رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے۔ یہ رحمتوں، برکتوں سے بَھرا مہینہ ہے کہ اِس میں رحمتِ الٰہی کے در کُھلے ہوتے ہیں۔اِس ماہِ مقدّس کے دو عشرے مکمل ہونے کو ہیں اور کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ، جنھوں نے اِن ایّام کو تقویٰ و پرہیزگاری اور عبادات کے ذریعے قیمتی بنالیا۔ قرآنِ پاک کا ماہِ صیام سے ایک خاص تعلق ہے کہ یہ اِسی ماہ میں نازل ہوا،تو مسلمان اِس ماہ کی راتوں اور دنوں کو قرآنِ پاک کی تلاوت سے مزیّن کرتے ہیں، یہاں تک کہ جو افراد اپنی غفلت و تساہل کے سبب سال بَھر قرآن پاک نہیں پڑھ پاتے، وہ بھی اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کی کوشش کرتے ہیں۔
اِسی طرح نوافل اور دیگر عبادات کا بھی خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بَھر کے مسلمانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں وہ خُود ماہِ صیام کی زیادہ سے زیادہ برکات سمیٹ سکیں، وہیں دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی راحت و مسرت کا باعث بنیں تاکہ وہ بھی اِس ماہ سے کماحقہ مستفید ہوسکیں۔ اِس ضمن میں کوشش کی جاتی ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے روزے داروں کو ریلیف دیا جائے، مختلف اشیاء خصوصی ڈسکاؤنٹ کے ساتھ فروخت کے لیے پیش کی جاتی ہیں اور یہ’’ سیل‘‘ حقیقی معنوں میں سیل ہی ہوتی ہے کہ رمضان سے پہلے اور اِس ماہ کے دوران اِن کی قیمتوں میں واضح فرق ہوتا ہے۔
تاہم، بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاملہ یک سَر اُلٹ ہے۔ یہاں رمضان کے آغاز سے قبل ہی گراں فروش مافیا متحرّک ہوجاتی ہے اور وہ اشیاء، جن کی اِس ماہ کے دَوران زیادہ مانگ ہوتی ہے، مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔اور پھر ماہِ صیام کے چاند کے ساتھ ہی یہ اشیاء نئے نرخوں کے ساتھ سامنے آ جاتی ہیں، جب کہ مارکیٹ میں پہلے سے دست یاب اشیاء کے نرخ بھی محض تاریخ بدلنے سے بدل جاتے ہیں اور یہ نرخ اِس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ عوام کے ہوش ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔
پھل، سبزیاں، گوشت، پکوڑے، سموسے یا ان میں استعمال ہونے والی اشیاء، دال، چنے وغیرہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوجاتے ہیں، جب کہ مالی طور پر نسبتاً بہتر پوزیشن رکھنے والے بھی اِن اشیاء کی خریداری آسانی سے نہیں کرپاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ گراں فروش مافیا اِس قدر مضبوط ہوچُکی ہے کہ اب حکومتیں بھی اُن کے سامنے مکمل طور پر بے بس نظر آتی ہیں اور اِس مافیا کی بیخ کُنی کی بجائے’’ رمضان پیکیج‘‘ کے نام پر چند ہزار افراد کو کچھ سہولتیں فراہم کرکے باقی عوام کو ان ہی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور جن سہولتوں کی فراہمی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، اُن سے بھی عوام بخوبی واقف ہیں۔
