• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد عُمیر جمیل، کراچی

ہر سال 23مارچ کو ’’یومِ پاکستان‘‘ پورے مُلک میں قومی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے اور اس روز مُلک کے طول و عرض میں سرکاری و نجی سطح پر مختلف تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، جن میں مختلف انداز میں تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی شخصیات کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے بیش تر پاکستانی باشندے یومِ پاکستان کے پس پردہ محرّکات سے لاعلم ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آخر23مارچ کو قرار دادِ پاکستان پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور مسلمانانِ ہند کے لیے یہ کس قدر اہمیت کی حامل تھی۔

ہندوستان کے بیش تر مسلمان سیاسی رہنما ہندو مُسلم اتحاد کے حامی اور داعی تھے، لیکن ہندوؤں کے امتیازی سلوک اور کانگریس کے متعصّبانہ اقدامات نے ان رہنماؤں کی سوچ کو یک سَر بدل کر رکھ دیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو بیک وقت دو دشمنوں کا سامنا تھا، جن میں سے ایک تو انگریز تھے، جنہوں نے برِصغیر پر مسلمانوں کی تقریباً ایک ہزار سالہ حکومت کا خاتمہ کیا تھا اور دوسرے مقامی متعصّب ہندو تھے، جو مسلمانوں کو غلام بنا کر ان سے اپنی محکومی کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ جب انگریزوں اور ہندوئوں کی چیرہ دستیاں حد سے بڑھ گئیں، تولاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں 22سے 24مارچ 1940ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کا 27واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت قائدِ اعظم محمدعلی جناحؒ نے کی۔ 

اس تاریخی اجلاس میں ’’شیرِ بنگال‘‘ مولوی فضل الحق نےایک متفقہ قرارداد پیش کی، جو تاریخ میں پہلے ’’قرار دادِ لاہور‘‘ اور پھر ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں برِصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی نصب العین کا فیصلہ کیا گیا اور برطانوی ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ’’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غوروخوض کے بعد اس مُلک میں مسلمانوں کے لیے صرف ایسے آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتا ہے کہ جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متّصل خطّوں کی صُورت میں حدبندی کا حامل ہو اور بوقتِ ضرورت ان میں اس طرح ردّوبدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبارِ تعداد ہو، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے ہیں ، اُنہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یک جا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔‘‘

اس موقعے پر قائد اعظم محمّدعلی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ تاثر غلط ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ مل کر رہ سکتے ہیں۔ یہ دونوں قومیں اپنے مذہبی عقائد اور سماجی، علمی اور ادبی تاریخ کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔ سیکڑوں برس ایک ساتھ رہنے کے باوجود یہ نہ تو آپس میں رشتے داریاں کرتے ہیں اور نہ ہی ایک ساتھ کھا پی سکتے ہیں۔ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ،جب کہ دوسری قوم کا ہیرو پہلی قوم کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک قوم کی شکست دوسری قوم کی فتح اور دوسری قوم کی شکست پہلی قوم کی فتح تصوّرکی جاتی ہے، جب کہ دونوں اقوام کو اکٹھا کر دینا ان دونوں کے مذہبی عقائد و نظریات کے خلاف ہے اور اس کا نتیجہ تباہی، بے سکونی، تعصّب اور سیاسی عدم استحکام کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔‘‘

قراردادِ پاکستان کی مخالفت میں ہندو، سِکھ اور کانگریسی مسلمان پیش پیش تھے، جب کہ کانگریسی مسلمان رہنماؤں کی مخاصمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سوا ہندوستان کی تقریباً تمام مسلمان سیاسی جماعتوں کے تعاون سے دہلی میں ایک کانفرنس منعقد کی، جس کا مقصد مسلم لیگ کے ایک علیحدہ مملکت کے مطالبے کی مخالفت کرنا تھا۔ تاہم، ہندوؤں اور کانگریسی مسلمانوں کے معاندانہ رویّے اور مخالفانہ ردِ عمل کے باوجود قائد اعظمؒ اور مسلم لیگ نہ صرف اپنے نظریے پر ڈٹے رہے بلکہ انہوں نے قیامِ پاکستان کے لیے اپنی جدوجہد مزید تیز کر دی اور بالآخر 14اگست1947ء کو ایک آزاد اسلامی ریاست ’’پاکستان‘‘ کاقیام عمل میں آیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے ہر سال 23مارچ کو یومِ پاکستان قومی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں 31اور صوبائی دارالحکومتوں میں21،21توپوں کی سلامی سے ہوتا ہے۔ نیز، اس دن کی مناسبت سے مارگلہ ہِلز کے پریڈ گراؤنڈ میں خصوصی تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے، جس میں مسلّح افواج کی روایتی پریڈ اور ہتھیاروں کی نمائش بھی ہوتی ہے۔ اس موقعے پر افواجِ پاکستان کے افسران کو اہلِ خانہ کے ساتھ مدعو کیا جاتا ہے۔ نیز، یومِ پاکستان کے موقعے پر اپنے اپنے شعبہ جات میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیات کو قومی اعزازات سے بھی نوازا جاتا ہے۔