو یا بارہ قوی ہیکل ہاتھیوں کا ریوڑ تھا، جس پر ماہر ترین تیر انداز سوار تھے۔ درمیان میں شاہ نجاشی کے خاص ہاتھی ’’محمود‘‘ پر ابرہہ غرور و تکبّر سے سرشار، ریشم و کم خواب کے گدّوں پر براجمان اللہ کے گھر کو ڈھانے کے لیے نکلا۔ اہلِ عرب نے ایک جنگو ’’ذونفر‘‘ کی قیادت میں ابرہہ کے خلاف مزاحمت کی، لیکن اللہ تعالیٰ نےاپنے گھر کی خود حفاظت فرماکر رہتی دنیا تک کے لیے باطل قوتوں کو پیغام دینا تھا، چناں چہ اہلِ عرب ناکام ہوئے اور ’’ذونفر‘‘ کو قید کرلیا گیا۔ 

راستے میں قبیلۂ خثعم کے مقام پر قبیلے کا سردار نفیل بن حبیب اپنے قبیلے کو لے کر مقابلے پر آیا، مگر وہ بھی شکست کھا کر گرفتار ہوگیا۔ کفّار کا یہ ’’ٹڈی دل‘‘ طائف کے قریب پہنچا، تو طائف کے رہائشی قبیلے ثقیف کے لوگوں نے اس فوج سے مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ گردوغبار کا یہ طوفان نہایت تیزرفتاری کے ساتھ مکّہ مکرّمہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ بیت اللہ شریف سے آٹھ کلومیٹر دور مذدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادئ مُحسّر پہنچ کر ابرہہ نے پڑائو ڈالنے کا اعلان کردیا۔ 

وادئ مُحسّرمیں خیموں کا شہرآباد ہوگیا۔ ایک وسیع و عریض خیمے میں ابرہہ کا شاہی تخت بچھا دیا گیا۔ لشکر کے لوگ جب فارغ ہوئے، تو انہوں نے دیکھا کہ اطراف میں نہایت خُوب صُورت اور توانا اونٹ چَررہے ہیں۔ یہ قریشِ مکّہ کے اونٹ تھے۔ اُن لوگوں نے تمام اُونٹ اپنے قبضے میں لے لیے۔ اُن ہی میں دو سو اونٹ رسول اللہﷺ کے جدِّامجد اور رئیسِ قریش، حضرت عبدالمطلب کے تھے۔ (البدایہ والنہایہ 123/2)۔

حضرت عبدالمطلب، ابرہہ کے خیمے میں: ابرہہ نے اپنے ایک سفیر حناطہ کو مکّہ مکرّمہ میں قریش کے سرداروں کے پاس بھیجا۔ حناطہ نے مکّہ میں لوگوں سے سرداروں کے بارے میں دریافت کیا، تو سب نے حضرت عبدالمطلب کا پتا دیا۔ حناطہ، حضرت عبدالمطلب سے ملا اور اُنہیں ابرہہ کا پیغام دیا کہ ’’ہم یہاں جنگ کرنے نہیں آئے، ہمارا مقصد خانۂ کعبہ کو ڈھانا ہے۔ اگر تم نے اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی، تو ہم تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔‘‘ ابنِ اسحاقؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ ’’ہم ابرہہ سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن یہ گھر اللہ کا ہے اور اگر وہ اللہ سے جنگ کرنا چاہتا ہے، تو کرکے دیکھ لے کہ پھر اللہ اُس کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔‘‘ حناطہ، حضرت عبدالمطلب کو ابرہہ سے ملانے اپنے ساتھ لے گیا۔ 

ابرہہ، اُن کے قوی ڈیل ڈول اور وجیہ و رعب دار شخصیت سے بڑا مرعوب ہوا، تخت سے نیچے اترکر ان کا استقبال کیا۔ اُنہیں اپنے ساتھ بٹھایا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو یہ کیا چاہتے ہیں؟ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ ’’مَیں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے فوجیوں نے میرے جو اونٹ اپنے قبضے میں لے لیے ہیں، اُنہیں چھوڑ دیں۔‘‘ ابرہہ نے حیران کُن نگاہوں سے حضرت عبدالمطلب کی جانب دیکھا اور گویا ہوا ’’اے مکّہ کے سردار! جب مَیں نے تمہیں پہلی بار دیکھا، تو میں تم سے بڑا مرعوب ہوا اور میری نظر میں تمہاری وقعت و عزت تھی، لیکن تمہاری اس گفتگو نے اسے یک سر ختم کردیا۔ میں تمہارا کعبہ، جو تمہارا دین ہے، ڈھانے آیا ہوں، تمہیں اُس کی فکر نہیں۔‘‘

حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا ’’اے یمن کے بادشاہ! اونٹ میرے ہیں، مجھے اس لیے ان کی فکر ہوئی، جب کہ کعبہ جس کا گھر ہے، وہ خُود اِس کی حفاظت فرمالے گا۔‘‘ ابرہہ نے بڑے تکبّر کے ساتھ کہا ’’اے رئیسِ مکّہ! آج تمہارا خدا اپنے گھر کو ابرہہ کے ہاتھوں سے نہیں بچاسکتا۔‘‘ چناں چہ اس نے فوری طور پر کعبے کی جانب کُوچ کا حکم دے دیا۔ حضرت عبدالمطلب اُس کے خیمے سے نکل کر فوری طور پر خانۂ کعبہ تشریف لائے، جہاں سب قبیلوں کے سردار جمع تھے۔ حضرت عبدالمطلب نے ان سرداروں کے ساتھ بیت اللہ کی چوکھٹ پکڑ کر گریہ و زاری کےساتھ دعائیں کیں۔ 

مشرکین کا یہ معمول تھا کہ ہر مصیبت کے وقت وہ بیت اللہ میں رکھے360 بُتوں کو بُھول کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اللہ ہی کو پُکارتے اور اُسی سے مانگتے تھے۔ اور پھر مہربان ربّ اُن کی دُعائیں قبول فرماتا اور اُن کی حاجات پوری فرمادیتا۔ حضرت عبدالمطلب کو یقین تھا کہ اس مرتبہ بھی اللہ تعالیٰ ان مشرکین سے اپنے گھر کی حفاظت فرمائے گا۔ ربِّ کعبہ کے حضور گریہ وزاری کے بعد حضرت عبدالمطلب اپنی قوم کو ساتھ لے کر مکّہ کے مختلف پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ (سیرت ابنِ اسحاق، 98 تا 103)۔

ابرہہ کے ہاتھی کا اُٹھنے سے انکار: ابرہہ، مکّے کی جانب کُوچ کا حکم دے چکا تھا۔ صبح ہوئی، تو ابرہہ کے لیے خاص ہاتھی، محمود کو خصوصی طور پر آراستہ کیا گیا۔ اسی اثناء میں نفیل بن حبیب، جنھیں راستے سے ابرہہ نے گرفتار کیا تھا، یہ اگے بڑھے اور ہاتھی (محمود) کا کان پکڑ کر سرگوشی میں کہا ’’اے محمود! تُو جہاں سے آیا ہے، وہیں صحیح سالم لوٹ جا، کیوں کہ تُو اللہ کے بلدالامین یعنی محفوظ شہر میں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس کا کان چھوڑ دیا۔ ہاتھی یہ سنتے ہی اپنی جگہ پھیل کر بیٹھ گیا۔ ہاتھی بانوں نے اس کو اُٹھانے کے لاکھ جتن کر ڈالے، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ 

اُسے بڑے بڑے آہنی تیروں سے مارا گیا، اس کی ناک میں لوہے کا آنکڑا ڈال کر اذیت پہنچائی، لیکن وہ پھر بھی کھڑا نہ ہوا۔ لوگوں نے اس کا رُخ یمن کی جانب موڑا، تو فوراً کھڑا ہوگیا۔ ہاتھی بانوں نے اُسے ملکِ شام کی جانب چلانا چاہا، تو چلنے لگا۔ ہاتھی کو تینوں اطراف سے چلایا، تو وہ چلنے لگا، لیکن جیسے ہی اس کا رُخ مکّہ مکرّمہ کی جانب کیا، وہ پھر بیٹھ گیا۔ (معارف القرآن، 820/8)۔

