• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: عشرت زاہد

مہمان: صبا

عبایا، اسکارفس: حجاب النساء گارمنٹس

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

بےشک،رمضان المبارک، تمام مہینوں کا سردار ہے۔ اِسی ماہ مبارک میں قرآنِ مجید نازل ہوا۔ یہ رحمتیں، برکتیں، عنایتیں، مغفرتیں سمیٹنے کا مہینہ ہے کہ اِن ایّام میں ایک فرض کا اجر ستّر گُنا تک بڑھا دیاجاتا ہے، تو نوافل کادرجہ فرائض کے برابر ہو جاتا ہے۔ یہ مستحق افراد پر خرچ کرنے، صدقات و زکوٰۃ کی ادائی کا مہینہ ہے اور یہ ماہِ صیام ہی کااعجاز ہےکہ مخیّر افراد مستحق افراد پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ اجتماعی طور پر سحروافطار کے مناظراِسی ماہ کا خاصّہ ہیں۔

غرباء و مساکین کا درد محسوس کرنے، اُنھیں اپنی خوشیوں میں شریک کرنےکی روایت بھی اِسی ماہ کی بدولت ہے، تو اِسی ماہ میں ہم نعمتوں کی قدر، صبر و شُکر کی باقاعدہ مشق کرتے ہیں۔ قصّہ مختصر، اِس ایک ماہ کی برکات و فضائل اِس قدر ہیں کہ اللہ نے اِس کے اجرکا ذمّہ خُودلیا ہے اورشایداِسی لیے مسلمانوں کو بھی اِس ماہ میں بخشش و استغفار، گناہوں سے نجات کی جس قدر فکرلاحق ہوتی ہے، پھر گویا پورا سال نہیں ہوتی۔ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے۔ ’’یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیرو برکت کا ہے، مَیں اُس ذات پرایمان رکھتا ہوں، جس نے تجھے پیدافرمایا۔‘‘

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دُعا کی کہ ’’ہلاک ہوجائے، وہ شخص جس کو رمضان کامہینہ ملےاور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے۔‘‘ جس پرسرورِ کونین حضرت محمّدﷺ نےارشادفرمایا ’’آمین!‘‘۔ مطلب، یہ خیرو برکت ہی کا نہیں، مغفرت کا بھی مہینہ ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ’’میری اُمت کو ماہِ رمضان میں پانچ ایسی نعمتیں عطا کی گئیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی علیہ السلام کو نہ ملیں۔ پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اُن کی (اُمت کی) طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ تعالیٰ نظرِرحمت فرمائے، اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ 

دوسری یہ کہ اُن کےمنہ کی بُو (جوروزے کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک کی خُوشبو سے بھی بہتر ہے۔ تیسری یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن اُن کے لیے مغفرت کی دُعائیں کرتے ہیں۔ چوتھی یہ کہ اللہ تعالیٰ جنّت کوحُکم دیتے ہوئےارشاد فرماتا ہے’’میرے (نیک) بندوں کے لیےمزیّن ہوجا۔ عن قریب وہ دنیا کی مشقّت سے میرے گھراورکرم میں راحت پائیں گے۔‘‘ اور پانچویں یہ کہ جب ماہِ رمضان کی آخری رات آتی ہے، تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘‘

ماہِ صیام کی اِن ہی فضیلتوں، برکتوں، رحمتوں کےسبب ہر ایک مسلمان کو اپنی ہمّت و استطاعت سے کہیں بڑھ کراِس ماہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے کہ اِس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت ہے، تو آخری نارِجہنّم سےنجات کا عشرہ ہے۔ اور… اس آخری عشرے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ ہمیں احادیث میں اِن تینوں عشروں کے لیے خُوب صُورت دُعائیں ملتی ہیں، تو دُعاؤں کی قبولیت کی نوید بھی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ رمضان المبارک کے رات دن یوں بھی اِک عجب وارفتگی سی لے کر آتے ہیں۔ اِس ماہ میں خُود بخود ہی نیکیوں کی طرف رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ 

