• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مارچ 2024ء کا رمضان المبارک ایک ایسے وقت میں آیا ہے، جب مُلک کا سیاسی منظر نامہ ماضیٔ قریب سے خاصا مختلف ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لفظی گولا باری، اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کی بھرمار، سیاسی گہما گہمی اور عام انتخابات کے بعد بہرحال ایک نئی منتخب حکومت وجود میں آچُکی ہے۔ عوام، مرکز اور صوبوں میں بننے والی نئی حکومتوں کے وعدوں اور دعوووں کی بنیاد پر یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید اِس مرتبہ اُنھیں ماہِ صیام کی کمر توڑ مصنوعی منہگائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

خاص طور پر آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب کے 12کروڑ عوام صوبے کی نئی اور تاریخ کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ، مریم نواز سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں، جنہوں نے اپنی پہلی تقریر میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ پنجاب کے عوام کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گی۔سوال یہ ہے کہ 2024ء کا رمضان المبارک نئے حُکم رانوں کے پس منظر میں ماضی سے کتنا مختلف ہے۔ کیا عوام نے نئی حکومت سے جو اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، وہ پوری ہو رہی ہیں یا پھر وہ حسبِ سابق مصنوعی منہگائی، ناجائز منافع خوری اور روزہ داروں کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے والے لالچی تاجروں کی زیادتیوں کا شکار ہی رہیں گے۔

بظاہر نئی حکومت کو، خواہ وہ پنجاب کی ہو یا مرکز کی، بہت زیادہ چیلنجز درپیش ہیں اور ان میں سب سے بڑا چیلنج غربت و بے روزگاری کا ہے۔ ماہِ صیام کی آمد سے چند روز قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں غربت کی شرح 41فی صد ہے، جب کہ بے روزگاروں کی تعداد ایک کروڑ 20لاکھ سے تجاوز کر چُکی ہے۔مشکل اقتصادی صُورتِ حال، بگڑتی لیبر مارکیٹ، ترسیلاتِ زر میں کمی اور اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے عوام کی قوّتِ خرید میں کمی آئی ہے۔ 

اِسی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 40فی صد سے زائد برسرِ روزگار آبادی زراعت سے وابستہ ہے، جہاں پیداواری استعداد کم ہو گئی ہے۔ بڑے شہروں کے مقابلے میں، دیہات میں غربت کی شرح دُگنی ہے، جب کہ وہاں صاف پانی کی دست یابی، سینی ٹیشن، بجلی اور دوسری بنیادی شہری سہولتوں تک رسائی بھی مشکل ہے۔ اسکول جانے کی عُمر تک کی 36فی صد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔اِس طرح کے چیلنجز کے باوجود نئے حُکم ران، عوام کو ماہِ رمضان میں ریلیف دینے کی باتیں کر رہے ہیں، تو آئیے، دیکھتے ہیں کہ کیا واقعتاً ایسا ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں۔

حکومتِ پنجاب کا ریلیف پیکیج

اِس بار پنجاب کی نئی اور پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ، مریم نواز شریف نے’’ نگہبان‘‘ کے نام سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ افراد کے لیے ایک ریلیف پیکیج کا اعلان کیا، جس کے تحت تقریباً پونے3 کروڑ افراد کو بنیادی ضرورت کی اشیاء اُن کی دہلیز پر مفت پہنچائی جا رہی ہیں، جب کہ کوالٹی کنٹرول کے تحت ان تمام اشیا کے معیاری ہونے کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔اس ضمن میں وزیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ’’ مارکیٹ میں ایسے پوائنٹس بھی بنائے جائیں گے، جہاں سے عوام کو رعایتی نرخوں پر اشیائے ضرورت تقسیم ہوسکیں۔‘‘ صوبہ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں اِس ماہ مریضوں کو مفت ادویہ فراہم کرنے کے بھی دعوے کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ،’’ عید پیکیج ‘‘کے نام سے بھی رعایتی نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کا ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے۔نیز، ’’رمضان بازار‘‘ میں لگائے جانے والے پوائنٹس پر مختلف اشیاء کی سستے داموں دست یابی کے بھی اعلانات ہو رہے ہیں۔ جب کہ عید پیکیج کے تحت صرف 435روپے کی برائے نام قیمت پر گھروں تک اشیائے ضروریہ سے بَھرے بیگز تقسیم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔مریم نواز نے 2مارچ کو’’ رمضان کے ریلیف پیکیج‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ پنجاب کا ہر علاقہ رمضان ریلیف 2024ء کا ایک مثالی نمونہ ثابت ہوگا۔ تاہم، اس سے صرف وہی فیملیز استفادہ کر سکیں گی، جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہیں۔‘‘

