محمّد اقبال شاکر، میاں والی
مغلیہ دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے سجا تھا، جنہیں امرا، رئوسا اور عمائدینِ سلطنت تناول فرما رہے تھے۔ مغلیہ سلطنت کا بانی، ظہیر الدّین بابر بھی شریکِ محفل تھا۔ اس دوران ایک افغان جرنیل اُس کے سامنے سے گوشت کا ایک بڑا سا پارچہ اٹھا کرکھانے لگا۔ ظہیر الدّین بابر اُس جرنیل کی جراتِ رندانہ پر حیران ہوا اور اُسے فوراً اندازہ ہوگیا کہ مستقبل میں یہ جرنیل اُس کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بعد ازاں، ظہیر الدّین بابر نے مَرنے سے پہلے اپنے بیٹے، ہمایوں کو نصیحت کی کہ وہ اس شخص سے ہوشیار رہے، کیوں کہ وہ اس کی حکومت کا تختہ اُلٹ سکتا ہے اور پھر بانی مغلیہ سلطنت کا یہ اندازہ دُرست ثابت ہوا۔
وہ افغان جرنیل کوئی اور نہیں بلکہ فرید خان تھا، جو شیر شاہ سوری کے نام سے مشہور ہوا۔ فرید خان، المعروف شیر شاہ سوری 1486ء میں سہسرام (بہار) میں پیدا ہوا۔ اُس کے والد کا نام، حسن خان سوری اور دادا کا ابراہیم خان سوری تھا، جو ابراہیم لودھی کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا۔ شیر شاہ سوری نے پہلے جون پور کے نواب کے ہاں ملازمت اختیار کی اور پھر بہار کے حاکم، سلطان محمّد کے پاس خدمات انجام دینےلگا۔ یہ اُسی دَور کا مشہور واقعہ ہے کہ شکار کے دوران ایک جنگلی شیر سلطان پر حملہ آور ہوا، تو فرید خان نے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس شیر کا سَر دھڑ سے الگ کر دیا اور اس جواں مردی پر اُسے ’’شیر خان‘‘ کا خطاب ملا۔
اس واقعے کے بعد سلطان محمّد نے فرید خان کو اپنے بیٹے، جلال خان کا اتالیق مقرّر کر دیا۔ تاہم، جلال خان ریاست نہ سنبھال سکا اور فرید خان نے اپنی حُکم رانی قائم کر لی۔ 1537ء میں شیر شاہ سوری نے بنگال اور بنارس فتح کیا اور پھر چنار، جان پور اور قنوج میں اپنی حُکم رانی قائم کی۔ 1539ء میں شیر شاہ سوری نے مغل فوج پر حملہ کیا اور ہمایوں کی فوج کو چوسہ کی لڑائی میں شکست دے کر اس کے پہلے دَورِ حُکم رانی کا خاتمہ کیا۔ مغلیہ فوج کو شکست دینے کے بعد شیر شاہ سوری نے ظہیر الدّین بابر کا تابوت دہلی سے نکال کر کابل میں دفن کر دیا تاکہ ہندوستان سے مغلوں کا نام و نشان تک مٹ جائے۔
اصلاحات: شیر شاہ سوری نے ہندوستان پر سات سال حُکم رانی کی اور اس دوران اس نے متعدد کارہائے نمایاں انجام دیے، جن میں جی ٹی روڈ کی تعمیر، سرائے کا قیام، تجارت کا فروغ، کسانوں کو سہولتوں کی فراہمی اور ڈاک کے نظام کی اصلاح شامل ہے۔ نیز، زمین اور پیداوار پر ٹیکس کا نظام بھی متعارف کروایا۔ علاوہ ازیں، شیر شاہ سوری نے اپنے دَورِ حکومت میں اپنے نام کے سکّےجاری کیے اور مختلف شاہ راہیں بھی تعمیر کیں، جن میں مشہورِ زمانہ جی ٹی (گرینڈ ٹرنک) روڈ یا جرنیلی سڑک بھی شامل ہے، جب کہ یونیسکو کی عالمی وَرثے کی فہرست میں شامل ضلع جہلم میں واقع ،قلعہ روہتاس بھی شیر شاہ سوری ہی نے تعمیر کروایا تھا، تاکہ کابل سے حملہ آوروں کا روکو جا سکے اور سرحد محفوظ رہے۔ شیر شاہ سوری کا خیال تھا کہ لاہور، جو دہلی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں آتا تھا، باغیوں کی پناہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے اور کچھ مؤرخین کے مطابق وہ لاہور شہر کو تباہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔
بہرکیف، کالنجر کے قلعے کا محاصرہ شیر شاہ سوری کی آخری لڑائی ثابت ہوا۔ مذکورہ قلعے کی دیواریں بہت مضبوط تھی۔ اُنہیں توڑنے کے لیے شیر شاہ سوری نے بارود کا استعمال کیا اور بارود پھٹنے سے وہ زخمی ہو گیا، جس کے دو دن کے بعد ہی اُس کا انتقال ہو گیا۔ تاہم، اپنی موت سے قبل اُس نے کالنجر کے قلعے کی فتح کی خوش خبری سُن لی تھی۔ شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد اس کا بیٹا، سلیم شاہ سوری تخت نشین ہوا اور بیٹے کی موت کے بعد اُس کا بیٹا فیروز سوری حکم راں بنا، لیکن اس کا ماموں بہار خاں اُسے قتل کر کے خود تخت نشین ہو گیا اور اس کے بعد سکندر شاہ سوری نے تخت سنبھالا، جو ہمایوں کے خلاف جنگ میں مارا گیا اور یوں سوری سلطنت کا خاتمہ اور مغلیہ عہد کے دوسرے دَور کا آغاز ہوا، جس میں اکبر، جہاں گیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب جیسے حُکم راں گزرے، جنہوں نے کم و بیش تین سو برس تک اس خطّے پر حُکم رانی کی۔