• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوجی !’’الیکشن‘‘24کے دو تین بڑے نتائج تو نکل آئے حتمی انتخابی نتائج جتنی تاخیر سے موصول ہوئے اتنے ہی بڑے نرالے اور چونکا دینے والے ہیں ۔جیسے بھی ہیں کہ ٹیلر میڈ الیکشن اتنا اور ایسا ہی پھر فوری نتیجہ خیز ثابت ہوا۔دوتہائی انتخابی جیت پر سیاسی جماعت وقائد کا آئیڈیل ہدف ہوتا کتنا غور طلب اور عجب ہے پاکستان میں نہیں ہوتا پہلی دو تہائی کامیابی 1971پر ملک دولخت ہو گیا ،دوسری 1997ءوالی میں میاں نواز شریف کی چلتی چلاتی حکومت نصف مدت ہی پوری کرکے چل بسی، نتیجے میں دو کھالوں والے حکمراںکا عشرہ آ دھمکا ایک کھال صدر جنرل مشرف کی اپنی دوسری ان کی خاکی وردی، وضاحت یہ گستاخی میں نہیںکر رہا وہ خود فرماتے تھے دور کا پہلا وسط بھی کوئی برا نہیں تھا مثالی لوکل باڈیز سسٹم کی عملداری میڈیا کا فراخدلانہ فروغ اور غنیمت آزادی کی پالیسی، نجی ٹی وی چینلز اور بینکوں کی بہار اور تعلیم خصوصاً ہائرایجوکیشن کی فراخدلانہ بجٹنگ اور لاہور ڈیکلریشن کو ڈسٹرب کرکے کارگل کی مہم جوئی کا کنارہ بھی کمال مہارت و سفارت سے ادا تو کر دیا تھا لیکن آگرہ میں سب کچھ طے پانے لگا تو آنجہانی واجپائی کو گھیرے بھاجپائی عقابوں نے ہوتے ہوتے امن معاہدے کی تکہ بوٹی کر دی۔ پھر بلوچستان میں بگٹی سے تنازعے اور المیہ لال مسجد کی تباہ کن مس ہینڈلنگ جرنل صاحب کی تمام تر نیک نیتی اور حب الوطنی کے بلند درجے کے باوجود جرنل صاحب کا این آر او لپٹتے سمٹتے اسٹیٹس کو (نظام بد)کو زیادہ طاقت سے بحال کرنے اور اس سےقبل دونوں کھالوں سمیت سپریم کورٹ سے پنگے لینے پر اور اڑجانے پر رجیم خاتمے کا باعث بنا، وگرنہ تو یونیفارم کےساتھ ڈسٹرکٹ گورمنٹس سسٹم کی صورت میں عوام کو ان کا آئینی حق لوٹانے سے خود رجیم غیر آئینی ہونے کے باوجود ہضم تو ہو رہا تھا ۔پنجاب میں وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے ترقیاتی کاموں کی عوامی خدمت کے حوالے سے معیار و رفتار کے نتائج شہباز سپیڈ سے کہیں زیادہ معیاری اور جینوئن تھے جبکہ سندھ بھی دیہات اور بڑے شہروں کی عوامی نمائندگی اور بنیادی سہولتوں کے بلدیاتی نظام سے مطمئن تھا یہ بھی نہ بھولا جائے کہ مشرف رجیم کے پس منظر کے دوتہائی دور کا رخ بھی میاں صاحب نے خود کو امیر المومنین بننے کے غلاف میں لپٹ کر لیڈر شپ کے ہی ’’سیاسی خالق‘‘کو اپنا دکھانے کی جسارت کی تو اس گیم کے معاون و مشیر تو کچھ نہ کر سکے جو کرنا تھا میاں صاحب کو سیاسی بنانے والوں نے ہی کرنا تھا ۔

اور کیا اس ساری کہانی سے اگر کسی نے کوئی سبق سیکھا تو میدان سیاست کے دو کھلاڑیوں نے بہت کچھ پلے باندھا باٹم لائن یہ کہ آصف زرداری اور شہباز شریف دونوں نے مفاہمت کی چادر اوڑھ لی اسی میں لپٹ کر انہوں نے اپنے تحفظ کو یقینی بنایا، بیچ میں زرداری صاحب سے ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘والی خطا ضرور ہوئی لیکن چھوٹے موٹے خسارے اور اچھا بچہ بننے کے بعد رپئیر کرنے میں کامیاب ہوئے پھر تو سب کو ساتھ لیکر چلنے کے ماہر اور مفاہمت کے بادشاہ بن گئے ۔دونوں (زرداری اور شہباز ) کے پیرو کار و مداح شکر کریں کہ اپنا یہ تشخص منوانے میں ان کی آگے بڑھنے کی ریس نہیں لگی۔