ولادمیر پیوٹن پانچویں مرتبہ روس کے صدر منتخب ہوگئے ہیں اور وہ2030 ء تک اِس عُہدے پر فائز رہیں گے۔ گویا اُن کا دَورِ حُکم رانی تیس سال تک پہنچ رہا ہے اور ممکن ہے کہ 2030ء کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے۔روس کی دو سوسالہ تاریخ میں پیوٹن کا دورِ اقتدار سب سے طویل ہے، یہاں تک کہ جدید روس کے بانی، اسٹالن بھی اِس دوڑ میں اُن سے پیچھے رہ گئے۔صدر پیوٹن کی عُمر اِس وقت71سال ہے۔مارچ کے وسط میں ہونے والی پولنگ کے نتائج کے مطابق، پیوٹن نے88فی صد ووٹ حاصل کیے، جو روس کی تاریخ میں کسی بھی صدارتی امیدوار کو سب سے زیادہ پڑنے والے ووٹ ہیں، جب کہ ٹرن آئوٹ تقریباً75 فی صد رہا۔
ان کے مقابلے میں چار صدارتی اُمیدوار تھے، جنھیں نہ ہونے کے برابر ووٹ ملے۔ اُن کے ایک بڑے مخالف اپوزیشن رہنما، نیوالائی چند ہفتے قبل انتقال کرگئے تھے۔صدر پیوٹن نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ’’ اِس فتح سے ثابت ہوگیا کہ مغرب سے مقابلے کے لیے یوکرین پر حملہ ایک درست قدم تھا۔ ہمیں کوئی نہیں دَبا سکتا اور نہ ہی روس کبھی کسی سے دَبا۔‘‘اِس وقت روس کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔
ایک تو یوکرین جنگ ہے، جو خود پیوٹن نے دوسال پہلے شروع کی تھی، جب کہ دوسرا بڑا مسئلہ اُن پابندیوں کا ہے، جو امریکا اور یورپ نے روس پر عاید کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے اُسے تیل اور گیس تقریباً 30 سے40 فی صد کم قیمت پر فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔ پیوٹن کے پھر سے صدر منتخب ہونے سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ روس کے عوام نے اُن کی ہر پالیسی قبول کی ہے، خاص طور پر یوکرین جنگ کی، جس کے سبب عوام کو معاشی سختیاں بھی جھیلنی پڑ رہی ہیں۔امریکا اور بیش تر مغربی ممالک نے روس کے صدارتی انتخابات یہ کہہ کر مسترد کر دئیے کہ’’ یہ فِری اور فیئر نہیں تھے‘‘، جب کہ بہت سے ممالک نے صدر پیوٹن کو مبارک باد دی ہے۔
روس ایک بڑی طاقت ہے اور گزشتہ صدی کے آخر میں بکھرنے سے پہلے سوویت یونین امریکا کے بعد دوسری عالمی سُپر پاور تھی۔ وسط ایشیا کی گیارہ مسلم ریاستیں اِس فیڈریشن کا حصّہ تھیں۔یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مُلک ہے، جس میں تین ٹائم زونز ہیں۔اس کی آبادی لگ بھگ15 کروڑ ہے۔ ماسکو اس کا دارالحکومت ہے اور سینٹ پیٹرز برگ دوسرا بڑا شہر۔گو، روس میں ملٹی پارٹی سسٹم ہے، مگر یہاں صدارتی نظام رائج ہے، جب کہ کمیونزم اور سوویت یونین کی بانی جماعت، کمیونسٹ پارٹی آج بھی سب سے مضبوط جماعت ہے۔ اقتصادی لحاظ سے اِس کا دنیا میں گیارہواں نمبر ہے۔یہ یورپ کو گیس سپلائی کرنے والا اہم ترین مُلک ہے، اس کی گیس کمپنی، Gazprom دنیا کی سب سے بڑی انرجی کمپنی ہے، جب کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا مُلک بھی ہے۔
یوکرین جنگ اور روس کی جانب سے اجناس اور انرجی وسائل کی بندش نے دنیا بَھر کے غریب، امیر ممالک کو یک ساں طور پر منہگائی کی آگ میں جھونک دیا، جس کے اثرات پاکستان جیسے ممالک میں بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں، جہاں منہگائی سیاسی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ بنی۔نیز روس، دنیا کے سب سے زیادہ نیوکلیئر ہتھیار رکھنے والا مُلک ہے، جب کہ اِس کی فوج دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے۔ ولادمیر پیوٹن، سوویت انٹیلی جینس ایجنسی ’’کے جی بی‘‘ میں کرنل کے عُہدے پر تعینّات تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے بھی سرگرم کارکن تھے۔2000 ء میں اقتدار میں آئے اور سوائے ایک مرتبہ کے، اب تک اِس عُہدے پر فائز ہیں۔ 2012 ء میں اُنہوں نے آئین میں تبدیلی کرکے وہ شق ہی حذف کردی، جس کے مطابق صدر کے لیے دو ٹرمز کی قید تھی، اِس طرح اب وہ تاحیات صدر رہنے کے اہل ہیں۔
