• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی، میدانِ سیاست کا کوئی عجوبہ نہیں اور نہ ہی یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ کوئی سیاست دان، ایک بار اقتدار میں رہنے کے بعد دوبارہ نہ صرف انتخاب لڑ رہا ہو، بلکہ عوامی مقبولیت میں بھی سب سے آگے ہو، جب کہ ٹرمپ تو پاپولزم کی سیاست کے ماہر ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ڈونلڈ ٹرمپ کی نااہلی سے متعلق میڈیا میں تواتر سے پھیلائے گئے خدشات ختم کردیئے۔ 

فیصلے کے بعد ٹرمپ اِس سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب لڑنے کے قانونی طور پر اہل ہوچُکے ہیں، جب کہ سیاسی اور عوامی میدان میں تو وہ پہلے ہی سب سے آگے ہیں۔اِس فیصلے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ کسی بھی صوبائی عدالت کو اختیار نہیں کہ وہ وفاقی صدارتی عُہدے کے کسی اُمیدوار کی نااہلی کا فیصلہ دے۔اُدھر سیاسی میدان میں قسمت ایک مرتبہ پھر ٹرمپ کا ساتھ دے رہی ہے کہ15 میں سے 14 پرائمری مقابلوں میں اُنہوں نے تقریباً کلین سویپ کرلیا اور اپنی مقابل اُمیدوار، نکی ہیلے کو اِس بُری طرح شکست دی کہ وہ صدارتی اُمیدوار کے مقابلے ہی سے دست بردار ہو گئیں۔

دوسری طرف، صدر جوبائیڈن نے بھی اپنی جماعت کی طرف سے پندرہ میں سے پندرہ ریاستوں میں برتری حاصل کر لی اور یوں نام زَدگی کے تقاضے پورے کر لیے۔اِس طرح یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ سال کے آخر میں ہونے والا امریکی صدارتی مقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان ہوگا۔عموماً کہا جاتا ہے کہ امریکا یا مغربی ممالک میں کوئی بھی اقتدار میں آئے، جائے، لانگ ٹرم پالیسیز کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔

تاہم، یہ مفروضا ٹرمپ کے معاملے میں تو بالکل بھی لاگو نہیں کیا جاسکتا۔اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی اُنہوں نے کئی خارجہ اور اندرونی پالیسیز یک سَر تبدیل کر دی تھیں، میڈیا ماہرین کے تمام تر تجزیوں اور دبائو کے باوجود اپنی پالیسی خود مختار رکھی، جس پر آج تک امریکا ہی نہیں، مغرب کا آزاد اور طاقت وَر میڈیا بھی اُن سے ناراض ہے اور اُن کے مخالف کو مسلسل سپورٹ کر رہا ہے۔ویسے بھی میڈیا کی ہر مُلک میں یہی خواہش ہوتی ہے کہ حکومت اُس کے مشوروں پر چلے، وگرنہ تنقید کے لیے تیار رہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ76 سال کی عُمر کے ہیں، جب کہ جوبائیڈن80سے اوپر کے۔دیکھا جائے، تو امریکی عوام جہاں دیدہ، تجربہ کار اور پیرانہ سال سربراہ پسند کرتے ہیں۔ ویسے ٹرمپ غیر روایتی سیاست کرتے ہیں۔ جب وہ پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے، تو کہا گیا کہ امریکا کی275سالہ جمہوری تاریخ میں وہ منفرد ہیں۔ اُن کی سب سے بڑی خُوبی، جو امریکیوں کو پسند آئی، قوم پرستی کی پالیسی تھی اور اُن کے نعرے’’ امریکا فرسٹ‘‘ کی گونج اب بھی عوام کے کانوں کو بھاتی ہے۔ امریکی شہری عالمی مالیاتی بحران اور کورونا کے بعد معاشی دبائو سے بہت پریشان ہیں۔