اگر ہم رواں ماہِ صیام کو دیکھیں، تو اِس بار بھی اس کا آغاز منہگائی کے طوفان کے ساتھ ہوا۔ سو، ڈیڑھ سو روپے درجن ملنے والے کیلے راتوں رات تین سو روپے تک جاپہنچے، تو سیب، پپیتا، امرود اور چیکو وغیرہ بھی عوام کی پہنچ سے دُور ہوگئےہیں۔ اِسی طرح مرغی اور گائے کے گوشت کے نرخ بھی بڑھا دئیے گئے۔مٹن کی خریداری تو عام دنوں میں بھی عام آدمی کی دسترس میں نہیں، مگر رمضان میں اِس کے بھی نرخ یک دَم چار سو روپے کلو تک بڑھ گئے ہیں۔عام سبزیوں آلو، پیاز کے دام آسمان تک پہنچ گئے ہیں، تو خاص طور پر ہری پیاز، بند گوبھی، شملہ مرچ وغیرہ تو سونے کے بھاؤ مل رہی ہیں۔
اِس صُورتِ حال نے عام افراد کے لیے ماہِ صیام کو اس قدر مشکل بنا دیا ہے کہ اُن کا سحر و افطار کا دستر خوان مسلسل سُکڑتا ہی جا رہا ہے، تو دوسری طرف، وہ عید کی بھی مناسب تیاریاں نہیں کرپاتے کہ ناجائز منافع خور مارکیٹس میں چُھریاں تیز کیے بیٹھے ہیں کہ روزہ داروں کی کھال اُدھڑنے میں اگر کوئی کسر رہ گئی ہو، تو عید کے موقعے پر وہ کمی بھی پوری کرلی جائے۔
زیادہ مسائل کا سامنا گھر کے کمانے والے یا والدین کو کرنا پڑتا ہے کہ وہ خود تو سادہ پانی، روٹی سے سحر و افطار کرسکتے ہیں، مگر بچّوں کا کیا کریں، جو اپنے اڑوس پڑوس، ٹی وی اسکرینز یا سوشل میڈیا پر انواع و اقسام کے پھلوں اور دیگر لوازمات سے بَھرے رمضان دستر خوان دیکھتے ہیں، تو اُن کا موازنہ اپنے ہاں سے کرتے ہوئے اُن کے چہرے مُرجھا جاتے ہیں۔اپنی زبان سے کچھ نہ بھی کہیں، تب بھی والدین کے دِلوں پر جو گزرتی ہے، اُسے وہی بہتر سمجھ سکتا ہے، جو خُود کبھی کسی ایسے تجربے سے گزرا ہو۔
نسیم خان ایک نجی اسکول میں ملازمت کرتے ہیں،جہاں اُن کا ماہانہ مشاہرہ حکومت کی طے کردہ کم سے کم تن خواہ سے بھی کم ہے۔ وہ اِس قلیل آمدنی میں اپنے بچّوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھلا پاتے، اِس لیے شام کو ایک اور جگہ بھی کام کرتے ہیں۔ یوں صبح سے رات گئے تک ملازمتیں کرنے سے جیسے تیسے گھر چل ہی جاتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ منہگائی تو پہلے بھی تھی، لیکن حالات اِیسے بُرے بھی نہیں تھے، جیسے پچھلے چند برسوں سے بھگتنے پڑ رہے ہیں کہ اب تو اشیائے ضروریہ کی کوئی قیمت ہی مقرر نہیں رہ گئی، جس کے جو دِل میں آتا ہے، نرخ مقرّر کردیتا ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ کوئی اُنہیں پوچھتا تک نہیں۔
جھوٹ نہیں بولوں گا، پہلے افطاری اور سحری اچھی ہو جاتی تھی، نوابوں والی نہ سہی، مگر پھل، گوشت، دودھ، دہی سب کچھ ہی ہوتا تھا، مگر اب بہت مشکل ہوگئی ہے۔ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ پھل لیں یا آٹا، پیاز ٹماٹر خرید لیے تو باقی اشیاء کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ بازار سے پکوڑے، سموسے خرید نہیں سکتے کہ منہگے ہیں، مگر گھر پر بھی کیسے بنائیں۔ بیسن، دالوں اور آئل کے آسمان کو چُھوتے نرخوں کا معاملہ ایک طرف، تو گیس کی علانیہ و غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ ایک الگ مسئلہ ہے۔
یوں پکوڑے، سموسے تک اب خواب بن کے رہ گئے ہیں۔ویسے تو ہمارے لیے سارا سال ہی رمضان ہے، لیکن ماہِ صیام میں بچّے بہت ذوق و شوق سے روزہ رکھتے ہیں، تو یہ دیکھ کر دل کٹ جاتا ہے کہ افطار میں سادہ روٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ خُود پر افسوس ہوتا ہے کہ دن رات محنت کر کے بھی بچّوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات تک پوری نہیں کر پا رہا، صرف تسلّیاں دے دے کر ہی وقت گزار رہا ہوں۔چلیں، یہ بات تو ٹھیک ہے کہ زیادہ کھپت کی وجہ سے بہت سی اشیاء کی قلّت ہوجاتی ہے اور یوں اُن کے نرخ بڑھ جاتے ہیں، مگر نرخوں میں تھوڑا بہت فرق ہو ،تو بات ہضم ہوسکتی ہے، یہاں تو دُکان داروں کے رُوپ میں جیب تراش بیٹھے ہیں۔