وگرنہ اس امر کا شدید خطرہ تھا کہ ’’پیٹ پھاڑنے اور شہر شہر الٹا لٹکانے‘‘ کا خطرناک ارادہ کہیں شہباز صاحب کی اوڑھی مفاہمت چادر کو بھسم نہ کر دے ۔اسی کا ثمر ہے کہ ’’دوتہائی ‘‘ فتح والے ہماری انتخابی تاریخ کے متنازع ترین ٹیلر میڈ الیکشن کے نتائج سے بننے والے مفاہمتی حکومتی سیٹ اپ کے کھیل میں زرداری صاحب تو واقعی سب پر بھاری ثابت ہوئے۔ مفاہمتی چادر اوڑھے انہوں نے کمال کی شطرنجی چال سے جیالوں کے نعرے ’’ایک زرداری سب پہ بھاری ‘‘ کو پاکستانی سیاست کے عین مرضی کے اور تیز ترین اہداف حاصل کرنے والے بیانیے میں تبدیل کر دیا ۔ رہے شہباز صاحب ، وہ ایک بار پھر مشکل بلکہ اس مرتبہ مشکل ترین فیصلوں والے وزیراعظم بن گئے دونوں کی بلا سے کہ کہیں بھی اکثریت کیسے ملی جو چھینا جھپٹی سے دو تہائی بھی بن گئی الیکشن کمیشن جانے اور سڑکوں پر شرپھیلانے کے مرتکب پی ٹی آئی کے گرفتار رہنما اور ماریں کھاتے ورکرز جانیں کیا کرلیںگے ۔انہوں نے خود اور ان کے حامی و تائید ی ووٹروں نے جوق در جوق ہی سہی جو کچھ کرنا تھا 8فروری کو کردیا سابقہ اتحادیوں کے حصے نہیں آیا تو بھی کیا کوئی دوسری مرتبہ صدر بننے والے تاریخ ساز یا دونمبری دوتہائی اسمبلی کے قائد ایوان نے تو خود کو اقتدار اور آن بان شان نہیں بانٹا یہ تو آزادو خودمختار الیکشن کمیشن کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ جن نتائج کو حتمی قرار دےگا اسی سے حکومت تشکیل ہو گی۔جمہوریت کابھی یہ ہی تقاضہ ہے کہ اسے ہی سچ و حق مانا جائے عوام کو کب حقوق اور ووٹ کو کب عزت ملی ہے دو ڈھا ئی ماہ تک ووٹروں سے سلام دعا کرنا ان کی غم خوشی میں شریک ہونا، نانوں بریانی سے خدمت کرنا، اس مرتبہ تو انتخابی مہم کا آغاز بھی پرتکلف عشائیوں سے کیا یہ ووٹ کی عزت نہیں تو کیا ہے آخر ان کی بھی تو کچھ سیاسی ضرورتیں ہیں عشروں سے ’’خوب کھائو تو لگائو بھی ‘‘ کی تھیوری کی عملی شکل سے نظام بد صبرو اطمینان سے چل ہی رہا تھا آئین و جمہوریت اور اس سہانی چھتری میں عوام کے حقوق کا تحفظ یا بازیابی سب کتابی باتیں ہیں۔ یا شیخ چلی کا خواب گستاخ و بدتمیز نوجوانوں کے بنائے باغی لیڈروں اور ان کے شرپسند لائو لشکر کا مقام تھانہ، جیل کچہری او رسلوک ٹھکائی نہیں تو اور کیا ہے ؟سوشل میڈیا تو ویسے ہی شیطانی او ر ہیجانی ہے ۔عزم سیاسی و اقتصادی استحکام و بحال اور مقصد عوام کی خدمت ہو تو پھر یہ آئین و قانون کے نعروں اور دہائی سے کبھی کچھ ملا ہے جواب ملک و قوم کو ملے گا ۔8فروری کی لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ جو وقت گزر گیا تاریخ ملک و قوم مفاہمت ہی سے بنتی ہیں خواہ یہ نفاذ آئین و قانون سے ہی کرنا پڑے یہاں سب چلا ہے اسے بھی چلنے دو ، حرف آخر یہ نہیں بنتا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہی تو میثاق جمہوریت کے دستخطی اور علمبردار ہیں رہے اصل دستخطی بڑے میاں صاحب ان کی پریشان باڈی لینگوئج پر تجزیے درست نہیں اس ہنگامہ خیز دور میں محال فیصلوں کی اذیت سے بھی بچ گئے اور پنجاب بھر خصوصاً لاہور کے متنازعہ ترین نتائج کے بعد بھی پنجاب کا پھل جھولی میںآگرا ، میثاق جمہوریت زندہ باد اور مفاہمت پائندہ باد۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین