• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے پاکستان میں ترقی کے دروازے کُھل سکتے ہیں

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، آرٹیفیشل انٹیلی جینس آئندہ چند سالوں میں عالمی مالیاتی شیئرز میں 13ٹریلین ڈالرز کا حصّہ ڈال سکتی ہے۔یعنی آنے والے وقت میں ایک مالیاتی انقلاب دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے اور یہ تو ابھی ابتدائی تخمینہ ہے کہ مختلف ممالک میں جس تیزی سے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا استعمال ہو رہا ہے، اُس کے پیشِ نظر اِس تخمینے میں خاصے اضافے کا امکان ہے۔مالیاتی امور کو خودکار بنانا ہو یا فنانشل رپورٹس کی تیاری کا فریضہ سرانجام دینا ہو، یا پھر مارکیٹ رجحانات کی پیش گوئی مقصود ہو، جنریٹیو اے آئی(Generative AI) ہمارے بزنس کے طریقوں میں انقلاب لانے کے لیے تیار ہے۔

اے آئی ٹیکنالوجی، بزنس میں جس تیزی سے انقلاب لا رہی ہے، اس کا شاید پاکستان میں ابھی تک تصوّر تک نہیں، لیکن دنیا بَھر کے ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر ممالک میں اس کے استعمال سے جو ترقّی دیکھی جا رہی ہے، وہ یقیناً حیرت انگیز اور چونکا دینے والی ہے۔ آج دنیا میں جنریٹیو ٹیکنالوجی کا چرچا ہے، جو مکمل طور پر ڈیٹا اور مواد بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس میں غلطی کے امکانات صفر ہیں اور یہ نتائج دینے میں بھی بہت تیز رفتار ہے۔

پاکستان میں اِس جدید ٹیکنالوجی کی ہر سطح پر منتقلی بے حد ضروری ہوچکی ہے کہ حکومت، ادارے اور نوجوان اِس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں تاکہ مُلک اُس بحران سے نکل سکے، جس میں وہ بُری طرح دھنسا ہوا ہے۔ برطانیہ، جو بینکنگ اور فنانشل سروسز کا حب ہے، اپنی گلوبل ریچ مزید بڑھانے کے لیے نئی سے نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتا ہے، جس میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس سرِفہرست ہے۔ 

برطانیہ کے بینکس اربوں ڈالرز کی بیلنس شیٹس رکھتے ہیں اور یہ صدیوں سے دنیا کو اپنی خدمات فراہم کرتے چلے آ رہے ہیں، جب کہ جنریٹیو ٹیکنالوجی اب اسے انقلابی جہت دے رہی ہے۔ مثال کے طور پر فنانشل آٹومیشن ایک بے حد کارآمد ٹُول ہے اور مَیں نے ایسی اسٹارٹ اپس کے ساتھ کام کیا ہے، جو اِسے استعمال کرتے ہوئے کام یابی کے نت نئے ریکارڈ بنا رہی ہیں۔اس میں کمپوزنگ اور ایپس کی بجائے آواز سے اکائونٹس کے لین دین، یعنی ٹرانزیکشنز مکمل کی جاتی ہیں، جو آسان ہے اور اس طرح کام بھی جلد نمٹ جاتا ہے۔ 

اِس میں انسانی مداخلت ان معنوں میں بالکل ختم ہوجاتی ہے کہ صرف آواز کے ذریعے فنانشل پراسس مکمل ہوجاتا ہے اور دوسری طرف کسٹمر کو پے منٹ ہوجاتی ہے۔اِسی طرح رئیل اسٹیٹ میں اگر آپ کو مارگیج لینا ہے، تب بھی اب انسانوں سے بات کرنے کی ضرورت نہیں، آپ کو ایسے خود کار چیٹ بوٹس، یعنی روبوٹس مل جائیں گے، جو پورے عمل میں رہنمائی کریں گے اور کسٹمر کے خصوصی کیسز مدّنظر رکھتے ہوئے مشورے اور ہدایات دیں گے۔ 

بینکنگ اور مالیاتی شعبوں میں کمپلائینس(Complaince) ایک بہت بڑا اور اہم ایریا ہے، کیوں کہ اس ہی کے ذریعے مالیاتی معاملات کو عملی شکل دی جاتی ہے۔ یہ روبوٹس، رولز اور ریگیولیشنز، جنریٹیو اے آئی سے سیکھ سکتے ہیں اور ان کا انٹر فیس، یعنی بات چیت، بالکل انسانوں کی طرح ہے۔گویا، یہ ایریا، آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے نیچرل لینگویج پراسسنگ( Natural language processing) یعنی انسانی قدرتی زبان میں بات کرنے کی سہولت مہیّا کرتا ہے۔