پھر ظلم، بے حسی اورلاپروائی کی انتہا یہ ہے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، ہر دُکان دار نے اپنا ریٹ لگایا ہوا ہے۔ بچپن سے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا نام سُنتے آ رہے ہیں، اللہ جانے، ایسی کمیٹیوں کا کوئی وجود ہے بھی کہ نہیں یا وہ بھی مافیا سے ملی ہوئی ہیں۔رمضان کا بڑا حصّہ تو گزر ہی گیا، اب یہ سوچ رہا ہوں کہ عید کیسے گزرے گی، بچّے تو ابھی سے کپڑوں، جوتوں کی باتیں کرنےلگے ہیں۔اب اُنھیں تو علم نہیں کہ باپ دو، دو نوکریوں کے بعد بھی کچن کا پیٹ نہیں بھر پا رہا، نئے کپڑے کہاں سے دِلوائے گا۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ چھوٹی عید تو ہوتی ہی بچّوں کی ہے اور اگر اِس پر بھی اُنھیں نئے کپڑے، جوتے نہ ملیں، تو ایسے گھرانے میں کیا عید ہوگی؟‘‘
بلال عبّاسی ٹھیلے پر بریانی بیچ کر اپنی گزر بسر کرتے ہیں،مگر وہ بھی منہگائی کے اس منہ زور طوفان سے بُری طرح پریشان ہیں۔اپنے کام سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ’’ اب کوئی نہیں لیتا بریانی، حکومت نے کسی کو اِس قابل چھوڑا بھی ہے کہ لوگ بريانیاں کھاتے پھریں۔بھیا! اب تو سادہ چاول کھانا مشکل ہوگیا ہے، لوگوں کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں، کاروبار ٹھپ ہے۔جہاں پہلے روزانہ چار، پانچ پتیلے بِک رہے تھے، اب رات دو بجے تک صرف ایک ہی پتیلا بڑی مشکل سے بِکتا ہے۔
ایک کام نہیں، اوپر سے گھر کے کرائے، بجلی، گیس کے بِلز، بچّوں کی اسکول فیسز اور راشن کی فکر دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے۔ صرف اللہ ہی کے آسرے پر بیٹھے ہیں کہ وہی اِن حالات میں چلا رہا ہے اور کچھ نہ کچھ بھرم باقی ہے۔ چار بچّوں کی اسکول فیسز اور دیگر تعلیمی اخراجات ہی اِتنے ہیں کہ افطار کے لمبے چوڑے اہتمام کے لیے پیسے نہیں بچتے۔ سچّی بات یہ ہے کہ اگر اڑوس پڑوس سے اچھی افطاری آجائے تو الگ بات، ورنہ اپنے پاس سے تو افطاری کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا کہ جو کماتے ہیں، اُس سے دیگر اخراجات ہی پورے نہیں ہوپاتے۔
عید کی آمد آمد ہے اور بچّوں کے کپڑوں کے لیے پیسے نہیں ہیں۔حالات ایسے ہیں کہ اب ادھار بھی نہیں ملتا کہ ہر کوئی پریشان ہے، کوئی کسی کو ادھار کیا دے گا۔اللہ اپنی پناہ میں رکھے، مگر اگر کبھی کوئی دۃکھ بیماری آ ہی جائے، تو اِس ڈر سے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے کہ پیسے علاج پر خرچ ہوگئے تو گھر کا خرچ کیسے پورا کریں گے۔ حکومتیں بن رہی ہیں، گر رہی ہیں، مگر کسی کو غریب کی کوئی فکر نہیں کہ اُن کا وقت کیسے کٹ رہا ہے، سب جماعتیں اپنے اپنے چونچلوں میں لگی ہوئی ہیں۔‘‘
