• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے اسٹاف سطح کا معاہدہ سنگین معاشی کمزوری کے شکار ملک کی حیثیت سے ہماری وقتی کامیابی سہی، ہماری اصل منزل خود انحصاری حاصل کرنا اور ترقی کی اگلی جہتوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا ہونا چاہئے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا سبب ہی یہ ہوتا ہے کہ ایک ملک اپنی معیشت چلانے کی استعداد میں کمی کا شکار ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف اپنی شرائط پر قرضے دیتا ہے کیونکہ ایک قرض دینے والے ادارے کی حیثیت سے اسے اپنی رقم کی واپسی کی ضمانت درکار ہوتی ہے جبکہ اصلاحات اور معاشی ڈسپلن کی سختی قرض لینے والے ملک کے بھی مفاد میں ہوتی ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری پروگرام کے مالیاتی جائزے کی کامیابی سےتکمیل اور معاہدے کے بعد ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے پاکستان کو 1.1ارب ڈالر کی حتمی قسط جاری ہوگی۔ بین الاقوامی فنڈ کے بدھ کو جاری اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل الیکشن کے باعث قائم عبوری سیٹ اپ میں بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر سختی سے عملدرآمد کیا گیا جبکہ نئی حکومت نے پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کیلئے ان پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی اور مالی پوزیشن میں بہتری آئی، بہتر پالیسی مینجمنٹ کے باعث معاشی گروتھ اور اعتماد بحال ہوا ۔ تاہم اقتصادی ترقی بہت معمولی رہی، افراط زر کی شرح بھی ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کی تکمیل پرپاکستان نئے بیل آئوٹ پیکیج کا خواہشمند ہے۔ اس پیکیج کے لئے مذاکرات میں کیا اہداف مقرر ہوتے ہیں؟ کونسی نئی شرطیں عائد ہوں گی؟ ان کا اندازہ پچھلی شرطوں کی کیفیت سے لگایا جاسکتا ہے جبکہ نئے وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ نیا آئی ایم ایف پروگرام زیادہ حجم اور زیادہ مدت کا حامل ہوسکتا ہے۔ زیادہ رقم کا قرضہ حاصل کرنے اور زیادہ مدت تک پروگرام جاری رکھنے کے ضمن میں بعض غیر مقبول فیصلے سامنے آسکتے ہیں۔ مالیاتی و ادارہ جاتی اصلاحات، طریق کار کی بہتری، اداروں کا ڈسپلن میں آنا، ٹیکس وصولی بہتر ہونا ایسی باتیں ہیں جن سے آگے چل کر بعض معاملات ہموار ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ کثیر الجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے رقوم کی بحالی سے ترقی اور اعتماد کی بحالی کا عمل جاری ہے جس کے باعث آئی ایم ایف کے اعلامیے میں امید ظاہرکی گئی ہے کہ پرائمری بیلنس 401ارب روپے تک رہے گا۔ یہ بیلنس معیشت کا 0.4فیصد ہوگا۔ آئی ایم ایف کے مطابق درپیش معاشی چیلنجوں کے ساتھ گہری ہوتی اقتصادی کمزوریوں سے نمٹنے کیلئے اصلاحاتی پالیسیاں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر بین الاقوامی فنڈ بار بار زور دیتا رہا ہے۔ بیان کے مطابق نئی حکومت ان پالیسیوں پر عمل کی کوششیں جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی حکام ٹیکس بیس میں اضافے پر کاربند ہیں۔ اس باب میں کئی شعبوں کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے جن میں زراعت، سروسز، تعمیرات اور پرچون دکاندارطبقے کے افراد شامل ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں ٹیکس گریزی کے حامل شعبوں اور افراد کی شمولیت سے آمدنی بڑھے گی تو غریب طبقے کو تحفظ دینے میں مدد ملے گی۔ اعلامیے کے بموجب پاکستانی حکام نے بجلی اور گیس کی قیمتیں بروقت بڑھانے کا وعدہ کیا ہے، توانائی قیمتیں بڑھا کر گروشی قرض میں اضافہ روکنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ دیگر نکات سے بھی ظاہر ہے کہ متوسط اور نچلے طبقے کے افراد پر سخت وقت جاری رہے گا مگر ادارے ایک ڈسپلن میں آجانے کے باعث آگے جاکر آسانیاں ہوں گی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ بھی جلد طے پا جائیگا اور اس کے اہداف پورے ہونے کے بعد وطن عزیز کا عام آدمی بھاری ٹیکسوںکے بوجھ کیساتھ سرکاری مشینری کے نقائص کی سزا بھگتنے سے محفوظ ہو جائے گا۔

تازہ ترین