پھر وفاقی حکومت نے بھی یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے 7.492ارب روپے کی لاگت سے’’ رمضان ریلیف پیکیج‘‘ کا اعلان کیا، جس کی منظوری سابقہ نگران حکومت کی کابینہ نے اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی کی سفارشات پر دی تھی۔ کمیٹی کے مطابق مالی سال 2023-24ء کے دوران 5ارب روپے مختص کیے گئے تھے، جب کہ بقیہ رقم رواں مالی سال کے بجٹ میں پرائم منسٹر ریلیف پیکیج سے مختص کیے جائیں گے۔بظاہر، یہ پیکیجز بہت دل کش لگتے ہیں، لیکن عام طور پر عوام ایسے منصوبوں سے کم ہی مطمئن نظر آتے ہیں۔ 

ایک نجی کمپنی میں اکائونٹس آفیسر کے عُہدے پر خدمات انجام دینے والے، عبدالحمید ڈار کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’ 2024ء کا رمضان المبارک پاکستان کی تاریخ کے اِس تناظر میں آیا ہے، جب نئی حکومتوں نے عوام کو اپنے وعدوں، دعووں کے ذریعے منہگائی اور اقتصادی بدحالی سے نجات کے سہانے خواب دِکھائے ہیں، ان کی ہر تقریر کی تان اِسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کریں گے۔ 

بالخصوص، ماہِ صیام میں عوامی ریلیف کی بہت باتیں کی جارہی ہیں تاکہ عوام اِس ماہ کے فیوض و برکات سے استفادہ کر سکیں، لیکن سچّی بات تو یہ ہے کہ اب عوام، حُکم رانوں کی بڑی بڑی باتیں سُن سُن کر تنگ آچکے ہیں اور اب ان پر کوئی یقین کرنے کو بھی تیار نہیں۔ انتخابات کے دوران بعض سیاسی جماعتوں نے کہا کہ وہ برسرِ اقتدار آئیں، تو عوام کو بجلی کے سیکڑوں یونٹس مفت فراہم کریں گی، منہگائی کا جن بوتل میں بند کر دیں گی، حالاں کہ ایک عام شخص کو بھی علم ہے کہ اِس قسم کے دعووں کو عملی جامہ پہنانا ناممکن ہے اور یہ خواب صرف اِسی لیے دِکھائے جارہے تھے کہ وہ مسندِ اقتدار پر براجمان ہو سکیں۔ 

اِس لیے توقّع تو یہی ہے کہ عوام کو اس ماہِ رمضان میں بھی کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملے گا، کیوں کہ ہمارے سیاسی قائدین کی ترجیحات کا اندازہ تو اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ انتخابی مہم کے دَوران سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہوئے سب اخلاقی حدود تو پار کر گئیں، لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کو منہگائی کے خاتمے اور مُلک میں خوش حالی کاروڈ میپ دینے کی توفیق نہ ہوئی۔ 

ان کا ہدف صرف ایک ہی تھا کہ کسی نہ کسی طرح اقتدار کی راہ داریوں تک رسائی حاصل ہو جائے۔سو، اربوں روپے کے پیکیجز کے باوجود اس کے ثمرات مستحق اور غریب افراد تک پہنچتے دِکھائی نہیں دیتے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے پیکیجز پر عمل درآمد کے وقت ایک کثیر رقم انتظامی افسران کی بدعنوانیوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور اگر حکومت سنجیدہ ہو، تب بھی اس کرپشن کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا کہ کرپشن ہماری بیوروکریسی میں بُری طرح سرایت کر چُکی ہے۔‘‘