پرندوں کا غول: ابھی یہ پریشانی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ ابرہہ کی فوج کو سمندر کی جانب سے آنے والے بے شمار پرندوں نے گھیر لیا، جن کی چونچوں اور دونوں پنجوں میں چنے یا مسور کی دال کے برابر تین کنکریاں تھیں۔ واقدی کی روایت میں ہے کہ یہ پرندے عجیب طرح کے تھے، جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ کبوتر سے چھوٹے تھے، اُن کے پنجے سرخ تھے۔ پرندوں نے یہ کنکریاں ابرہہ کی فوج پر برسادیں۔ ایک ایک کنکر نے وہ کام کیا، جو ریوالور کی گولی بھی نہیں کرسکتی تھی کہ کنکر جس پر پڑتا، اُس کے بدن کو چھیدتا ہوا زمین میں گھس جاتا۔ یہ عذاب دیکھ کر سب ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ لشکر کے سب لوگ اس موقعے پر ہلاک نہیں ہوئے، بلکہ اطراف کے مختلف راستوں میں بھاگتے ہوئے مرمرکر گرتے چلے گئے۔ 

ابرہہ کو چوں کہ سخت سزا دینا مقصود تھی، تو یہ فوراً ہلاک نہیں ہوا، بلکہ جسم کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا اور اُسے اسی حال میں واپس یمن لایا گیا۔ یہاں تک کہ دارالحکومت صنعاء پہنچ کر اس کا سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بہہ گیا۔ ابرہہ کے ہاتھی، محمود کے ساتھ دو ہاتھی بان وہیں مکّہ مکرّمہ میں رہ گئے، مگر اس طرح کہ دونوں اندھے اور اپاہچ تھے۔ 

محمد بن اسحاق نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ’’مَیں نے دونوں کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ وہ اندھے اور اپاہچ تھے۔‘‘ حضرت عائشہؓ کی بہن حضرت اسماؓ نے فرمایا کہ ’’مَیں نے دونوں اپاہچ اور اندھوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ اصحابِ فیل کے اس عجیب و غریب واقعے نے پورے عرب کے دِلوں میں قریش کی عظمت بڑھادی اور سب ماننے لگے کہ یہ اللہ والے لوگ ہیں، جن کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا۔ (معارف القرآن 821/8)۔

ابابیل کے معنی: یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ابابیل، کسی پرندے کا نام نہیں، اس کے معنی ہیں غول دَر غول، یعنی پرندوں کےجو جُھنڈ کے جُھنڈ یا غول کے غول حملہ آور ہورہے تھے، اُنہیں ’’ابابیل‘‘ کہا گیا ہے۔ (تفسیر مولانا یوسف، صفحہ 1746)۔

پرندوں کا رنگ: امام رازیؒ بیان فرماتے ہیں کہ جو پرندے سمندر کی جانب سے آرہے تھے، ان پرندوں کے بعض جُھنڈ سفید، بعض سبز اور بعض سیاہ تھے۔ چناں چہ جس نے جس رنگ کے پرندے کو دیکھا، وہ بیان کردیا۔ (تفسیرِکبیر، 484/8)۔

کنکریوں کا سائز: کنکریوں کے سائز سے متعلق بھی مختلف روایات ہیں۔ نوفل بن ابی معاویہؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ کنکریاں مسور کے دانے سے بڑی اور چنے سے چھوٹی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ یہ کنکریاں ریٹھ کے برابر تھیں، جب کہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ بکری کی مینگنیوں کے برابر تھیں۔ (سیرت ابنِ اسحاق، صفحہ 105)۔

چیچک، میعادی بخار کی ابتدا: امام ابنِ کثیرؒ اور علامہ محمود آلوسیؒ نے حضرت عکرمہؓ سے روایت بیان کی ہے کہ سرزمینِ عرب میں چیچک کا مرض اسی سال ظاہر ہوا تھا، جب کہ واقعۂ فیل سے قبل چیچک اور میعادی بخار (ٹائیفائیڈ) کے مرض کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ (تاریخِ مکۃ المکرّمہ، محمد عبدالعبود، صفحہ 206)۔