اُن کی خواہش ہے کہ وہ نہ صرف فوجی، سیاسی بلکہ معاشی طور پر بھی عالمی معاملات کی قیادت کریں، اِسی لیے اُنھیں اِس کی بہت کم پروا ہے کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے اور افغانستان کیسے چل رہا ہے۔ یہ اُن کے لیے انسانی حقوق سے متعلق معمول کے معاملات اور بیانات سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ تو ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے ماہرین ہیں، جو ایسے بیانات کو انتہائی سنجیدہ لیتے ہیں اور میڈیا انھیں شہ سرخیوں میں لیتا ہے۔یہی دیکھیے، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو پانچ ماہ سے زاید ہوچُکے ہیں، لیکن سوائے چند ایک انفرادی آوازوں کے، امریکا میں بہت کم لوگوں کو اِس معاملے کی پروا ہے۔شاید کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہوں کہ یہ آوازیں ویت نام معاملے کی طرح پالیسیز پر اثر انداز ہوں گی، لیکن وہ بھول گئے کہ یہ سرد جنگ کا زمانہ ہے اور نہ ہی یہ علاقہ انڈوپیسیفک ہے۔

اسرائیل کے ساتھ جوبائیڈن بھی کھڑے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی۔اِس معاملے پر امریکی پالیسی میں تسلسل پایا جاتا ہے، بلکہ ٹرمپ تو عربوں اور اسرائیل کو قریب لانے میں ذاتی طور پر اہم کردار ادا کرچُکے ہیں۔ اُن کے داماد اُن مذاکرات کے روحِ رواں تھے، جو ان ممالک کے درمیان ٹرمپ دَور کے آخری دنوں میں ہوئے۔پھر ایک اہم معاملہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کی بحالی کا بھی ہے۔یہ ڈیل ٹرمپ ختم کر گئے تھے اور پھر جوبائیڈن دَور میں ایران کی تمام تر خواہشات، ڈیمو کریٹک حکومت سے پسِ پردہ اچھے تعلقات اور یورپی یونین سے ہم آہنگی کے باوجود یہ ڈیل بحال نہ ہوسکی۔

اب اگر ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں، تو اِس ڈیل کی بحالی مزید مشکل ہوگی۔شاید ،اِسی لیے چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ کروا کے اس کے منفی اثرات کم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن غزہ کی جنگ نے ایران کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ اس لڑائی میں شامل حماس، حزب اللہ، حوثی، شامی اور عراقی گروپس ایران کی مشرقِ وسطیٰ کی پراکسیز ہیں، جنہیں وہ عرب اور مغرب پر دباؤ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فوجی ماہرین ایک اور غلطی کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ غزہ جنگ میں تمام مسلّح تنظیمیں اسرائیل، امریکا اور مغرب کا ہدف بنیں اور سب نے نقصان اُٹھایا۔

اس کی مثال حزب اللہ اور حوثی باغیوں کی سمندری کارروائیاں ہیں، جو جواب ملنے پر خاموش ہیں۔ افغانستان سے امریکا کی واپسی سے قبل پاکستان کا کچھ کردار تھا، جو اب بالکل ختم ہوگیا، اِسی لیے غزہ کے معاملے میں کسی بھی عرب مُلک یا امریکا نے اسلام آباد سے مشورہ تک کرنا پسند نہیں کیا۔علاوہ ازیں، پاکستان کی کم زور معیشت نے اسے اسلامی دنیا میں غیر فعال کردیا ہے، اِسی لیے ضروری ہے کہ اگر یہاں کے عوام مشرقِ وسطیٰ یا اسلامی بلاک میں کسی اہم کردار کے خواہش مند ہیں، تو انہیں جذبات کی بجائے معیشت پر توجّہ دینی ہوگی۔

ٹرمپ، چین اور روس دونوں سے ٹکر لیتے ہیں کہ وہاں بھی صدر شی جن پنگ اور صدر پیوٹن جیسے نیشنلسٹ لیڈر ہیں، لیکن ایک تاجر ہونے کے ناتے ٹرمپ، چین کو بڑا مقابل سمجھتے ہیں۔اُنھوں نے پہلے بھی چین پر بہت سے تجارتی ٹیرف لگائے تھے۔اُن کا یقین ہے کہ چین کی تجارتی برتری کی وجہ سے امریکی اکانومی دباؤ میں آتی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں وہ امریکا، چین دو طرفہ تجارت میں تین ارب ڈالرز کے تجارتی خسارے کو امریکی معیشت، خاص طور پر روزگار کے مواقع میں کمی کا ذمّے دار قرار دیتے تھے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چین کی معاشی برتری کو کُھلا راستہ نہیں دینا چاہتے۔

