• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

سُود قطعی حرام ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت275،276،278کے علاوہ کئی احادیث میں بھی سُود کی حرمت (مذہب کی رُو سے حرام ہونا) کا بیان موجود ہے- سود کے جہاں اخروی نقصانات ہیں، وہیں دنیاوی نقصانات بھی ہیں۔ اس سے مال میں برکت ختم ہوجاتی ہے، سودی کاروبار کرنے والا تنگ دستی کا شکار ہوجاتا ہے۔ 

معاشرے میں سود لینے دینے والے کی کوئی عزّت نہیں ہوتی، کیوں کہ ان کے خلاف اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا باقاعدہ اعلانِ جنگ ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے، تو تم اللہ اوراُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔‘‘

بلاشبہ، یہ تمام فتنے اور عذاب جو آج کل قوم پر مسلّط ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ سودی نظام بھی ہے۔ زیرِنظر واقعہ پیش آیا، تو اس وقت مَیں خود بھی سودی نظام کے تحت چلنے والے ایک مقامی بینک میں ملازمت کرتا تھا، لیکن اس وقت مجھے اس کا احساس یا ادراک نہیں تھا، مگرپھر جب مجھے سود سے متعلق سخت وعیدیں اور اس ضمن میں مختلف احادیث کا علم ہوا، تو اس ملازمت سے استعفیٰ دے کر کنارہ کشی اختیار کرلی اور اللہ تعالیٰ سے صدق ِ دل سے معافی مانگ کراپنا ایک چھوٹا سا کاروبار کرلیا۔

یہ واقعہ بھی اُن ہی دنوں کا ہے، جب میں بینک سے منسلک تھا۔ میرا ایک مخلص دوست ارشد 1990ء میں مقامی بینک کی مین برانچ میں بطور اسسٹنٹ بھرتی ہوا۔ مَیں اُس وقت گریڈ تھری میں تھا اور کلیئرنگ کا کام کرتا تھا۔ کینٹ اور سٹی ایریا کی تمام برانچز کے چیک اسٹیٹ بینک سے کلیئر کروانا میری ذمّے داری تھی۔ ارشد اگرچہ اکائونٹ اسسٹنٹ تھا، لیکن مختلف شعبوں کے کام میں بھی دل چسپی لیتا اور سیکھنے کی کوشش کرتا، اپنی محنت اور لگن سے اُس نے دیگر کئی امور میں بھی خصوصی مہارت حاصل کرلی۔ 

وہ اپنی استعدادِ کار سے بڑھ کر کام کرنے کی وجہ سے اتنا مقبول ہوگیا کہ ہمیں محسوس ہونے لگا کہ وہ بہت جلد اس بینک میں ریجنل چیف کے عہدے تک پہنچ جائے گا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ نہ جانے کس طرح سودی لین دین میں ملوّث ہوکر سود خوروں کے جال میں بری طرح پھنس گیا۔ اُس زمانے میں میری تن خواہ، ارشد کی تن خواہ سے دگنی تھی اور میرے پاس سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی، جو کبھی کبھار استعمال کرتا تھا۔ ایک روزاُس نے پچاس ہزار روپے میں ایک نئے ماڈل کی چمچماتی موٹر سائیکل خریدی اور مجھے دکھائی، تو بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی قلیل تن خواہ میں اس نے اتنی منہگی موٹر سائیکل کیسے خریدلی۔ 

اُس کا ایک دوست رحمان، سٹی برانچ میں کیشئر تھا، وہ دونوں بینک سے چھٹی کے بعد ایک ساتھ ہی وقت گزارتے۔ انہوں نے بینک کے قریب ہی ایک کمرا کرائے پر لے رکھا تھا۔ اکثر جب دیر سے چھٹی ہوتی، تو وہیں رات گزارتے۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ اُس کا دوست بڑا فضول خرچ اور لاابالی طبیعت کا ہے اور اُس نے ارشد کو بھی اپنے راستے پر لگالیا ہے۔ پھرچند ماہ بعد ارشد نے انکشاف کیا کہ اس نے ایک سوزوکی پک اپ خریدلی۔ مَیں حیران تھا کہ آخر اُس کے پاس اتنی رقم کہاں سے آرہی ہے۔ میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ ایک دن میں نے اُس سے پوچھ ہی لیا۔ ’’ارشد! تمہارے پاس اتنی رقم کہاں سے آرہی ہے، کہیں کوئی فراڈ وغیرہ تو نہیں کررہے۔‘‘ تواس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور روہانسی آواز میں بولا ’’یار! مَیں سود خوروں کے جال میں بری طرح پھنس چکا ہوں۔‘‘ 

یہ جان کر مجھے بہت افسوس ہوا، مَیں نے اُسے اس دھندے سے باز رہنے کی تلقین کی اور سمجھایا کہ اگر تم ان کے چکّروں سے نہ نکلے، تو وہ تمہارے پیچھے بینک بھی آجائیں گے۔ بدنامی الگ ہوگی اورپھر بینک میں پتا چل گیا، تو تمہارے خلاف کارروائی بھی ہوسکتی ہے، نوکری بھی جاسکتی ہے۔‘‘ میری نصیحت آمیز باتیں سن کروہ مایوسی اور بے چارگی سے بولا، ’’مجھے3دن بعد ایک شخص کو تین لاکھ اور دوسرے کو ایک لاکھ اسّی ہزارروپے دینے ہیں۔ جس کے لیے مَیں نے ہاؤس بلڈنگ سے لون کے لیے درخواست دی تھی، جوآج منظور ہوچکا ہے۔ اگلے ماہ کی5تاریخ کو مزید دو لاکھ کا بندوبست کرنا ہے، جس کے لیے اپنا پلاٹ فروخت کردوں گا۔‘‘

وہ ایک بندے سے اگر ایک لاکھ لیتا تھا، توتین چارماہ بعد اسے سود سمیت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے ادا کرنے ہوتے تھے۔ اس طرح اس کا قرضہ بڑھتے بڑھتے پینتالیس لاکھ سے تجاوزکرگیا۔ اتنی بڑی رقم ادا کرنا اُس کے بس میں نہیں رہا، تو اُس نے روپوشی اختیار کرلی۔ ادھر سود خورہر روز پانچ چھے بندے لے کر اس کے گھر پہنچ جاتے، تو محلّے کے لوگ منّت سماجت کرکے کچھ وقت لیتے تھے۔ 

بینک سے بھی مسلسل غیرحاضری کی وجہ سے بالآخراس نے نوکری سے استعفیٰ دے کر گولڈن ہینڈ شیک لے لیا۔ جس سے اسے سترہ لاکھ روپے ملے، لیکن یہ رقم بھی سود کی مکمل ادائی کے لیے ناکافی تھی، پھر اُس نے بیوی کے زیورات، فریج، ٹی وی، واشنگ مشن کے علاوہ موٹر سائیکل اور بیٹی کے جہیز کا سامان تک بیچ ڈالا، مگر سود خوروں کا قرضہ ادا کرنے میں ناکام ہی رہا۔ نوبت فاقوں تک پہنچ گئی، کوئی روزی روزگار نہ رہا، تو مجبوراً ایک ٹھیکے دار کے پاس اسٹیل فکسر کا کام شروع کردیا۔ 

یہاں کام کرتے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ کام کے دوران پیر پھسلنے کی وجہ سے ایسا گرا کہ بستر سے لگ گیا۔ اُس کی بیوی اور بچّے دن رات اُس کی طرف حسرت سے دیکھتے ہیں۔ سود کی لعنت نے اُسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ مَیں ہر نماز کے بعد اُس کے لیے دُعا کرتا ہوں کہ ’’یااللہ اسے معاف فرمادے۔‘‘ (جان محمد خان، دائود زئی، پشاور)