گرچہ خواتین کی ذمّےداریاں خصوصاً بڑھ جاتی ہیں۔ رمضان کی آمد سے قبل ہی گھروں کی صفائیاں سُتھرائیاں، شاپنگ، سحر و افطار کے پکوان کی تیاریوں کے لیے کمرکس لی جاتی ہے، تو رمضان کے معمولات بھی کچھ کم کٹھن نہیں ہوتے۔ اپنے روزوں، نمازوں، خصوصی عبادات، اذکار و تسبیحات، نمازِ تراویح کے ساتھ گھر بھر کے خورونوش کا خاص انتظام واہتمام بھی چوں کہ اُن ہی کے ذمّے ہوتا ہے، تو ذرا سی بھی سُستی و غفلت کی گنجائش نہیں ہوتی، پھر مددگار ملازمین کو بھی سہولت و رعایت دینے کا حُکم ہے، تو سمجھیں، اِس ماہ میں اصل امتحان تو ’’مومنات‘‘ ہی کا ہے اور ایسے میں اگر خواتین، اِس ماہِ صیام کے توسّط سے اپنے لیےکسی ساتر لباس، عبایا، اسکارف وغیرہ کے انتخاب و اہتمام کا بھی قصد کریں، تومشکل دوچند ہوجاتی ہے۔ 

جب کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ خواتین، رمضان المبارک میں کسی چھوٹی موٹی گیدرنگ میں شریک ہوں یا نمازِ تراویح کے لیے جائیں تو اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ عبایا، اسکارفس یا اسٹالرز کا اہتمام لازماً کیا جائے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ حیا کے شہر کی ساری فصیلیں…کدالِ شر سے ڈھائی جا رہی ہیں۔ تو اگر ماہِ صیام کا احترام بھی باقی نہ رہا، تو پھر باقی رہ ہی کیا جائے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ ؎ حیا سے حُسن کی قیمت دو چند ہوتی ہے…نہ ہوں جو آب تو موتی کی آبرو کیا ہے۔

اِن عبایا، اسکارفس سے نہ صرف پردے کے حُکم کی بجاآوری ہوتی ہے، خواتین خُود کو بہت محفوظ ومامون محسوس کرتی ہیں۔ اُن کے ادب و احترام میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ نت نئے ملبوسات کے جھنجھٹ سے نجات ملتی ہے، بلکہ ’’مستور‘‘ کی شخصیت کو چار چاند بھی لگ جاتے ہیں۔ نیز، عورت کی دوسروں سے ممیّز و منفرد نظر آنے کی فطری و ازلی خواہش بھی تکمیل پاتی ہے۔

سو، آج ہماری محفل، کچھ حسین ودل نشین عبایا، اسکارفس کےانتخاب ہی سے مرصّع ہے۔ ذرا دیکھیے، بےبی پنک رنگ میں انتہائی نفیس سا ایمبرائڈرڈ عبایا، ہم رنگ اسٹالر کی جاذبیت لیے ہوئے ہے، توپلین اسکارف کے ساتھ اسٹرائپڈ عبایا بھی بہت ہی پیارا تاثر دے رہا ہے۔ ڈارک پِیچ رنگ کے سیاہ کے ساتھ کامبی نیشن کا جواب نہیں، تو گہرے کا سنی اسٹالر کے ساتھ آف وائٹ عبایا کا تو لُک ہی الگ ہے۔ سیاہ و سفید کے سدابہار امتزاج میں جارجٹ کا پرنٹڈ عبایا ایک حسین انتخاب ہے، تو ڈبل ایپرن اسٹائل میں جرسی کے اسٹائلش سے عبایا کے تو کیا ہی کہنے۔ ہمارا مقصد تو ہمیشہ سے اپنی پیاری بہنوں کی مشکلات میں کچھ کمی ہی ہے، تو اگر آج بھی اِس مقصد میں کسی حد تک کام یاب ٹھہرتے ہیں، تو یقیناً کچھ اجر و ثواب بھی پالیں گے۔