صدر پیوٹن کا ویژن روس کو دوبارہ سُپر پاور بنانا ہے اور اُن کا یہ قول اکثر دُہرایا جاتا ہے کہ’’ اگر روس نہیں، تو کچھ بھی نہیں۔‘‘اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ جب پیوٹن نے مُلک کی باگ ڈور سنبھالی، تو عوام میں بہت زیادہ مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ مُلک ایک مرتبہ ڈی فالٹ بھی کرچُکا تھا۔ مغربی طاقتیں اِسے ایک کم زور مُلک تصوّر کرنے لگی تھیں، حالاں کہ یہ گیس اور تیل جیسے ذخائر سے مالا مال ہے۔صنعتی لحاظ سے اِس نے سوویت دَور میں قابلِ رشک ترقّی کی تھی۔ ٹیکنالوجی میں بھی نمایاں تھا اور خلا میں پہنچنے والا پہلا مُلک تھا۔ پیوٹن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اِسے ایک نیا ویژن دیا اور عظمتِ رفتہ کی بحالی کا ہدف مقرّر کیا اور پندرہ برسوں ہی میں روس کو پھر سے ایک بڑی طاقت بنادیا۔ ویٹو پاور تو اُس کے پاس پہلے ہی تھی، لیکن دنیا کے تمام اہم اقتصادی فورمز نے بھی اِسے ایک قوّت تسلیم کیا۔ اب روس جی۔8، جی۔20، شنگھائی فورم اور برکس بینک جیسے اہم عالمی و علاقائی فورمز کا ایک فعال رُکن ہے۔
اگر مغربی ممالک کی طرف سے پیوٹن کے پانچویں مرتبہ انتخاب پر شدید تنقید ہوئی، تو اس کے مقابلے میں علاقے کے اہم ممالک نے اُنہیں منتخب ہونے پر فوراً مبارک باد بھی دی۔چین کے، جو علاقے کی سب سے بڑی اور عالمی طور پر دوسری بڑی معیشت ہے، صدر شی جن پنگ نے اپنے پیغام میں کہا کہ’’ پیوٹن کی لیڈرشپ میں روس یقیناً نئے کارنامے انجام دے گا اور زیادہ ترقّی کرے گا۔‘‘بھارت کے وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے کہا کہ وہ پیوٹن کی لیڈرشپ میں دہلی اور ماسکو کے دیرینہ، خصوصی اور اسٹریٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ جب کہ مشرقِ وسطیٰ کے اہم ترین مُلک، سعودی عرب کے ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان نے روسی صدر کی فیصلہ کُن فتح کی تعریف کی۔
اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی مُلک میں ہونے والے انتخابات پر مختلف ممالک کی کیا سوچ ہوتی ہے۔اِس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ صدر پیوٹن کو اپنی حکومت تسلیم کروانے کی کوئی پریشانی نہیں اور اُن کے نزدیک مغربی تنقید لفّاظی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ایک لحاظ سے یہ طریقۂ کار اب بین الاقوامی سیاست کا حصّہ بن چُکا ہے۔امریکا یا مغربی ممالک، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، تاہم اُن کا عمل اِس سلسلے میں امتیازی ہے۔ وہ پاکستان جیسے کم زور معیشت کے حامل ممالک کو ہر وقت دبائو میں رکھتے ہیں، اُن کی جمہوریت اور انتخابات پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں، جس سے ہمارے اہلِ دانش اور میڈیا ماہرین بھی بہت متاثر ہیں۔
