نیب ترامیم کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے حوالے سے آج سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آئندہ سماعت پر بھی بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کی سہولت فراہم کی جائے۔
آج سماعت کے موقع پر بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اپیلوں پر سماعت کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں خود پیش ہونے کی درخواست دی تھی جس پر سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی اجازت دی تھی۔
عمران خان کے ویڈیو لنک پر سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی تصویر وائرل ہوگئی۔ تصویر بنانے والے کو پکڑنے کیلئے سپریم کورٹ انتظامیہ سرگرم ہوگئی اور سی سی ٹی وی ویڈیو کی جانچ شروع کردی۔ عدالت میں تصویر بنانا کورٹ روم رولز کی خلاف ورزی ہے۔
سماعت کا آغاز
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا ویڈیو لنک قائم ہوگیا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ویڈیو لنک قائم ہے۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو اونچی آواز میں دلائل دینے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی بھی سن سکیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التواء ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ میں زیر التواء درخواست سماعت کے لیے منظور ہوئی۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جی اسے قابل سماعت قرار دے دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران کہا کہ قانون کو معطل کریں پھر اس کیس کو سنا ہی نہ جائے تو ملک کیسے ترقی کرے گا، ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے۔
عدالت میں چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ اصل کیس میں وکیل تھے، آپ کے نہ آنے پر مایوسی تھی، ہم آپ کے مؤقف کو بھی سننا چاہیں گے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف درخواست کب دائر ہوئی؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست 4 جولاٸی 2022ء کو دائر ہوئی ، سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولاٸی 2022ء کو لگا اور سپریم کورٹ میں درخواست کی سماعت 19جولائی 2022ء کو ہوئی۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ نیب ترامیم کا کیس اتنا لمبا عرصہ کیوں چلا تھا، کیا آپ کیس کو طویل کرنا چاہ رہے تھے؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میرے علاوہ بہت سے وکلا نے دلائل دیے تھے، ہم توچاہتے تھے کیس جلد ختم ہو، نیب ترامیم کالعدم قرار دیتے وقت حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا گیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں اگلے ہفتے ملک میں موجود نہیں ہوں۔
سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ کیس کی سماعت کی آئندہ تاریخ کا اعلان بینچ کی دستیابی کی صورت میں ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ درخواست گزار اڈیالہ جیل سے کہیں نہیں جارہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کے جملے پر بانی پی ٹی آئی سمیت وکلاء کو ہنسی آگئی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہمیں کہا جارہا ہے کہ پگڑیوں کو فٹ بال بنائیں گے، ایسا کہنے والے درحقیقت خود کو ایکسپوز کر رہے ہیں، کیا آپ اپنی پراکسیز کے ذریعے ہمیں دھمکا رہے ہیں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہ ایسا ہو رہا ہے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ نہ تو اس سے کوئی جج متاثر ہوگا نہ ہراساں۔
بعد ازاں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اپیلوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے سے متعلق فیصلہ 5 رکنی لارجر بینچ ہی کرے گا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا جس کے بعد اس کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں آج بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کے انتظامات راولپنڈی اڈیالہ جیل میں مکمل کرلیے گئے تھے۔
جیل ذرائع کے مطابق اڈیالہ جیل کی انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری سے متعلق بتا دیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی پیشی سے قبل ویڈیو لنک کا ٹیسٹ بھی کیا گیا تھا۔
جیل ذرائع کے مطابق کل وکیل خواجہ حارث اور انتظار پنجوتھہ نے جیل میں بانی پی ٹی آئی سے مختصر ملاقات بھی کی تھی۔