عبدالشاداب ایک نجی کمپنی میں ملازم ہیں۔موجودہ حالات پر اُن کا کہنا ہے کہ’’ میری کُل تن خواہ انیس ہزار روپے ہے اور کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، گزر اوقات کیسے ہو رہی ہے، خود ہی اندازہ لگالیں۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کبھی کبھی تو گھر سے کمپنی تک جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا۔مَیں چند جماعتیں پڑھا ہوا ہوں، اِس لیے مجھے نہیں پتا کہ مُلک میں منہگائی کیوں ہے اور اِس کا ذمّے دار کون ہے، مگر بھائی اِتنا ضرور جانتا ہوں کہ اِس منہگائی نے غریب کو تو مار ہی ڈالا ہے۔
میرے دو بچّے اسکول جاتے ہیں، اُنھیں یہ سوچ کر پڑھا رہا ہوں، شاید زندگی بن جائے، مگر اسکول وین کا کرایہ، فیسز اور دیگر تعلیمی اخراجات اِس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اب بچّوں کو مزید پڑھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب بچّے تو بچّے ہیں، پھل بِکتے دیکھتے ہیں، تو کھانے کی ضد کرتے ہیں، مگر اُنھیں کیا معلوم کہ باپ کی جیب تو خالی ہے۔جس دن بچّے دو وقت کی روٹی پیٹ بَھر کے کھالیں، ہمارے لیے تو وہی عید کا دن ہے۔ہم تو افطار میں سادہ روٹی، سالن کھا لیں، بڑی بات ہے، باقی بڑے بڑے دستر خوانوں کی باتیں صرف بڑے لوگوں ہی کے لیے ہیں۔ یہی معاملہ عید کا ہے۔
بچّوں نے نئے کپڑوں کی فرمائش کر رکھی ہے، مگر کہاں سے دِلواؤں؟کبھی سوچتا ہوں کہ اِس بار مالکِ مکان کو کرایہ نہ دوں اور جو پیسے بچیں، اُن سے بچّوں کو نئے کپڑے دِلوا دوں، مگر پھر اگلے ماہ ڈبل کرایہ کہاں سے دوں گا۔ یہ بھی خیال آتا ہے کہ ایک کو اِس عید پر نئے کپڑے بنوا دوں اور دوسرے سے بقر عید کا وعدہ کرلوں۔ اسکول میں بچّوں کے امتحانات چل رہے ہیں، اُس کے لیے الگ فیس دینی ہے اور وہ تو وقت پر، پوری فیس لیتے ہیں، اُنہیں عید یا رمضان سے کیا لینا دینا۔‘‘
وزیر احمد ایک کوریئر کمپنی سے وابستہ ہیں، مگر وہ بھی منہگائی کے ستائے ہوئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ جو دن عزّت سے گزر جائے، اُس پر شُکر کرنا چاہیے کہ منہگائی نے اچھے اچھوں کا بھرم کھول دیا ہے۔رمضان ہو یا عید، ہمارے کھانے پینے کے اوقات تو بدلتے ہیں، مگر اشیاء وہی سادہ سی رہتی ہیں کہ دسترخوان سجانے کی استطاعت نہیں۔ افطار کے لیے کوئی خاص چیز نہیں بناتے۔عام چینی کا شربت اور کھٹے آلو کے علاوہ اِس منہگائی میں کھا بھی کیا سکتے ہیں۔اگر پھل لیں، تو پھر کھانے کے پیسے نہیں بچتے۔سبزی تک ہماری پہنچ سے دُور ہوگئی ہے۔
پہلے سحری میں دہی وغیرہ کھا لیتے تھے، مگر وہ بھی اب 80 روپے کی پاؤ ملتی ہے۔ دودھ اِتنا منہگا ہو گیا ہے کہ چائے ہی کے لیے مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ہماری یا ہمارے بچّوں کی خواہشات نہیں ہیں، دل تو بہت کچھ چاہتا ہے، مگر خالی جیب کچھ نہیں ملتا۔ بچّے کوئی چیز لینے کی ضد کرتے ہیں، تو اُنھیں بڑی مشکل سے بہلا پھسلا کر صبر پر مجبور کرنا پڑتا ہے کہ اب اُنہیں پڑھائیں یا اُن کی فرمائشیں پوری کریں؟ اِس چکر میں کئی بار تو بے چاروں کو مار بھی پڑ جاتی ہے اور بعد میں اُنھیں دیکھ کر ہمارا بھی دِل دُکھتا ہے۔ جس طرف بھی چلے جائیں، دُکان دار منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں، مگر حکومت اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو، ہمارے دن پِھرنے والے نہیں۔‘‘