مولف: سیّد محمّد نظام الحق قلندر اویسیؒ
صفحات: 880، قیمت: درج نہیں
ناشر: حکیم عبدالمعبود، ڈاکٹر نوید الرحمٰن خان، مکان نمبر ایچ 131/9، ملیر، سعود آباد، کراچی۔
فون نمبر: 3207572 - 0333
سیّد محمّد نظام الحق قلندر اویسیؒ ایک صوفی بزرگ تھے۔ 1816ء میں غازی آباد ،ضلع میرٹھ( بھارت) میں پیدا ہوئے۔سِول انجینئرنگ میں ڈپلوما کیا تھا اور والد کے ساتھ مل کر ٹھیکے داری کرتے تھے۔اِس سلسلے میں راول پنڈی میں بھی وقت گزرا۔حصولِ رزق کے بعد جو وقت ملتا، ذکر واذکار میں گزارتے۔ اِسی دوران ایک روحانی اشارے پر سلسلہ قلندریہ اویسیہ کے شیخ، مولوی محمّد گل خان اویسیؒ سے بیعت ہوئے اور خلافت پائی۔ دسمبر 1941ء میں جھانسی(بھارت) میں انتقال ہوا۔ سیّد محمد نظام الحقؒ نے مریدین کی خواہش و اصرار پر 1925ء میں اِس کتاب کی تصنیف شروع کی اور 1940ء میں یہ تکمیل کو پہنچی۔
قیامِ پاکستان سے قبل اِس کے چند ابواب متفرّق طور پر شایع ہوئے، لیکن مکمل کتاب پہلی بار 1956ء میں حیدرآباد(سندھ) سے شایع ہوئی۔پھر 1984ء میں اشاریہ اور طباعت و کتابت کی غلطیوں کی درستی کے ساتھ دوسرا ایڈیشن شایع ہوا۔بعدازاں 2002ء، 2004ء اور2005 ء میں بھی اِسے شایع کیا گیا اور اب اِس کتاب کا جدید ایڈیشن منظرِ عام پر آیا ہے۔ناشر نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ مجاز، سلیم احمد( سابق صدر شعبۂ فارسی، سندھ یونی ورسٹی، جام شورو) نے2005 ء کے ایڈیشن کے لیے مواد کو فارسی سے اُردو میں ڈھالا۔یہاں ایک اُلجھن ہے کہ کیا اِس سے پہلے کے ایڈیشنز فارسی زبان میں تھے یا حضرت سلیم احمد نے کتاب میں شامل کچھ فارسی مواد کا اُردو میں ترجمہ کیا تھا۔
بہرحال، یہ ضخیم کتاب دو حصّوں میں تقسیم ہے۔ پہلے حصّے میں، جو تقریباً 70 صفحات پر مشتمل ہے، حضرت اویس قرنیؒ کے تفصیلی حالاتِ زندگی بیان کیے گئے ہیں، بعدازاں قلندرانِ اویسیہ کے عنوان کے تحت اِس سلسلے کے بعض بزرگوں کا تذکرہ ہے۔ اِسی ذیل میں کتاب اور صاحبِ کتاب کا بھی احوال ہے۔پھر’’ اسلام، ابتدا و انتہا، محبّت‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شامل کیا گیا ہے۔حصّہ دوم میں پیش لفظ اور دیباچہ کے بعد85 صفحات پر مشتمل مقدمہ ہے۔
صفحہ171 سے اصل کتاب کا آغاز ہوتا ہے، جو24ابواب پر مشتمل ہے اور اِن ابواب کے عنوانات بے ثباتیٔ دنیا، مذہب، ایمان و اسلام: مدارج یقین، فضیلتِ فقر، تَرکِ دنیا، توبہ، علمائے بدعمل، صوفیانِ تصنّع ساز، رہنمائے اعظمﷺ کا پیغامِ عمل، نمازِ شریعت، جہادِ اکبر، ذکرِ حق سبحانہ و تعالیٰ، فکر، تفکّر، عشقِ الہٰی، بزمِ عرفان، نمازِ طریقت، عبادت حقیقت، جلوۂ وحدت کا نظارہ، بصارت اور بصیرت، توحید، قضا و قدر اور فقر ہیں۔گو کہ یہ کتاب تصّوف یا روحانیت کے نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہے تاکہ سالکینِ طریقت اِس سے استفادہ کرتے ہوئے اپنا سفر کام یابی سے طے کرسکیں، تاہم، اہم بات یہ ہے کہ مصنّف اُسی تصوّف کے قائل ہیں، جو اسلام کے تابع ہے۔اُنھوں نے کتاب کا پورا ایک باب ایسے نام نہاد صوفیا کے رَد میں تحریر کیا ہے، جو تصّوف کے نام پر خلقِ خدا کو گم راہ کر رہے ہیں۔ دوہزار سے زاید عنوانات پر مشتمل کتاب کا اشاریہ ’’نصابِ توحید‘‘ کے عنوان سے ایک الگ کتاب کی صُورت شایع کیا گیا ہے، جس کے176 صفحات ہیں۔