اس میں روبوٹس رہنمائی کرتے ہیں،جن سے آپ انگریزی، اردو یا کسی اور زبان میں بات کرسکتے ہیں، جس سے کسٹمرز کے لیے بات سمجھنا بہت آسان ہوجاتی ہے اور اِس عمل میں انسانی ماہرین کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف انٹرنل سروسز اور ریگیولیٹری سروسز کو بہتر بنائے گی بلکہ صارفین اس کے ذریعے کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ مطلوبہ ضروریات کے مطابق معلومات حاصل کرسکیں گے۔ اُنھیں پیچیدہ سوالات کے جوابات بھی آسان زبان میں میسّر ہوں گے۔یوں ایک طرف کسٹمرز کو ماہرانہ رہنمائی ملے گی، وہیں بھاری فیسز سے بھی نجات مل جائے گی۔

اِس وقت پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں اور عوام میں سخت مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ عوام معاشی مشکلات کا حل چاہتے ہیں اور وہ بھی ایسا، جس کے نتائج اُن تک جلد پہنچ سکیں۔ حکومت چاہے مرکزی ہو یا صوبائی، اُنہیں عوام کو جلد ازجلد ریلیف فراہم کرنا ہے اور ایسا تب ہی ممکن ہوگا، جب مُلکی معیشت درست سمت میں گام زن ہو۔ معاشی بحالی میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس یا جنریٹیو ٹیکنالوجی جیسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت اہم ہوگا، کیوں کہ یہ جلد نتائج دے سکتی ہیں اور ان کے ذریعے حکومتوں کو عوام کے قریب جانے کا بھی موقع ملے گا۔

پاکستان کی ساٹھ فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہاں18کروڑ اسمارٹ فونز لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔نیز، حکومت بھی طلبہ کو بڑے پیمانے پر لیپ ٹاپ فراہم کرتی ہے، لیکن جب تک نوجوانوں کو ان کا درست استعمال نہیں سِکھایا جائے گا، یہ مشق بے کار ہی نہیں، خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ نوجوان پیسے کمانے کے لیے ہر سمت ہاتھ پیر مارتے ہیں اور یہ رویّہ انہیں غلط راہوں پر بھی لے جاسکتا ہے۔پاکستان کے اردگرد کے ممالک جنریٹیو ٹیکنالوجی میں داخل ہوچکے ہیں۔

لہٰذا، پاکستان میں بھی ذرا سی توجّہ سے نوجوانوں کو مُلکی قوّت بنانے کے ساتھ، قوم کو موٹیو ویٹ کر کے ترقّی کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے۔ہمارے حُکم رانوں کو سمجھنا ہوگا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کس طور مُلکی ترقّی کے لیے انقلاب کا باعث ہوسکتی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے بیرونِ مُلک سے اِس ٹیکنالوجی کی پاکستان منتقلی بہت آسان اور سستی ہوگی۔اگر حکومت توجّہ دے، تو برطانیہ میں مقیم پاکستانی اِس سلسلے میں اپنے آبائی مُلک کے نوجوانوں اور ماہرین کی تربیت و رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔

پاکستان کی معیشت بڑھوتری کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ماضی میں اسے شدید دھچکا پہنچا۔ بیڈ گورنینس، مالیاتی شعبوں میں ڈسپلن کی کمی اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا فقدان رہا۔ ان کوتاہیوں سے نجات میں مُلک کے بہت سے معاشی مسائل کا حل مضمر ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بیڈ گورنینس کے باوجود، پاکستان کے مالیاتی شعبوں، خاص طور پر بینکنگ سیکٹر کو بہت فروغ ملا۔بہت سے نئے بینکس کُھلے، جو کام یابی سے چل رہے ہیں، لیکن دوسری طرف، اسٹیٹ بینک نے بیڈ لونز( Bad loans ) کو کنٹرول نہیں کیا۔