وفاقی حکومت کا پیکیج

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، 2024ء میں بھی ماضی کی طرح وفاقی حکومت نے ایک بڑے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے، جس کا آغاز 5 مارچ ،یعنی میاں شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے دو دن بعد ہی ہوگیا۔ اس پیکیج کے تحت، عوام کو اشیائے ضروریہ کی خریداری پر یوٹیلٹی اسٹورز سے7.5 ارب کی سبسڈی اور غربت کے مقرّرہ پوائنٹ تک پہنچنے والے صارفین کو19 اشیائے خورونوش پر سبسڈی فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ان19 اشیائے ضروریہ میں آٹا، چینی، دال چنا، دال مسور، سفید چنے، چاول، خوردنی تیل، دالیں، بیسن، کھجور، مشروبات، چائے اور دودھ وغیرہ شامل ہیں۔ 

نیز، ایک ہزار سے 1200 اشیاء پر5 سے 10 فی صد تک رعایت کی بھی خوش خبری سُنائی گئی۔حکّام نے یہ بھی بتایا کہ اِس بار صارفین کو قطاروں میں لگنے اور انتظار کی زحمت سے بچانے کے لیے یوٹیلٹی اسٹورز پر بی او ایس مشینز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جہاں پہلے ایک مشین تھی، اب دو مشینز فراہم کر دی گئی ہیں اور جہاں دو مشینز تھیں، وہاں اُن کی تعداد تین کردی ہے اور اس ضمن میں دعویٰ کیا گیا کہ اِس پیکیج سے مُلک کی80 فی صد آبادی یوٹیلٹی اسٹورز سے رمضان المبارک کے دَوران سستے داموں اشیاء خرید سکے گی۔

نہ بدلنے والا رجحان

صوبائی اور وفاقی حکومتیں سابقہ کئی برسوں سے’’ رمضان پیکیجز‘‘ کا اعلان کرتی آ رہی ہیں اور اِس مرتبہ بھی حکومتِ پنجاب نے مریم نواز کی ہدایت پر ایک خصوصی پیکیج کا اعلان کیا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ریلیف پیکیج کے ثمرات کسی سیاسی جماعت سے وابستگی سے قطع نظر ہر ضرورت مند شہری تک پہنچیں گے، لیکن بہت سے دانش وَروں اور سماجی ماہرین کے مطابق، حکومتیں جتنے بھی پیکیجز تیار کرلیں، ان کے ثمرات کبھی پوری طرح عوام تک نہیں پہنچ سکتے، کیوں کہ ہمارا انتظامی ڈھانچا ہی اتنا ناکارہ ہوچُکا ہے۔ 

ایک اور رجحان ،جو اِس بار بھی نہایت شدّومد سے دیکھا جارہا ہے، وہ لالچی، خود غرض اور عاقبت نااندیش تاجروں اور دُکان داروں کا ہے، جو رسد کم اور طلب زیادہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مصنوعی منہگائی پیدا کردیتے ہیں یا پھر رمضان المبارک کے آغاز سے قبل ہی اشیائے خورونوش کا ذخیرہ کرلیتے ہیں اور پھر مہینے بَھر سستے داموں خریدا گیا مال منہگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اگر کوئی صارف اُن سے منہگائی کی وجہ پوچھے، تو اُن کا رٹا رٹایا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ‘‘ پیچھے ہی سے منہگا مال مل رہا ہے، ہم کیا کریں۔‘‘اس بار بھی رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی اِس قدر منہگائی دیکھی گئی کہ نئی حکومت کے دعوے عملاً بودے ہی معلوم ہو رہے ہیں۔ 

گرچہ 2024ء میں پنجاب میں سستے رمضان بازاروں کا منصوبہ منسوخ کر کے غریب عوام کو مفت راشن دینے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن اس سے عام اور مستحق لوگوں کو مزید پریشانی لاحق ہوگئی، کیوں کہ مفت راشن تقسیم کرنے کا منصوبہ صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے وابستہ افراد تک محدود ہے، جب کہ احساس پروگرام کی سہولت سے محروم لاکھوں افراد بھی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ 