اب تک صدارتی مقابلے کے بنیادی قومی نکات پر بحث شروع نہیں ہوئی، لیکن ٹرمپ کی چین سے متعلق سوچ نہیں بدلی، تاہم امریکا کی ٹاپ قیادت چاہے کیسی ہی سوچ کی حامل کیوں نہ ہو، وہ کبھی بھی مُلک و قوم کے مفاد کے خلاف نہیں جاتی۔ہمارے رہنماؤں کی طرح نہیں کہ ایک نہیں، دو مرتبہ آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا کہ پاکستان کا پروگرام روک دیا جائے۔ٹرمپ نہ صرف چین کے خلاف رہے، بلکہ پیوٹن اور روس کو بھی بہت باندھ کے رکھا۔اُنہوں نے شام میں روسی تنصیبات پر بحرِ روم سے میزائل حملے کروا کے اُنہیں تہس نہس کردیا اور روس کچھ نہ کر سکا۔

ٹرمپ کے خیالات اپنے اتحادیوں سے متعلق بھی بالکل مختلف ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آکر یوکرین کی امداد بند کروا دوں گا، کیوں کہ یہ یورپ کی جنگ ہے اور سرمایہ اُسے ہی خرچ کرنا چاہیے۔اپنے پہلے دَور میں اُنہوں نے نیٹو کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یورپی اتحادیوں کو نیٹو کے دفاعی اخراجات میں اپنا حصّہ ادا کرنے پر مجبور کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکا کیوں یورپ کی دفاعی ذمّے داریاں مفت میں پوری کرے۔جب اِس قدر قریبی اتحادیوں سے متعلق ٹرمپ کے ایسے خیالات ہیں،تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں کیسے خیالات رکھتے ہوں گے۔ 

ٹرمپ نے صرف پیسیفک ریجن میں امن کو ترجیح دی، کیوں کہ اب یہ امریکا کی قومی پالیسی ہے کہ اُس کی تمام تر برتری اِسی علاقے میں ہوگی۔ اپنے پہلے دَور میں جسے وہ فائر اور فیوری سے مٹانے کی دھمکیاں دیتے تھے، اُسی شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ سے دو مرتبہ ملاقات کرکے جزیرہ نُما کوریا کو نیوکلیئر فِری زون کے طور پر منوایا، جو اُن کی ایک بڑی کام یابی مانی جاتی ہے۔

صدر ٹرمپ تارکینِ وطن کے سخت دشمن ہیں اور وہ بار بار کہتے ہیں کہ اگر اُن کا بس چلے، تو وہ انہیں فوراً مُلک سے نکال باہر کریں، کیوں کہ ان کے مطابق، یہ تارکینِ وطن امریکی مفادات، خاص طور پر اس کی معیشت اور پالیسی نفاذ کے لیے سخت مشکلات کا باعث ہیں۔ وہ میڈیا کی آزادی کے قائل نہیں ہیں، جب کہ کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو امریکا کا سخت دشمن گردانتے ہیں، جیسے ٹک ٹاک، جو چینی ہے اور امریکی نوجوانوں میں بہت مقبول ہے۔اِسی طرح وہ فیس بُک کو بھی امریکا مخالف سمجھتے ہیں۔ 