پھر بھی اگر جائزہ لیا جائے، تو مُلکی فنانشل سیکٹر اب بھی اچھی حالت میں ہے۔ بڑے بڑے بینکس اچھی خدمات فراہم کر رہے ہیں، اِسی طرح کی مثالیں امریکا، برطانیہ اور یورپ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔یہ ادارے آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے ذاتی سروسز(Personalised)مہیّا کرسکتے ہیں، جیسے چیٹ بوٹ، جو کہ انسانی زبان میں بات کرنے کا ایک طریقہ ہے، اِس سے صارفین کے علم میں رہے گا کہ وہ جو پراڈکٹ استعمال کرنا چاہتے ہیں، وہ اُن کی ذاتی ضرورت کے مطابق ہے کہ نہیں۔

اِس طرح صارفین کے لیے، جو کسی بھی کمرشل ادارے کا سب سے اہم حصّہ ہوتے ہیں،اِس ٹیکنالوجی کا استعمال بہت کارآمد ہے۔پاکستانی بینکس میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے، وہ تقریباً پچاس، ساٹھ سال پرانی ہے، اسے اَپ ڈیٹ کرنا بہت مشکل تھا، لیکن جنریٹیو ٹیکنالوجی نے یہ بھی ممکن بنا دیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی سارا ڈیٹا پڑھ سکتی ہے اور پھر اس ڈیٹا کی بنیاد پر بینکس کی سروسز کو اَپ ڈیٹ کرسکتی ہے۔ یہ ایک اور ایریا ہے، جس سے ہمارے بینکنگ سیکٹر کو فوری اور بہت وسیع فائدہ ہوگا۔

پاکستان کے مالیاتی شعبے میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے حکومت، مالیاتی اداروں اور جامعات میں اشتراک و تعاون بے حد ضروری ہے، وگرنہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے۔مناسب منصوبہ بندی کے فقدان کے سبب ماضی میں کئی پراجیکٹس ادھورے چھوڑنے پڑے، جن پر اربوں ڈالرز خرچ بھی کیے جا چکے تھے، لیکن اب اِس طرح کی غلطیاں دُہرانے کی بالکل بھی گنجائش نہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا شور مچانا اور اسے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا ایک بات ہے، مگر اس کا مالیاتی معاملات میں ٹھوس استعمال بہت عرق ریزی، مہارت، تجربہ اورعزم مانگتا ہے۔اور ایسا سب کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان سوشل میڈیا پر اچھا کام بھی کر رہے ہیں۔

ان کے پاس علم بھی ہے، ہنر بھی اور اُنھیں ان کا استعمال بھی آتا ہے، لیکن ضرورت اِس امر کی ہے کہ ان نوجوانوں کو درست رہنمائی اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔اِس ضمن میں حکومت اور تجارتی اداروں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔انہیں اِس ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر فوکس کرنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع حاصل ہوں۔گویا، حکومت کو انٹرپرنیورشپ کا کردار کرنا ہوگا۔ 

میرا تجربہ ہے کہ آج کے نوجوان کو صرف نوکریاں حاصل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں، وہ اپنے ہم سایہ ممالک میں دیکھ رہا ہے کہ اُنھوں نے کیسے خوش حالی کا نیا دَور شروع کیا۔وہ نئے نئے بزنسز کھولنا چاہتا ہے، فوڈ ڈیلیوری سے لے کر فن ٹیک تک کام کرنا چاہتا ہے، تو حکومت کو ایک طرف بنیادی ڈھانچا، انفرا اسٹرکچر اور قوانین بنانے ہوں گے، تو دوسری طرف، تجارتی شعبے کو سرمایہ بھی فراہم کرنا ہوگا تاکہ نئے نئے مواقع سامنے آئیں۔ اسی سے ہمارے نوجوانوں کو وسیع پیمانے پر نوکریاں ملیں گی، وہ مطمئن ہوں گے، تو تخلیقی کاموں کی طرف جائیں گے، جس سے اُن کی مایوسی دُور ہوگی اور اُن کا مُلک پر اعتماد بھی بڑھے گا۔

آرٹیفیشل انٹیلی جینس ٹیکنالوجی پر کچھ اعتراضات بھی کیے جاتے ہیں۔ایک بڑا اعتراض یہ سامنے آ رہا ہے کہ اس کے استعمال سے انسانی روزگار کے مواقع گھٹیں گے اور ان کی جگہ روبوٹس لے لیں گے۔ پاکستان جیسے بڑے آبادی کے ممالک میں، جہاں پہلے ہی روزگار مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ ٹیکنالوجی تباہی لاسکتی ہے، جہاں آبادی پر کوئی کنٹرول نہیں اور ہر سال روزگار کے نئے مواقع کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔یہ بالکل درست تشویش ہے اور اس کا حل بھی پلان کا حصّہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مختلف اپروچز ہوسکتی ہیں۔مثال کے طور پر اوبر ایک ٹرانسپورٹ ٹیکسی سروس ہے۔