اِس لیے شہریوں کا کہنا ہے کہ مفت راشن کی بجائے سستے بازاروں کے ذریعے سبسڈی فراہم کی جاتی، تو عوام کی زیادہ بڑی تعداد منہگائی سے محفوظ رہنے میں کام یاب رہتی۔نیز، شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ رمضان بازاروں کا انتظام تھرڈ پارٹی سے کروایا جانا چاہیے تاکہ انتظامی افسران اور ٹھیکے داروں کی لُوٹ کھسوٹ سے بچا جاسکے۔

اسی حوالے سے اردو بازار کے ایک 85سالہ تاجر، محمّد رفیق کا کہنا ہے کہ’’کوئی زمانہ تھا، مسجد سے گولا چلنے پر لوگ افطار کرتے، اب ڈیجیٹل گھڑیاں آگئی ہیں، لیکن مجھے جو بات بُری طرح کھٹکتی ہے، وہ ہمارا بدلتا مزاج، عادات اور روایات ہیں، جس نے ماہِ رمضان کی حقیقی خوشیاں گہنا دی ہیں۔ اب تو دولت کمانا ہی زندگی کا مقصد بن چُکا ہے، یہاں تک کہ رمضان المبارک میں بھی، جب ہر چھوٹا، بڑا دینی احکامات کی بجا آوری میں مصروف ہوتا ہے، مادیت پرستی کا غلبہ رہنے لگا ہے اور اربوں روپے کے ریلیف پیکیجز بھی بے اثر نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے بیش تر تاجروں اور ذخیرہ اندوزوں نے اِس ماہِ مقدّس کو اپنے لیے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ 

دنیا بَھر میں دینی تہواروں پر اشیائے خورونوش سستی ہوتی ہیں، حکّام اور تاجر عوام کو آسانیاں فراہم کرتے ہیں، لیکن مجھے یہ دیکھ کر شدید دُکھ ہوتا ہے کہ اکثر تاجر اور کاروباری افراد ماہِ صیام میں مصنوعی منہگائی اور ناقص اشیائے خورونوش کی فراہمی سے روزہ داروں کے لیے مزید مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اِس امر میں شک نہیں کہ اِس ماہِ مقدّس میں اربوں روپے زکوٰۃ کی مد میں تقسیم ہوتے ہیں، مفت افطار کیمپس لگائے جاتے ہیں، پنجاب حکومت نے بھی راشن کی مفت تقسیم کا پروگرام بنایا ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ من حیث القوم ہمارا رویّہ بھی بدل جائے کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی عوام کو اطمینان ہو کہ وہ اپنے ہی بھائیوں کی چیرہ دستیوں کا شکار نہیں ہوں گے۔جب کہ رمضان المبارک کی حقیقی رُوح بھی یہی ہے کہ ہم بے مثال بھائی چارے کا مظاہرہ کریں اور لاکھوں غریب افراد اِس بات کے منتظر نہ ہوں کہ کوئی شخص اُن کا دروازہ کھٹکٹا کر اُنہیں اِتنا راشن دے جائے گا، جو صرف ایک ماہ کے لیے ہوگا کہ پھر سال کے باقی دنوں میں کیا ہوگا۔

پاکستان میں آنے والا ہر رمضان المبارک اِس اعتبار سے منفرد ہوتا ہے کہ اس میں مخیّر افراد دل کھول کر ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں مجموعی قومی پیداوار کا ایک فی صد سے زاید خیراتی سرگرمیوں پر صَرف کیا جاتا ہے اور یہ شرح امریکا، یورپ اور دیگر متموّل ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، مخیّر افراد ہر سال 240ارب روپے سے زیادہ خیرات کرتے ہیں اور اِس سال ضرورت مندوں کی تعداد بڑھ جانے سے یہ رقم بھی بڑھ جائے گی۔ 

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ خطیر رقم کسی منظّم منصوبے کے تحت لوگوں کو مستقل روزگار کے قابل بنانے پر صَرف کی جائے، تو یہ کہیں بہتر مصرف ثابت ہوگا، بصورتِ دیگر، ہر سال ماہِ صیام میں لاکھوں افراد اِسی طرح اپنا دامن پھیلائے نظر آئیں گے۔