ویسے تو مغربی دنیا کو اِن ممالک کے استحکام یا مضبوطی کی کوئی پروا نہیں، لیکن تنقید بڑھ چڑھ کر کرتی ہے اور جب اُن کا کسی طاقت وَر مُلک سے پالا پڑتا ہے، تو فوراً پسپائی اختیار کر لیتے ہیں اور امن کے عَلم بلند کرنے لگتے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال روسی انتخابات ہیں۔ اگر مغربی دنیا کے اہلِ دانش اور میڈیا کا جائزہ لیا جائے، تو یوں لگے گا، گویا یہ انتخابات دنیا میں قیامت کا باعث ہوں گے۔ اِس طرح کی تنقید کا مقصد دباؤ ڈالنا ہوتا ہے اور اپنی اُس طاقت کو مضبوط کرنا ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ ثالث کا کردار ادا کر سکیں۔وگرنہ، جب بھی اُن کا واسطہ مضبوط ممالک سے پڑتا ہے، چاہے وہ چین ہو یا روس، تو پُرامن حل کا سہارا لے کر پسپائی اختیار کرلیتے ہیں۔
جیسے چیچنیا، کریمیا یا یوکرین کے روسی بولنے والے حصّوں پر روسی قبضہ، شام پر روس کی مسلسل بم باری سے لاکھوں افراد کی بے گھری اور ہلاکت اور عراق کی تباہی وغیرہ۔یہ سب ان کے مفادات کے تحت ہوتا ہے اور کم زور ممالک کی حکومتیں ان کے جمہوری اور انسانی حقوق کے بھاشنوں کے آگے سر جُھکانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ صدر پیوٹن، مغرب کی اِس کم زوری کو بخوبی سمجھ چُکے ہیں اور وہ انہیں اپنے فوجی یا معاشی عزائم کی تکمیل میں ذرّہ بھر بھی خاطر میں نہیں لاتے۔بعد میں مذاکرات کی میز پر امریکا اور مغربی لیڈر اسے پُرامن حل کے نام پر تسلیم کر لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ دنیا کے امن کی خاطر اُنہوں نے کیسی شان دار ڈپلومیسی دِکھائی۔
اصل میں کم زور ممالک کو، خاص طور پر جن کی معیشت لڑکھڑا رہی ہو اور دوسروں کے سہارے چلتی ہو، اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا اب بھی طاقت کے اصول پر چلتی ہے۔ چاہے یہ فوجی طاقت ہو، معاشی یا پھر دونوں نوعیت کی۔ایک زمانے میں یہی مغربی میڈیا صدر پیوٹن کو دنیا کے سب سے بہترین اور چارمنگ حُکم ران کے طور پر پیش کرتا رہا اور ان کی پالیسیز پر اُنہیں’’ آئرن مین آف دی ورلڈ‘‘ کے لقب سے یاد کرتا۔ یہاں تک کہ شامی خانہ جنگی میں جب صدر اوباما نے پیوٹن کے مقابلے میں پسپائی اختیار کی تو کہا گیا کہ’’ اوباما، پیوٹن کے مقابلے میں بے وقوف بن گئے۔‘‘
صدر پیوٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ’’ سوویت یونین کا بکھرنا بیسویں صدی کی سب سے بڑی تباہی تھی۔‘‘اور وہ اپنی صدارت کے آغاز ہی سے اِس تباہی کے تدارک میں مصروف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب یوکرین جنگ مزید جاری رہے گی، جسے امریکا اور یورپ مل کر بھی رُکوانے میں ناکام ہیں۔ بظاہر پیوٹن کی حکمتِ عملی اب تک کام یاب ہے اور وہ تمام مغربی معاشی پابندیوں کے باوجود جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، جب کہ ساتھ ہی اُنہوں نے یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے سے بھی روک رکھا ہے۔ صدر پیوٹن نے اپنی جیت کو اِس جنگ کے لیے زبردست حمایت قرار دیا۔
یعنی فی الحال تو وہ دبائو میں نہیں آئیں گے کہ سستا تیل فرخت کرنے کے باوجود اپنے چھے سو بلین ڈالرز کے محفوظ ذخائر سے روسی معیشت کو گرنے سے روکنے میں کام یاب ہیں۔ اُنہوں نے مغربی ترقّی یافتہ ممالک ہوں یا انتہائی غریب ایشیائی اور افریقی ممالک، سب کو منہگائی اور معاشی تباہی میں مبتلا کیا ہے، مگر وہ اس کی ذمّے داری لیتے ہیں اور نہ ہی اِس ضمن میں امداد دینے کی کوئی بات کرتے ہیں۔ گویا یہ بوجھ بھی اُنہوں نے کام یابی سے مغربی ممالک پر ڈال دیا۔
آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقّیاتی بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے اِس بحران سے نبرد آزما ہونے میں کچھ خاص کام یاب دِکھائی نہیں دیتے، کیوں کہ وہ ترقّی پذیر ممالک کی خاطر خواہ امداد نہیں کر سکے، بلکہ اُلٹا عوام پر مزید ٹیکسز لگوا کر اُنھیں بے حال اور سیاسی نظاموں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا باعث بنے۔ شاید، یہ عالمی مالیاتی ادارے معاشی طور پر مضبوط ممالک کو تو کسی بحران سے نکال سکتے ہیں، جیسے 2007ء میں عالمی مالیاتی بحران میں دیکھا گیا، لیکن یہ ادارے وقت پڑنے پر کم زور ممالک کو مزید کم زور کردیتے ہیں۔
صدر پیوٹن کا بنیادی ایجنڈا یہی ہے کہ وہ روس کو عالمی طور ایک بڑی طاقت تسلیم کروا لیں اور دنیا سے اپنے نظریے کی برتری دوبارہ منوا لیں، جب کہ اُنھوں نے اپنا سیاسی نظام تو حالیہ انتخابات کے ذریعے دنیا سے منوا ہی لیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اِس مرتبہ امریکی صدارتی انتخابات کے فرنٹ رنر ہیں، حال ہی میں کہا ہے کہ یوکرین جنگ ختم کروانا اُن کا بڑا مقصد ہوگا تاکہ عالمی امن قائم ہوسکے اور دنیا ترقّی کی طرف بڑھ سکے۔ یہ اُس سوچ کے بالکل اُلٹ ہے، جس میں روسی حملے کو دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ پر سب سے بڑا حملہ قرار دیا گیا۔
صدر پیوٹن کی پالیسی غزہ پر بہت دھیمی رہی،غالباً اُنہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اپنی اسرائیل سے دوستی کی وجہ سے اِس معاملے میں کوئی خاص کردار ادا نہ کریں۔ پھر سعودی ولی عہد کے تہنیتی پیغام سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر پیوٹن غزہ معاملے میں سعودی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں، حالاں کہ سوویت دَور کے روسی رہنما، فلسطین کی تحریکِ آزادی اور اُس کی کارروائیوں کی زبردست حمایت کرتے رہے، جب کہ وہ عرب سوشلسٹ ممالک مِصر، عراق، شام اور لیبیا کے بھی حمایتی تھے اور اُنہیں فوجی و مالی امداد بھی دیتے رہے۔
واضح رہے، جمال ناصر، حافظ اسد، صدّام حسین اور قذّافی خُود کو سوشلسٹ لیڈر کہتے تھے۔ پیوٹن نے عرب دنیا میں طاقت کا توازن بدلنے کے بعد سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والوں سے قربت اختیار کر لی ہے۔نیز، وہ افغانستان میں بھی کوئی دل چسپی نہیں لے رہے کہ سوویت یونین کے بکھرنے کو نہیں بُھولے۔ صدر پیوٹن نے چین سے تعلقات میں وسعت دی اور انہیں بہت مضبوط بھی کیا۔ان کی کوشش رہی کہ مغربی پابندیوں کا توڑ نکالنے کے لیے چین سے مدد حاصل کریں، جو اُن کی طرح ایک کمیونسٹ مُلک ہے اور وہ اِس کوشش میں کام یاب بھی رہے۔
غالباً اگلے چھے برسوں میں وہ یہ پالیسی جاری رکھیں گے۔ اُن کے جیتنے سے ٹرمپ کے بھی منتخب ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، کیوں کہ اب امریکی عوام بھی چاہیں گے کہ اُن کے لیڈرشپ بھی کسی قوم پرست رہنما کے پاس رہے، جو امریکی برتری یقینی بناسکے۔ یہاں اُس بڑھتے رجحان کا ذکر بھی ضروری ہے،جس کے تحت دنیا میں طویل حُکم رانیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ صدر پیوٹن30 سال، صدر شی جن پنگ تاحیات، صدر اردوان28 سال اور اگر مودی مئی میں ہونے والے انتخابات میں جیتے، تو اُن کا اقتدار بھی پندرہ برس پر محیط ہو جائے گا۔ اُدھر مرکل بھی 18 برس تک جرمنی پر راج کرتی رہیں۔ یہ ترقّی یافتہ اور دولت مند مُلک مانے جاتے ہیں، تو کیا اِس سے یہ سمجھا جائے کہ اِن ممالک کے عوام حُکم رانی کی طوالت کو ترقّی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