• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین رمضان المبارک کا آغاز ایسے ہوا ہے کہ سماج میں مہنگائی کا ایک طوفان آچکا ہے اور گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں نے عوام کی مشکلات کو مزیددوچند کر دیا ہے ۔انتظامی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث حکومتی پرائس لسٹ کو منافع خوروں نے ہوا میں اڑا دیا اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیا ہے ۔اگر چہ ہمارا معاشرہ ایک عرصے سے مہنگائی کی زد میں ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تغیرو تبدل معمول کا حصہ ہے مگر رمضان المبارک کی آمد سے عین قبل پھلوں اور سبزیوں سمیت اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں ہوشربا اضافے سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ اس گرانی کا تعلق مارکیٹ کے اتار چڑھائوسے نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہی مافیا سرگر م ہے جو عوام کے استحصال کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔حکومتی یقین دہانیوں اور کارروائی کے دعوئوں کے باوجود ناجائز منافع خور مافیا کا بھر پور انداز سے سرگرم ہونا انتظامیہ کی اہلیت اور اقدامات پر بہت بڑا سوال ہے ۔ضروری ہے کہ فوری طور پر انتظامی مشینری کو متحرک کر کے اس مصنوعی گرانی کا تدارک کیا جائے ۔وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان ریلیف پیکیج کا حجم ساڑھے7 سے بڑھا کر 12.5 ارب روپے کرنے کے ساتھ اِس کا دائرہ کار بڑھانے کی ہدایت بھی کی ہے۔مجموعی طور پر رمضان ریلیف پیکیج کے تحت مستحق افراد کو بازار سے 30 فیصد سستی اشیاء دی جائیں گی، آٹے پر فی کلو 77 جبکہ گھی پر 70 روپے فی کلو سبسڈی دی جائے گی۔ پنجاب حکومت نے بھی 30 ارب روپے کا نگہبان رمضان پیکیج شروع کیا ہے جو صوبے کے 64 لاکھ سے زائد خاندانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ سندھ حکومت نے بھی 22.5 ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ کی 60فیصد آبادی کورمضان میں5ہزار روپے نقد دینے کی منظوری بھی دی تھی جو بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کے ذریعے دیے جائیں گے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے احساس پروگرام کے تحت رمضان میں مستحق افراد کو نقد 10 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔بلوچستان حکومت کی طرف سے اِن سطور کی تحریر تک رمضان پیکیج کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ۔رمضان ریلیف پیکیج کے ذریعے ارزاں نرخوں پر فراہم کی جانے والی اشیا کا کماحقہ فائدہ بھی اسی وقت ہوگا جب مارکیٹ پہ حکومتی گرفت مضبوط ہو گی۔ حکومت کی نظام پر گرفت ایسی نہیں ہے کہ ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیاز کو اسکی کوئی پروا ہو۔ پورے ملک میں ہزاروں افسران انتظامی عہدوں پر کام کررہے ہیں اور انہیں بھرتی ہی اس مقصد کیلئے کیا جاتا ہے کہ وہ نچلے درجے تک گورننس کو بہتر بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔ اسی کام کیلئے انہیں دوسرے سرکاری ملازموں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تنخواہ بھی دی جاتی ہے، گاڑیاں، گھر، عملہ اور دیگر مراعات و سہولیات اس کے علاوہ ہیں لیکن یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بیوروکریسی گورننس کو بہتر بنانے کی بجائے ساری توانائی اوروسائل صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنے پر خرچ کرتی ہے اسی لئے ملک آج اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ عام آدمی کو ریاست اور جمہوریت پر اعتماد نہیں ہے ۔

دوسری جانب حالت یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ملک کے تمام بڑے شہروں میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ پشاور،لاہور اور کراچی سمیت ملک کے دیگر کئی شہروں میں پھل، سبزی، مرغی کے گوشت، آٹا اور چینی سمیت ہر چیز ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اِن کی قیمتوں میں کم از کم 30 سے 80 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ حکومتوں کی طرف سے مستحقین کیلئے رمضان پیکیج کا اعلان یقینا ًمستحسن اقدام ہے لیکن اِس سے کہیں بہتر ہوگا اگر اشیاء کی قیمتوں کو قابوکیا جائے ۔ گزشتہ نگران حکومت نے آٹا، چینی، ڈالر اور منشیات اسمگلنگ پر کریک ڈاؤن کیا تھا جس سے کچھ بہتری دیکھنے میں آئی تھی، قیمتوں میں کمی بھی ہوئی تھی۔ موجودہ منتخب حکومتوں کو بھی ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہئے۔ ہمارے ہاں عجیب روایت ہے کہ رمضان سے پہلے قیمتیں بڑھا کرمصنوعی مہنگائی کر دی جاتی ہے، دکاندار اِسے ’’کمائی کا سیزن‘‘ بنا لیتے ہیں اور کوئی اُنہیں روکنے والا نہیں ۔ مارکیٹ کمیٹیاں موجود تو ہیں لیکن اْن کی کارکردگی صفر ہے، پرائس کنٹرول کی وزارت نہیں ہے جس کی وجہ سےکوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مہنگائی پر قابو پانے کیلئے جن مافیاز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کی حمایت کرنے والے کئی لوگ پارلیمان میں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں ان حکومتوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ عوام کا نظام پر اعتمادبحال کرنے کیلئے تمام مافیاز کے خلاف کسی بھی قسم کی رعایت کے بغیر کارروائی کی جائے کیونکہ اگر عوام کو ریاست پر اعتماد ہی نہ رہا تو پھر حکومت جو چاہے کر لے وہ ملک کو مضبوط اور مستحکم نہیں بنا سکتی۔ اس وقت ملک میں موجود تمام بڑی جماعتوں کو کہیں نہ کہیں اقتدار کا موقع مل رہا ہے، لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ عوام کی نظرو ں میں اپنا امیج بہتر بنانے کیلئے وہ سب کچھ کر دکھائیں جس کے دعوے انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کئے تھے۔ اس سے ایک طرف عوام کا ریاست اور جمہوریت پر اعتماد بحال ہوگا تو دوسری جانب ان سیاسی جماعتوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔اربوں کی سبسڈی دینے کے بجائے ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے ذریعے ملک کی زیادہ تر آبادی کو مصنوعی مہنگائی اور ناجائز منافع خوری سے نجات مل سکے۔ پورے نظام کو مانیٹر کرنے کا طریقہ کار بنایا جائے، مڈل مین کو ختم کیا جائے تاکہ مصنوعی قلت پیدا کر کے ناجائز منافع خوری سے بچا جا سکے۔

تازہ ترین