یاد رہے، ایکس( ٹوئٹر) کے سابقہ مالک نے تو اُن کا اکائونٹ ہی بند کردیا تھا، جسے ایلون مسک نے آکر کھولا۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ امریکا میں آزادیٔ رائے کا بہت ذکر ہوتا ہے، حالاں کہ امریکی نیشنل سیکیوریٹی انٹیلی جینس کی ایک حالیہ رپوٹ میں بتایا گیا کہ چینی حکومت ٹک ٹاک کے ذریعے امریکی لیڈر شپ سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے اور جمہوریت کو نقصان پہنچاتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک،2022 ء کے ضمنی انتخابات میں امیدواروں کو ٹارگٹ کرتی رہی۔ٹرمپ ٹک ٹاک اور فیس بُک دونوں کو قومی سلامتی کے لیے تھریٹ قرار دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں اگر کچھ دیر کے لیے انٹرنیٹ بند ہوجائے، ٹک ٹاک یا فیس بُک پر مُلک مخالف پروپیگنڈے کے خلاف کوئی قدم اٹھایا جائے، تو اس پر ایسا واویلا مچتا ہے، گویا جمہوریت خطرے میں پڑگئی ہے۔امریکا جمہوریت، انسانی حقوق اور سوشل میڈیا کا بانی ہے، مگر وہاں کے صدر اِن معاملات پر کیا رائے رکھتے ہیں اور کیا اقدامات کرتے ہیں، وہ بھی ہمیں جان لینے چاہئیں۔ویسے، صدر جوبائیڈن بھی سوشل میڈیا پر مختلف پابندیوں سے متعلق بِل پر دست خط کرنے والے ہیں، کیوں کہ کانگریس بھاری اکثریت سے بِل منظور کرچُکی ہے، جس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کا اپنا معاملہ ہو، تو کانگریس کی آزادیٔ رائے پر کیا سوچ ہوتی ہے۔ جمہوریت یا آزادی کے بھاشن تو صرف ہم جیسے کم زور ممالک کے لیے ہیں۔

امریکی مسلمان تارکینِ وطن نے ٹرمپ کو کبھی بھی پسند نہیں کیا، بلکہ وہ اُن سے نفرت کرتے ہیں۔ یہی حال پاکستانی تارکین کا ہے، لیکن ہم بارہا بتا چُکے ہیں کہ پاکستانی تارکینِ وطن کی تعداد بمشکل پانچ لاکھ ہے اور ان میں سے بھی اکثریت جس طرح امریکا منتقل ہوئی، وہ عمل قابلِ رشک نہیں ہے اور یہ بات ٹرمپ جیسے تارکینِ وطن کے مخالفین اچھی طرح جانتے ہیں۔امریکا کی انسانی حقوق کی باتیں تو دنیا نے غزہ میں دیکھ لیں، اِس لیے نئے منظر نامے میں بہت پھونک پھونک کر قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر اپنے مُلک کی سیاست تو وہاں بالکل بھی نہیں کرنی چاہیے۔سائفر جیسے واقعات نے جو شہرت حاصل کی اور امریکی پاکستانیوں نے اس کی جس طرح پذیرائی کی، وہ کسی سے ڈھکی چُھپی بات نہیں۔

یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا اِن پاکستانیوں کو زبردستی اپنے ہاں نہیں لے گیا، اُنہیں وہاں جانے سے پہلے وہاں کے سیاسی اور سماجی امور سمجھ لینے چاہیے تھے۔ پہلے تو تارکینِ وطن کے معاملات پھر بھی برداشت کر لیے جاتے تھے، مگر ٹرمپ جیسے مسلمان تارکین کے مخالف کا دوبارہ اقتدار میں آنا خاصا تشویش کا باعث ہوسکتا ہے۔

افغانستان سے امریکا کی واپسی پاکستانیوں کے لیے جشن کا موقع ہوسکتی ہے، لیکن امریکی عوام اور حکومت اسے کس نظر سے دیکھتی ہے، اس کا ہمیں احساس ہونا چاہیے۔ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلا کے لیے پاکستان کا بھرپور استعمال کیا اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان چار ماہ میں دو مرتبہ حاضری دینے پر مجبور ہوئے، اِسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری کیا وقعت ہے، یہ الگ بات کہ عوام کے سامنے خطوط لہراتے پھریں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ری پبلکن پارٹی کے دَور میں پاکستان میں ہمیشہ آمرانہ رویّوں کو پذیرائی ملی۔ 

وہ ایّوب خان، یحییٰ خان ہوں یا ضیاء الحق اور پرویز مشرّف، یہ طے ہے کہ وہ، امریکی مفاد میں جسے بہتر سمجھتے ہیں، اُس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اگر اِس طرح کے معاملات کو ہماری نظر سے دیکھا جائے، تو ہمیں اس میں سازش، دشمنی یا کچھ اور نظر آسکتا ہے، لیکن اس کا کیا جائے کہ اگر ٹرمپ صدر بن جاتے ہیں، تو وہ دنیا کے سب سے طاقت وَر حُکم ران ہوں گے اور ان کا مُلک سُپر پاور بھی ہے۔