تحریر: نرجس ملک
مہمان: منال
ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو، ڈی ایچ اے، لاہور
آرایش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
الحمدُللہ، ثمّ الحمدُللہ، ایک بار پھر کُل اُمتِ مسلمہ پر قاصدِ رحمٰن، تحفۂ مالکِ کون و مکان، اللہ کا مہمان، نعمتِ یزدان، دروازۂ ریّان، بخشش کا سامان، ماہِ غفران، بہارِ قرآنی، موسمِ ضیافتِ رحمانی، خلاصیٔ جہنم کی سند، مژدۂ جنّت، نیکیوں کا موسمِ بہار، ماہِ ’’رمضان المبارک‘‘ پوری آب و تاب کے ساتھ سایہ فگن ہے۔ فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک گویا رنگ و نُور کا عالم ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ گھر پر ہمارے رب کا مہمان آگیا ہے.....مولیٰ سے بخشوانے، رمضان آگیا ہے..... رحمت کے دَر کُھلے ہیں، شام سحر کُھلے ہیں..... قُربِ خدا کا لے کے سامان آگیا ہے..... لطف و کرم کے دھارے، رحمت کے یہ نظارے..... بندوں پہ اب خدا کا فیضان آگیا ہے..... ہر سُو ہے نُور و نکہت، ہر سُو ہے چھائی رحمت..... جب سے سُنو! یہ ماہِ ذی شان آگیا ہے..... دل کی کریں صفائی، مل جائے گی رہائی..... کرنے ہماری مشکل، آسان آگیا ہے..... روزے کا اجر دے گا، بندے کو رب تعالیٰ..... مولیٰ کا روزہ دارو! فرمان آگیا ہے۔ کیسی خُوش بختی وخوش قسمتی ہے ہماری کہ گیارہ مہینوں کا سردار مہینہ، رب تعالیٰ کا اپنا، پسندیدہ ماہ، عالمِ اسلام کو ایک بار پھر میسّر ہے۔
وہ ماہ، جس سے متعلق حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیثِ مبارکہ ﷺ ہے کہ ’’آدمؑ کے بیٹے کے نیک عمل کا اجر اللہ جتنا چاہے، بڑھا دے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ اِس سے مستثنیٰ ہے، کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اوراُس کی جزا بھی مَیں ہی دوں گا۔‘‘ تو ہم تو پروردگار کی صرف اِس نعمت و رحمت کا بھی حق و شُکر ادا کرنے کے قابل نہیں کہ درحقیقت ہمارے جو’’اعمالِ صالح‘‘ ہیں، اُن کے نتیجے میں تو ہم ربِ کائنات کے رحم و کرم کے لائق ہی نہیں، کُجا کہ ستّر مائوں سی محبّت و مؤدت، نرمی و ملائمت، ممتا و شفقت کی اُمید و خواہش رکھیں۔ کس قدر دُکھ، افسوس، شرمندگی و ندامت کی بات ہے ناں کہ ’’کورونا‘‘ جیسی عالم گیر وبا سے بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ ’’بےشک، انسان اپنے رب کا بڑا ناشُکرا ہے اور بے شک وہ اُس پر (انسان) خُود گواہ ہے۔‘‘ (سورۃ العٰدیٰت) وگرنہ، ہمارے معاملاتِ زندگی میں کچھ تو تبدیلی، بہتری آتی۔
اور کچھ نہیں، تو کم از کم بحیثیتِ مسلمان، ہم خونِ ناحق میں تر بہ تر، ارضِ فلسطین کے لیے تو یک جا ہوتے۔ غزہ کےمظلوم و مجبور، مغلوب و مقہور انسانوں کے لیے (جن کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہورہا ہے) بند مُٹھی نہ سہی، ایک کم زور سی زنجیر تو بنتے۔ مگر نہیں، ’’اُمتِ مسلمہ‘‘ دیگر کئی ضروری امور میں بہت مصروف ہے۔ حالاں کہ سوال تو ہم ہی سے ہوگا، مکلّف تو ہم ہی ہیں۔ اور کچھ نہیں، تو اس ماہِ عظیم کے صدقے، پورے خلوصِ نیّت، ایمان و ایقان، خشوع و خضوع کے ساتھ رب ذوالجلال کے حضور انتہائی عاجزی و انکساری سے، خوب گڑگڑا گڑگڑا کر اجتماعی دعا و مناجات ہی کا اہتمام کرلیا جائے کہ وہ قادرِ مطلق، ارحم الراحمین ہے۔ دینے، بخشنے، نوازنے پر آئے، تو ابلیس کو روزِ حشر تک کی مہلت دے ڈالے۔ قومِ بنی اسرائیل جیسی ناخلف، بھٹکی قوم پر من و سلویٰ اُتار دے۔
واقعی، قسمت کے بہت ہی دھنی ہیں ہم کہ ایک مرتبہ پھرماہِ صیام جیسے عظیم الشان، بابرکت و باسعادت، انتہائی ٹھنڈے میٹھے مہینے کے سب فیوض وبرکات سے جھولیاں، دامن بَھرنا مقدر ہوا ہے۔ گرچہ یہ ’’ایّامِ معدودات‘‘ (گنتی کے دن) ہیں، لیکن بہرکیف، ہمیں میسّر تو ہیں، وگرنہ وہ بھی ہم ہی جیسے، ہم ہی میں سے تھے، جو سالِ رفتہ ہمارے ساتھ تھے، لیکن آج ہمارے درمیان نہیں اور کیا خبر کہ ہم میں سے بھی کون کون اگلے برس ہوگا اور کون نہیں۔
گرچہ ہونا تو یہی چاہیے کہ اِک ماہِ صیام ہی میں نہیں، سارا سال بلکہ زندگی بھر ہر مسلمان کا اِک اِک قول و فعل باری تعالیٰ کے احکامات و ہدایات ہی کا پابند و عکّاس ہو، لیکن کم از کم خصوصیت سے اس ’’شہراللہ‘‘ کے تین عشروں (عشرۂ رحمت، عشرۂ مغفرت اور عشرۂ جہنم سے نجات) کے تو بھرپور احترام و اکرام کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اور اسی اہتمام کے تناظر میں ہم نے آج اپنی بزم رنگوں میں سب سے مقدّس و پاکیزہ رنگ ’’سفید‘‘ سے مرصّع کی ہے۔
ذرا دیکھیے، سفید رنگ سے’’سترپوشی‘‘ دل و نگاہ کو کیسی اُجلی و بھلی معلوم ہوتی ہے، خاص طور پر اگر دینی و مشرقی رنگ و آہنگ بھی لیے ہو، تو پھر حُسن دو آتشہ نہیں، ہزار آتشہ ہوجاتاہے۔ ایک تو پہناوا ایک سے بڑھ کر ایک، اُس پرتن کے ساتھ سَر بھی ڈھانپ رکھا ہے، توچہارسُوایک انتہائی دل کش و خُوش کُن احساس توجاگزیں ہونا ہی تھا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ تمام رنگ ہی تکنے لگے تھے حسرت سے..... سفید رنگ کی اوڑھی، جو اوڑھنی مَیں نے۔