• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا جاتا ہے تو فیک نیوز کا بازار بھی گرم رہتا ہے شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں اور فیک نیوزیامن گھڑت خبریں بلکہ افواہیں پھیلانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ فیک نیوز کا مطلب لوگوں میں بدگمانی پھیلانا اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہوتاہے اور یہ کام عروج پرہے۔ آنکھ مچولی کالفظ ہم نے استعمال کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کوعدالتوں سے قید بامشقت سمیت قید کی مختلف سزائیں سنائی جاچکی ہیں جن کے خلاف عدالتوں میں اپیلیں بھی دائر کی جاچکی ہیں اور کچھ زیر سماعت بھی ہیں۔ فیصلہ کرنا عدالتوں کاکام ہے۔ عدالتی فیصلے سے پہلے اپنی رائے یا امکانات ظاہر کرنے کامجاز کوئی بھی نہیں ہے۔ اگر عدالتی فیصلے میں کوئی تشنگی رہ جائے یاکوئی قانونی سقم یاکسی دباؤکا عنصر پایا جاتا ہے لیکن اگرملکی اعلیٰ ترین عدالتی حتمی فیصلے میں جانبداری وغیرہ نظر آتی ہے توپھر شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے خلاف45سال بعد انصاف کی نظیر بھی اب موجود ہے۔

جس کیس میں بانی ٹی آئی کو قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے اس میں قید تو ہے لیکن بامشقت کہیں بھی نہیں ہے جبکہ کسی دوسرے قیدی کو یہ رعایت ہرگز میسر نہیں علاوہ ازیں عام قیدی کو ہفتہ میں صرف ایک بار ملاقات کی اجازت ہوتی لیکن بانی پی ٹی آئی کو ہفتہ میں شاید تین بار خصوصی رعایت دی گئی تھی۔ آنکھ مچولی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ پنجاب حکومت نے دودن پہلے بانی پی ٹی آئی سمیت تمام قیدیوں سے ملاقات پر دوہفتوں کیلئے پابندی کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کیا اس پابندی کی وجہ سیکورٹی تھریٹ ہے لیکن حیرت انگیز طور پر بانی پی ٹی آئی کے چند وکلا کواس نوٹیفیکیشن کے اجرا کے باوجود ملاقات کی اجازت دیدی گئی۔ بانی پی ٹی آئی کو عدالتی پیشی کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کی بھی خصوصی رعایت حاصل ہے اورانکی بات چیت کا حرف بحرف بیان تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات میں نشر اور شائع ہوتا ہے اسی طرح وکلا ان سے ملاقات کرکے باہر آکربھی ان کے پیغامات میڈیا کے ساتھ شیئر کرتے اور وہ نشر اور شائع ہوتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر ٹاک شوزوغیرہ میں بھی کھل کر ان کی ترجمانی کی جاتی ہے۔ ان کو جیل سے سیاسی معاملات چلانے کی بھی اجازت ہے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس کو آنکھ مچولی نہ کہا جائے توکیا کہا جائے۔

سیدھی بات تو یہ ہے کہ اگر ان کوسزائیں ہوئی ہیں تو ان پر عملدرآمد ہونا چاہیے اور اگرعدالتوں کی طرف سے ان کو کوئی بھی رعایت ملتی ہے تو اس پر بھی عملدرآمد ہوناچاہیے اور اگر انکے خلاف قائم مقدمات سیاسی اور مبنی برانصاف نہیں ہیں توان کو رہا کردینا چاہئے۔جب ان کی پارٹی بھی قائم ہے ان کے لوگوں کو الیکشن لڑنے کی بھی اجازت دیدی گئی ان میں اکثر کامیاب بھی ہوئے۔ایک صوبے میںان کی حکومت بھی قائم ہوگئی۔ سینٹ کے آنیوالے الیکشن میں بھی ان کے امیدوار حصہ لیں گے دوسری طرف اسی پارٹی کے بانی جیل میں ہیں ان کو وہاں تمام ضروری سہولیات بھی حاصل ہیں۔ ان سے ملاقات کے خواہشمندوں کو بھی اجازت دی جاتی ہے تو پھر ملک میں عدم استحکام اور قوم کو بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے اور اسی لئے اس بارے میں فیک نیوز پھیلانے اور دشنام طرازی کرنے والوں کو موقع ملتا ہے جس سے ملک کی بدنامی اور بدگمانیاں ہوتی ہیں اسلئے اس معاملے کوایک طرف کرناچاہیے تاکہ فیک نیوز اور افواہیں پھیلانے والوں کا راستہ بند کیاجاسکے اور ملک کسی سمت چل پڑے۔آج کل بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ڈیل کرنے کی خبریں بھی پھیلائی جارہی ہیں جن کی خود انہوں نے بھی تردید کی ہے۔ گزشتہ دنوں ان کے نہایت قریبی ذرائع نے بھی کہا تھاکہ ان کے ذریعے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر یہ خبریں درست ہیں اور فریقین کسی منطقی نتیجے کی کوشش کررہے ہیں تو پھر دیر کس بات کی کرنی ہے پھر جلد ہی اس کو انجام تک پہنچانا چا ہیے اور اگر یہ بھی فیک نیوز اور افواہیں ہیں تو پھر دوسری طرف سے بھی اس کی واضح تردید آنی چاہیے ۔بہرصورت اب اس آنکھ مچولی کا ختم ہونا ہی ملک وقوم کے مفاد میں ضروری ہے۔

مہنگائی پر قابو پانے کا جو طریقہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے شروع کیا ہے یہ محض ڈرامہ بازی تو ہوسکتا ہے لیکن اس سے مقصد کاحصول ناممکن ہے۔ رمضان پیکیج کے تھیلے تقسیم کرنا بھی ’’ کمپنی کی مشہوری‘‘ تو ہوسکتی ہے لیکن یہ مہنگائی کاتوڑ ہرگز نہیں ہے۔ لنگر خانے کھولنا، بےنظیرانکم سپورٹ پروگرام پر اربوں روپے خرچ کرنا اور رمضان پیکیج کے تھیلے تقسیم کرنا قوم کو بھیک مانگنے کا عادی بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیا پر مختلف ٹیکسز ،بجلی اور گیس کے نرخ کو بڑھا کر پھراس پر10قسم کے ٹیکس لگاکر اور مذکورہ بالا اقدامات تو عوام کی جوتی عوام کے سر والا معاملہ ہے۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کنٹرول کرنے کا نہ تو کوئی ٹھوس قانون موجود ہے نہ ہی کوئی قابل عمل طریقہ کار ہے۔ اگر حکومت ملک سے مہنگائی اوربیروزگاری ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو ڈراموں کے بجائے گھریلو صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرکے ان کو فروغ دے ۔روزگار کے مواقع پیدا کرے اور تاجروں کے ساتھ مل کر قابل قبول طریقہ وضع کیا جائے،سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کے ساتھ مہنگائی کرنے والوں کے خلاف سخت قانون سازی کی جائےنیز برآمدات اور زرعی پیداوار بڑھانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔

تازہ ترین