اِسی طرح پانڈا جیسی فوڈ ڈیلیوری کمپنیز ہیں، جو بڑی تیزی سے پاکستان کے ہر شہر اور اب قصبات تک پھیل گئی ہیں۔ اب سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا 1960ء اور1970ء میں ان کمپنیز کا وجود ممکن تھا اور وہ کون سی ٹیکنالوجی ہے، جس کی وجہ سے یہ کمپنیز وجود میں آئیں، کام یاب ہیں اور لاکھوں نوجوانوں کو کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مناسب روزگار فراہم کر رہی ہیں، جو حکومت کے لیے کسی طور بھی ممکن نہیں تھا۔ظاہر ہے، اس کی وجہ وہ ٹیکنالوجی اور ماحول ہے، جس میں یہ سب ممکن ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج سے بیس، تیس سال بعد وہ کمپنیز وجود میں آئیں گی، جن کا آج تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ سب انسانوں کے دماغ، سوچ اور شرکت کے نتیجے ہی سے ممکن ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ انسانی وسائل کی ضرورت تو کسی طرح بھی لازمی ہوگی۔

ہاں، اس کی نوعیت، اسکلز اور تعلیم میں تبدیلی ممکن ہے۔گویا، ٹیکنالوجی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ان تمام خدشات کو ترقّی یافتہ ممالک میں دیکھا بھی جارہا ہے اور ان کے حل بھی تلاش ہو رہے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے مُلک میں اب دیر نہ کی جائے، انہیں اپنایا جائے اور جلد ترقّی کی جائے۔آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے شعبوں کی تن خواہیں دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں، جو ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ اس سے معیارِ زندگی بہتر ہوتا ہے۔آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے متعلق اِس خدشے کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ اس کے الگورتھم( Alogerithms )میں تبدیلی سے بہت سے مسائل جنم لے سکتے ہیں، جو ریاستوں، اداروں اور افراد کے لیے خطرات کا باعث ہوسکتے ہیں۔اس کے ذریعے غلط معلومات یا مالیاتی ہیر پھیر ممکن ہے، جب کہ اسے تعصّب، پراپیگنڈے اور جھوٹ کے فروغ کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 

امریکا، برطانیہ، یورپ، چین اور روس میں اس پر بڑی سنجیدگی سے قانون سازی کی جارہی ہے۔ماہرین کو خاص تربیت دی جارہی ہے تاکہ اس پر گرفت مضبوط ہوسکے اور انسانی معاشرے کو درپیش کسی بھی ممکنہ خطرے کا سدّ ِباب کیا جاسکے۔اِس سلسلے میں سخت اور نئے قوانین بن رہے ہیں، جن میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے بڑے بڑے ادارے اور حکومتیں حصّہ لے رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ عمل میں آچُکے ہیں اور کچھ جَلد سامنے آ جائیں گے۔ پاکستان کی معیشت کے لیے جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا فوری اور وسیع پیمانے پر استعمال لازمی ہے، جس سے مختلف مالیاتی سیکٹرز اور حکومتی شعبوں میں انقلاب آئے گا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اِس سے نوجوانوں کو بہتر روزگار کے مواقع ملیں گے، جس سے مُلک ترقّی کرسکے گا، جو ہر پاکستانی کی خواہش بھی ہے۔

(مضمون نگار، برٹش پاکستانی نوجوان ہیں۔ چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور ڈیٹا سائینٹسٹ ہیں، فناننشل مینجمنٹ، مشین لرننگ اور ایپلی کیشنز کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔آرٹیفشل انٹیلی جینس کے ماہر کے طور پر لندن میں اپنی خدمات مختلف ممتاز بینکس اور فنانشل اداروں کو مہیّا کر رہے ہیں۔نیز، پاکستان کے چارٹرڈ اکائونٹنٹس، مالیاتی ماہرین اور اس فیلڈ کے طلبہ کی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور اِس سلسلے میں ممتاز مالیاتی تربیتی ادارے،’’ انسٹی ٹیوٹ آف چارٹر اکائونٹنٹس آف پاکستان‘‘ کے معاون کی خدمات انجام دے رہے ہیں)